امریکہ موت کے چکر ویو میں پھنس گیا؟

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ امریکہ‘ روس یوکرین جنگ کے باعث موت کے ایسے چکر ویو میں پھنس چکا ہے جس سے نکلنا اس کیلئے آسان نہیں رہا۔ یہاں چاہے تیز رفتار ٹرینیں نہیں‘ کوئی صحت عامہ کی سہولیات نہیں‘ ہوشربا مہنگائی سے بھی کوئی سرو کار نہیں۔ اوسطاً 68سال پرانی بوسیدہ سڑکوں اور پلوں کی مرمت کے لیے کوئی انفراسٹرکچر پروگرام نہیں‘ جس کے لیے 41.8 بلین ڈالر درکار ہیں۔ طلباء کیلئے 1.7ٹریلین ڈالر قرض کی معافی نہیں۔ ذرائع آمدنی میں بڑھتی عدم مساوات کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ اُن 17ملین بچوں میں خوراک کی کمی دور کرنے کیلئے کوئی پروگرام زیر غورنہیں جو ہر رات بھوکے سوتے ہیں۔ امریکہ میں آتشیں اسلحے پر کنٹرول‘ غیر منطقی تشدد اور بڑے پیمانے پر فائرنگ کی وبا کی روک تھام کیلئے سنجیدہ اقدامات اٹھانے پر زور نہیں دیا جارہا۔ ان ایک لاکھ امریکیوں کے لیے کوئی مدد میسر نہیں جو ہر سال منشیات کی زیادتی سے مر جاتے ہیں۔ گزشتہ 44 سال سے التواء میں پڑا اجرت بڑھانے کا منصوبہ مسلسل نظر انداز ہے جو فی گھنٹہ 15ڈالرکم از کم اجرت ہے۔ لیکن‘ یوکرین کو تقریباً 40بلین ڈالر کی امداد کی فراہمی کا طوق واشنگٹن نے اپنے گلے میں ڈال لیا ہے۔ کہ دوسری قوموں پر چڑھائی‘ فوجی جارحیت اور دنیا پر بالادستی کے نظریے نے اسے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے نافذ مستقل جنگی معیشت نے تمام نجی و پرائیویٹ معاشی نظام تباہ کر دیا‘ قوم دیوالیہ ہو گئی اور ٹیکس دہندگان کے کھربوں ڈالر ضائع کر دیے گئے۔ فوج کی سرمائے پر اجارہ داری نے امریکی قرضے کو 30ٹریلین ڈالر تک پہنچا دیا ہے جو کہ 24ٹریلین ڈالر کی امریکی جی ڈی پی سے 6ٹریلین ڈالر زیادہ ہے۔ جبکہ قرض کی مد پر سالانہ 300بلین ڈالر کا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مالی سال 2023ء کے لیے 813بلین ڈالر فوجی اخراجات کیلئے مختص کیے گئے جو 9ممالک بشمول چین اور روس کے مشترکہ بجٹ کے برابر ہے۔ بلاشبہ فوجی جارحیت کی سماجی‘ سیاسی اور اقتصادی طور پر بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ واشنگٹن اخلاقی‘ سیاسی‘ معاشی اور جسمانی طور پر امریکہ کو سڑتے ہوئے دیکھ رہا ہے‘ جبکہ چین‘ روس‘ سعودی عرب‘ ہندوستان اور دیگر ممالک خود کو امریکی ڈالر کی بالادستی سے نکالنے کیلئے مسلسل سرگرم ہیں ‘ ایک بار جب امریکی ڈالر دنیا کی ریزرو کرنسی نہیں رہے گا‘ ایک بار جب SWIFT کا متبادل ہو جائے گا تو یہ انکل سام کی اندرونی اقتصادی تباہی کا باعث بنے گا۔ یہ امریکی سلطنت کو فوری طور پر بکھیر کر رکھ دے گا جس کے نتیجے میں اس کی تقریباً 800بیرون ملک فوجی تنصیبات بھی بند ہو جائیں گی۔ درحقیقت یہی Pax Americana کی موت کا اشارہ ہوگا۔
امریکہ میں ڈیموکریٹس برسراقتدار ہو یا ریپبلکن‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وائٹ ہائوس میں ''قومی سلامتی‘‘ کے نام پر فوجی اخراجات میں اسراف کو ہر حکومت میں جائز قرار دیا جاتا ہے۔ اسی جارحانہ اصول کے تحت روس یوکرین تنازع میں یوکرین کے لیے تقریباً 40بلین ڈالر مختص کیے گئے ہیں‘ اور جس میں سے ایک بڑا حصہ امریکی اسلحہ سازکمپنیوں کے ہاتھوں میں چلے جانا تو ابھی صرف اس کی شروعات ہے۔ امریکی فوجی ماہرین جو حالیہ ماسکو یوکرین جنگ کی طوالت کی پیش گوئی کر رہے ہیں‘ وہ یوکرین کو ماہانہ 4یا 5بلین ڈالر کی فوجی امداد دینے کی بات کر تے ہیں۔ ان کے مطابق ہمارے وجود کو ایسے خطرات کا سامنا ہے جن کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (CDC) کے لیے مالی سال 2023ء میں مجوزہ بجٹ 10.675 بلین ڈالر ہے۔ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (EPA) کا مجوزہ بجٹ 11.881 بلین ڈالر ہے۔ دوسری جانب صرف اکیلے یوکرین کو دی جارہی رقم مذکورہ تمام بجٹ سے دگنی ہے۔ ان کے نزدیک جنگ ہی سب سے اہم اور لازم ہے جو صرف اور صرف اجتماعی خودکشی کا نسخہ ہے۔
