حسبِ روایت ''عوام دوست‘‘ اور ''ٹیکس فری‘‘ کے خوش کن و دلفریب الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر سیاسی جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت نے مالی سال 2022-23ء کیلئے تقریباً 95کھرب حجم کا میزانیہ پیش کر دیا ہے۔ ہر سابقہ حکومت کی طرح موجودہ سرکار نے بھی بجٹ پیش کرتے وقت عوامی بجٹ پیش کرنے کا بلند بانگ دعویٰ کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ پہلی بار آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے ایسا بجٹ پیش کیا گیا جس میں عوام کو قطعاً نظر انداز کر دیا گیا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف اس بجٹ سے خوش ہو کر ہمارے کاسے میں چند مزید سکے ڈال دے۔ ستم در ستم‘ ہمیں قرض کی میٔ پیتے پیتے ساٹھ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور آج بھی ملک وہیں پر کھڑا ہے جہاں سے یہ سفر شروع کیا تھا بلکہ مزید پیچھے جا چکا ہے۔ وفاقی حکومت کے حالیہ بجٹ میں متوسط طبقے کو یکسر انداز کر دیا گیا ہے کیونکہ آنے والے دنوں میں ٹیکسوں کی مد میں ہونے والے اضافے اور تیل اور گیس پر لیوی کی مد میں محصولات سے مہنگائی کا جو طوفان آئے گا‘ اس کا بوجھ عوام ہی نے سہنا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کچھ اضافہ کر کے حکومت طفل تسلیاں دے رہی ہے جبکہ سرکاری ملازمین تو پورے ملک میں 10 سے 11 لاکھ کے لگ بھگ ہیں جبکہ سفید پوش طبقے کی بڑی تعداد نجی شعبے میں کام کرتی ہے جہاں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باوجود ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا جاتا۔ نئے بجٹ میں کچھ ایسے ٹیکسز اور لیویز بھی شامل ہیں جن کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن فنانس بل میں یہ شامل ہیں لہٰذا ان پر عملدرآمد سے حالات مزید گمبھیر ہونے والے ہیں۔
دوسری جانب اشرافیہ کو فراہم کی جانے والی مراعات کا بوجھ بھی براہِ راست متوسط طبقے پر پڑ رہا ہے لہٰذا سرکاری افسران اور کابینہ کے ارکان کو فیول اور بجلی کی مد میں دی جانے والی سبسڈی مکمل بند کرکے غیر ضروری دوروں پر پابندی لگانا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرتی جا رہی ہے اس سے عام آدمی کی قوتِ خرید مزید بگاڑ کا شکار ہو رہی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مزید قرضوں کے حصول کیلئے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر عمل کرنے کے لیے عوام پر مہنگائی کا ایٹم بم گرا دیا گیا ہے۔ ملک میں مہنگائی کے خلاف احتجاجی مارچ کرنے، عوام کو ریلیف مہیا کرنے اور کشکول توڑنے کے وعدے کرنے والی سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر کے ملکی تاریخ میں نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین کی طرف سے مذکورہ وعدوں اور اعلانات کے پس منظر میں یہ یقین تھا کہ وہ معاشی صورتِ حال کی سنگینی سے بخوبی واقف ہیں اور ان کے پاس معاشی ماہرین اور ٹیکنو کریٹس کی ایسی اہل ٹیم موجود ہے جو اقتدار میں آتے ہی اس بگاڑ کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؛ چنانچہ عوام نے بھی ان کے وعدوں اور اعلانات پر اعتبار کر لیا لیکن ان کی تمام امیدیں اس وقت نقش بر آب ثابت ہوئیں جب درجن سے زائد سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت نے عوام کو ریلیف تو کیا الٹا انہیں مہنگائی کی چکی میں اس قدر پیسنا شروع کر دیا گیا کہ ان کی چیخیں نکل گئیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ صرف ڈھائی ماہ کے عرصے ہی میں پٹرولیم مصنوعات، بجلی، کوکنگ آئل، گھی، چاول، دالوں اور ذرائع آمدورفت وغیرہ پر اٹھنے والے اخراجات کئی گنا تک بڑھ گئے ہیں۔ ڈالر 208 روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے اور غیر ملکی قرضوں کا حجم یک دم کئی گنا ہو گیا ہے۔ اس کے تمام منفی اثرات عام آدمی ہی پر پڑیں گے جبکہ حکومت نے آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے کا ابھی تک روڈ میپ نہیں دیا۔ہر آنے والے حکمران نے معاشی دجال کی غلامی کا طوق گردن میں پہننا گویا طے کر رکھاہے۔اس وقت حکومتی اداروں کے خلاف نفرت عروج پر ہے۔ سیاسی، سرمایہ کار اور جاگیردار مافیا اس قدر طاقتور ہے کہ اس کی موجودگی میں پاکستان کو بیرونی دشمنوں کی ضرورت نہیں۔ یہ مافیا دوست نظام ملک اور قوم کی جڑیں کیسے کھوکھلی کررہا ہے‘ وہ سب پر عیاں ہے۔ہمارا واسطہ کس قسم کے لوگوں سے پڑ چکا ہے‘ اس کا ہمیں احساس ہی نہیں۔
یہاںسوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ موجودہ حکومت ناپسندیدگی اور بدنامی مول لینے کیلئے تیار ہے، کیا اس کے بعد وہ عوام میں پذیرائی حاصل کر پائے گی؟ میری نظر میں اس وقت پاکستان کے تین بڑے مسائل ہیں؛ مہنگائی‘ بے روزگاری اور نا انصافی۔ توانائی بحران بھی پاکستان کا سنگین مسئلہ بن چکا ہے جس پر سابقہ ادوار میں بھی قابو نہیں پایا جا سکا۔ موجودہ مخلوط حکومت نے آبی وسائل کے لیے جو فنڈز مختص کیے ہیں‘ وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہیں کیونکہ اس سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ مذکورہ تمام مسائل کے حل کیلئے چند ایسے آپشنز ہیں کہ اگر حکومت ان پر متوجہ ہو تو عوام کو جلد از جلد ریلیف مہیا کر سکتی ہے۔اول یہ کہ ایران کے ساتھ تجارت کو فروغ دیا جائے جو وہ بارٹر کی شکل میں کرنا چاہ رہا ہے۔ ہم اس سے گیس، بجلی اور تیل لے سکتے ہیں جو بھارت بھی اس سے لے رہا ہے۔ اسے ڈالر کی شکل میں ادائیگی کرنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ ایران اس کے بدلے اجناس و دیگر ڈیری مصنوعات کی تجارت چاہتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایران پاکستان سے 37 بلین ڈالر تک ٹریڈ بڑھانے کا خواہاں ہے اور اس خواہش کا اظہار ایک پروگرام میں سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے خود مجھ سے کیا تھا۔ اعدادوشمار کے مطابق5 بلین ڈالرز کی تجارت تو ہماری افغانستا ن سے رہی۔ یورپ سے 7 بلین ڈالرز اور 6.1 بلین ڈالرز امریکہ سے۔ ون بیلٹ ون روڈ کے تحت روس کے ساتھ تجارتی معاہدے نہ کر کے ہم نے چین کو ناراض کر دیا ہے۔ اگرچہ سعودی عرب اور قطر سمیت دیگرخلیجی ممالک نے ہماری معاشی مد د کا اعلان کیا تھا مگر وہ مغربی دبائو کے نتیجے میں پیچھے ہٹ گئے ہیں لیکن ایران سے تجارت کے مواقع تو ہمارے پاس ہیں۔ایران سے سستی بجلی، گیس و پٹرول سے ہمیں بنیادی مسائل سے نجات مل جائے گی۔ نہ صرف توانائی کے بحران کو قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ سستے فیول سے ٹرانسپورٹ و زراعت کے مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔
موجودہ عالمی تناظر میں اب امریکا افغانستان میں دوست بن کر آنا چاہتا ہے اور اس کیلئے اسے پاکستان ہی کی ضرورت پڑے گی۔اس لیے ہمیں ترپ کا پتا احتیاط سے کھیلنا ہو گا؛ تاہم یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ بین الاقوامی تجارت میں توازن لائے اور معاشی اصلاحات کیے بغیر اقتصادی ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ یہ ڈویلپمنٹ بھی ہمارے لیے خوش آئند ہے کہ بین الاقوامی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے باہر آنے کی منزل قریب آپہنچی ہے۔ وطن دشمن عناصر بالخصوص بھارت کی پوری کوشش رہی کہ پاکستان کو گرے لسٹ بلکہ بلیک لسٹ میں شامل کر کے اس پر اقتصادی پابندیاں لگوائی جائیں تاکہ پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہو جائے مگر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ عساکر پاکستان اور حکومتی پالیسی ساز اداروں نے فیٹف کے ہدف کو پورا کر دکھا یا،جس کے بعد ہمارے ازلی دشمن کو منہ کی کھانا پڑی۔یہ وقت اس بحث کا نہیں ہے کہ اس کامیابی کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے ‘ کس کو نہیں۔ غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ ہم نے فیٹف کی لٹکتی تلوار کو سر سے ہٹانے میں کیا کیا گنوا دیا ہے؟
اگر! امت مسلمہ وحد ت کی لڑی میں پروئی ہوئی ہوتی تو آج کسی بھی مسلم ملک کو معاشی دجالی نظام کے شکنجے میں نہ جکڑا جاتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت دنیا کی اقتصادیات پر عالمی صہیونیت کا قبضہ ہو چکا ہے۔ صہیونیت اور اس سے وابستہ ''باطنی یہودی فرقوں‘‘ کے حوالے سے کبھی مسلم دنیا میں آگاہی کا کام نہیں کیا گیا۔ بد قسمتی سے پاکستان جیسے ملک‘ جس کی بنیاداسلامی فکراور نظریات پر ہے‘ کو ایسے سکالروں کی بڑی تعداد میسر نہ آسکی جو انہیں بدلتے عالمی حالات میں اسلام کا نفاذ ممکن کرکے دکھاتی۔ اسلام سے زیادہ کرسیٔ اقتدار سے محبت کرنے والوں کی بدولت ہی آج اسرائیل اپنے آپ کو منوانے کی پوزیشن میں آچکا ہے۔