قبل ازیںمستقل جنگی معیشت کی حرص اور خونریزی کے لیے تین پابندیاں تھیں جو اب نہیں ہیں۔ پہلا ڈیموکریٹک پارٹی کا پرانا لبرل ونگ‘ جس کی قیادت سینیٹر جارج میک گورن‘ سینیٹر یوجین میک کارتھی اور سینیٹر جے ولیم فلبرائٹ کر رہے تھے‘ جنہوں نے 'پینٹاگون پروپیگنڈا مشین‘ لکھی۔انہوں نے امریکی صدر کو افغانستان یا کسی اور جگہ جنگ چھیڑنے کی اجازت دینے کی کھلے عام مخالفت کی تھی۔ اور حال ہی میں الہان عمر پراکسی جنگ میں فنڈ دینے کیلئے فرض شناسی کے ساتھ کھڑی ہیں۔ دوسری پابندی ایک آزاد میڈیا اور اکیڈمیا تھا۔سوئم‘ شاید سب سے اہم‘ ایک منظم جنگ مخالف تحریک تھی‘ جس کی قیادت مذہبی رہنماؤں جیسے ڈوروتھی ڈے‘ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور فل اور ڈین بیریگن کے ساتھ ساتھ سٹوڈنٹس فار اے ڈیموکریٹک سوسائٹی (SDS) جیسے گروپس نے کی۔ وہ سمجھتے تھے کہ عسکریت پسندی ایک مہلک بیماری ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ دونوں حکمران جماعتوں کو کارپوریشنوں‘ خاص طور پر فوجی ٹھیکیداروں نے خرید لیا ہے۔ ذرائع ابلاغ و میڈیا قوت مزاحمت کی کمی کا شکار ہے اور جنگی صنعت کے لیے انتہا پسندی اور تعصب عروج پر ہے۔ لبرل طبقے نے بوتیک ایکٹیوزم کی طرف پسپائی اختیار کر لی ہے جہاں طبقاتی‘ سرمایہ داری اور عسکریت پسندی کے مسائل کو cancel culture سمیت کثیر الثقافتی اور شناختی سیاست کی فہرست میں شامل کر دیا ہے اور یوکرین کو نئے ہٹلر کے خلاف آزادی اور جمہوریت کی تازہ ترین صلیبی جنگ کے طور پر قبول کیا گیا ہے تاہم یہ اندیشہ بھی ہے کہ عالمی سطح پر پیش آنے والی آفات کو کم کرنے یا ان کے خاتمے کی کوششوں میں کمی واقعی ہو جائے گی۔ نو قدامت پسند اور لبرل مداخلت پسند اتحاد جنگ کا نعرہ لگاتے ہیں کیونکہ بائیڈن نے ان کو جنگجو مقرر کیا ہے۔ جن کے نیوکلیئر جنگ کے ہولناک کردار کی عکاسی پینٹا گون‘ نیشنل سیکورٹی کونسل اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کرتے ہیں‘ یہ ادارے صرف جنگ ہی کرتے ہیں اور ان کے نزدیک تمام مجوزہ مسائل کا حل فوجی ہی ہے۔ بلاشبہ اس فوجی مہم جوئی نے زوال کو تیز کر دیا ہے‘ جیسا کہ ویتنام میں شکست اور مشرق وسطیٰ کی بے کار جنگوں میں 8ٹریلین ڈالر کا ضیاع اس کی مثال ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جنگ اور پابندیاں گیس اور قدرتی وسائل سے مالا مال روس کو کمزور کر دیں گی۔ کیاجنگ یا جنگ کا خطرہ‘ چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اور فوجی تسلط کو روک سکے گا؟ یہ ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں‘ اب وہ اپنے معاشرے اور معیشت کو بچانے کے قابل نہیں رہے‘ وہ اپنے عالمی حریفوں خصوصاً روس اور چین کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور انڈو پیسیفک پر تسلط کیلئے توجہ مرکوز کر لی ہے جس پر ہلیری کلنٹن بطور سیکرٹری آف سٹیٹ‘ نے بحرالکاہل کا حوالہ دیا اور جسے The American Sea ''امریکی سمندر‘‘ کہا جاتا ہے۔برطانیہ کے سینٹر فار اکنامکس اینڈ بزنس ریسرچ (سی ای بی آر) کے مطابق‘ فی الوقت چین کے بڑھتے ہوئے معاشی و عسکری اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے شکست خوردہ واشنگٹن خطے میںعسکری اور اقتصادی نئے الائنس بنانے کی شدت سے کوشش کر رہا ہے کہ جس کی معیشت 2028ء تک امریکہ سے آگے نکل جانے کی توقع ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق بائیڈن کا ایشیا کا موجودہ دورۂ بیجنگ کا مقصد دوسروں کو ایک ''طاقتور پیغام‘‘ پہنچانا ہے کہ اگر جمہوریتیں ''ایک ساتھ کھڑی ہوں تو دنیا کیسی ہو سکتی ہے‘‘۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں‘ پوری تاریخ انسانی میں تباہ کن نتائج کے ساتھ مٹنے والی سلطنتیں اس کی مثالیں ہیں۔ ''یہ ایتھنز کا عروج اور سپارٹا میں پیدا ہونے والا خوف تھا جس نے جنگ کو ناگزیر بنا دیا تھا‘‘۔ موجودہ عالمی تناظر میں یورپی اتحادیوں میں سے بھی چند‘ امریکہ کے زیر تسلط رہنے کے لیے تیار ہیں۔ واشنگٹن کی سیاہ جمہوریت اور انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی خلاف ورزیاں ناقابل تلافی ہے۔ چین کی مینوفیکچرنگ امریکہ کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ ہونا سپر پاور امریکہ کے معاشی زوال کی جانب بھی اشارہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں