''جدہ کانفرنس برائے امن و ترقی‘‘ میں جوبائیڈن کے اس اعتراف کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اسرائیل کی درخواست پر اس سفر کا آغاز کیا‘ نے بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ واشنگٹن صہیونی حکومت کے عرب ممالک سے قریبی سکیورٹی تعلقات پر زور دے رہا ہے تاکہ جوہری توانائی کے حصول کے لیے سرگرم ایران اور اس کے اتحادیوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے فضائی دفاعی نظام کو مزید مربوط کیا جا سکے۔ یقینا یہ تمام تر اقدامات ایران کے خلاف دشمنی اور جارحیت پر مبنی ہیں؛ تاہم آنے والے دنوں میں اس حوالے سے کسی بڑے فیصلے یا پیشرفت کی توقع نہیں۔ ایران کے ایٹمی معاہدے کو بحال کرنے کی کوششوں، جوہری پروگرام اور حمایت یافتہ یمن کے حوثی اتحادیوں کی جانب سے میزائل حملوں میں اضافے کے باعث اس منصوبے کو تقویت ملی ہے۔ دنیا کی نظریں اس وقت امریکی صدر اور سعودی ولی عہد کے مابین طے پانے والے 18 معاہدوں پر مرکوز ہیں کہ ان کے مشرق وسطیٰ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکی کانگریس کی چھ کمیٹیوں کے سربراہوں نے ایک مشترکہ خط میں امریکی صدر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یمن پر حملوں کو بند کرنے کی حمایت جاری رکھیں۔ سعودی عرب نے رواں برس اس جنگ میں اپنے موقف میں نرمی لاتے ہوئے اقوام متحدہ کی ثالثی میں جنگ بندی کا معاہدہ کرکے یمن کے حوثی باغیوں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھایا تھا؛ تاہم جو بائیڈن نے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ جمہوریت اور حقوق انسانی کے چیمپئن ہونے کے دعووں کے باوجود ان کی مشرق وسطیٰ کی پالیسیاں اپنے پیش رو صدر سے کچھ مختلف ہیں۔ حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ کے ایک کالم میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ انہوں نے ورثے میں ملنے والی ''بلینک چیک پالیسی‘‘ کو بدل دیا ہے۔
سعودی عرب گو کہ امریکی صدر کے ارادوں کے متعلق وضاحت چاہتا ہے کہ اقتدار سنبھالتے ہی تعلقات کو تبدیل کیونکر کیا گیا؟ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ولی عہد محمد بن سلمان از سر نو تعلقات کے خواہاں بھی ہیں جس کا آغاز وہ ایک مضبوط دو طرفہ سکیورٹی معاہدے کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ سعودی وژن 2030ء کے اصلاحاتی منصوبے کے مطابق ان معاہدوں کا مقصد امید افزا شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنا ہے۔ 13 معاہدوں‘ جن پر امریکی صدر جو بائیڈن کے دورۂ سعودی عرب کے دوران دستخط کیے گئے‘ میں کئی معروف امریکی کمپنیاں مثلاً بوئنگ ایرو سپیس، ریتھیون ڈیفنس انڈسٹریز، میڈٹرونک اینڈ ڈیجیٹل ڈائیگناسٹک اور صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں IKVIA شامل ہیں۔ سعودی اور امریکی توانائی کی وزارتوں نے صاف توانائی سے متعلق شراکت داری جبکہ خلائی اتھارٹی نے ناسا کے ساتھ ایک معاہدے پر بھی دستخط کیے جس سے چاند اور مریخ پر مشترکہ مشن کا موقع ملے گا۔ وزارتِ مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے آئی بی ایم کے ساتھ تعاون کی ایک یادداشت پر دستخط کیے تاکہ ایک لاکھ نوجوان خواتین اور مردوں کو پانچ برس کے دوران آٹھ شعبوں میں اعلیٰ معیار کی تربیت دی جا سکے جس سے سعودی عرب کو مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں ٹیکنالوجی اور ایجادات کے مرکز کے طور پر ابھرنے کا موقع ملے گا۔ یو ایس نیشنل کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے ساتھ تعاون کی ایک یادداشت پر بھی دستخط کیے گئے جس میں دونوں ممالک کے مابین فائیو جی اور سکس جی ٹیکنالوجی پر تعاون بڑھے گا۔
سعودی عرب نے امریکی تعلقات میں سرد مہری کے دوران جہاں روس اور چین سے تعلقات کو مضبوط کیا وہیں روسی صدر ولادیمیر یوتن کو دنیا سے الگ تھلگ کرنے کے لیے امریکی دباؤ کی مزاحمت بھی کی، لہٰذا صدر جوبائیڈن‘ جو اس امر کا برملا اظہار کر چکے ہیں کہ بیجنگ اور ماسکو کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو بہترین ممکنہ حالت میں رکھنا ہے‘ کا یہ امتحان ہے کہ کیا امریکہ سے ہونے والے 18 معاہد ے سعودی عرب کو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں ٹیکنالوجی اور ایجادات کے مرکز کے طور پر ابھرنے کا موقع فراہم کر پائیں گے؟
امریکہ مشرق وسطیٰ میں ایک فعال شراکت دار کے طور پر اپنا کردار ادا کر پائے گا کہ نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا؛ البتہ یہ بات اپنی جگہ بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ خطے میں بیجنگ، ماسکو اور تہران کی سرگرمیوں نے واشنگٹن کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ امریکہ سعودی عرب کو اب دفاعی سازو سامان فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے حالانکہ برسر اقتدار آتے ہی جو بائیڈن نے ہتھیاروں کی فروخت معطل کرتے ہوئے شہزادہ محمد بن سلمان سے بات چیت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انسانی حقوق کے تحفظ پر زور دینے والے امریکی صدر اب بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر سیاسی حقیقتوں کے سامنے بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں استحکام لانے کے لیے دونوں ممالک نے مشترکہ کوششوں پر بھی پر اتفاق کیا ہے‘ جس کے لیے سعودی عرب میں 2027ء تک تیل کی پیداواری صلاحیت تیرہ ملین بیرل یومیہ کی جائے گی۔ وائٹ ہاؤس اب اس بات کو شدت سے محسوس کر رہا ہے کہ اسے 'فون اٹھانے‘ اور بہت سی تنظیموں سے خصوصاً تیل کی دنیا‘ جو سعودی عرب سے شروع ہوتی ہے‘ تعمیری بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں قابلِ غور امر یہ بھی ہے کہ امریکہ نے سعودی عرب سے درخواست کی تھی کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمت کم کرنے کے لیے وہ پیداوار مزید بڑھائے۔ ریاض نے ابتدائی طور پر تو یہ درخواست مسترد کر دی تھی مگر صدر بائیڈن کے سعودی عرب کے دورے کے اعلان سے چند دن پہلے عالمی سطح پر تیل کی پیداوار کی نگران تنظیم اوپیک پلس نے معمولی پیداوار بڑھانے کی منظوری دے دی ہے۔
ایران دنیا کے تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے‘ وہ سالانہ اربوں ڈالر مالیت کا تیل اور گیس برآمد کرتا ہے لیکن بین الاقوامی پابندیوں کے نفاذ کے بعد ایرانی تیل اور اس کی مجموعی قومی پیداوار میں کمی ہوئی ہے۔ امریکہ ایران پر تیل کی فروخت پر پابندیاں آہستہ آہستہ لگاتا رہا تاکہ توانائی کے شعبے کو دھچکا نہ لگے اور عالمی منڈی میں قیمتوں میں یکدم اضافہ نہ ہو۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ پابندیوں کی زد میں آنے والے شعبوں میں جہاز رانی، سمندری جہاز بنانے کی صنعت، مالیات اور توانائی کے شعبے بھی شامل تھے۔ امریکہ نے ایرانی تیل کی کمی پوری کرنے کے لیے تیل کی اپنی پیداوار بڑھا نے کو ترجیح دی اور خاص طور پر سعودی عرب سے ایسا ہی کرنے کے لیے کہا۔ قابلِ غور امر یہ بھی ہے کہ ماضی میں ایران سے تیل کی درآمد صفر کے قریب لانے کی پوری کوشش کی گئی؛ تاہم یہ خوف آڑے آتا رہا کہ کہیں مارکیٹ سے ایران کا تیل مکمل طور پر غائب نہ ہو جائے کہ ا س سے تیل کی قیمتیں بے تحاشا بڑھ جائیں گی۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ کی مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے جارحانہ پالیسیوں میں یہ بھی شامل تھا کہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایران کو تباہی سے دوچار کر دیا جائے لہٰذا اس مقصد کے لیے بعض ممالک نے امریکہ سے بلینز آف ڈالرز کا اسلحہ بھی خریدا جبکہ اسرائیل تو آج بھی ہر سال امریکہ سے اربوں ڈالرز کی فوجی امداد حاصل کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ اپنی صدارت کے آخری دنوں میں ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤکی اپنی پالیسی کو مزید بڑھاکر سویلین جوہری پلانٹس اور دیگر اہداف پر فوجی حملہ کرنے کے بھی درپے تھے۔ تہران کی سویلین ایٹمی سرگرمیوں اور اس کے بیلسٹک میزائل تیار کرنے کے پروگرام نے صہیونی ریاست کو انتہائی تشویش کا شکار کر رکھا ہے۔ شام میں اسرائیل اور ایران درجنوں مرتبہ ایک دوسرے کو آنکھیں دکھا چکے ہیں۔ موجودہ حالات میں اگر امریکہ‘ اسرائیل یا دیگر ممالک کی جانب سے کوئی عسکری مہم شروع کی گئی تو یہ برسوں پر محیط ایک ایسی لڑائی ہو گی جس کے اختتام تک مشرق وسطیٰ کا بہت سا جغرافیہ تبدیل ہو جائے گا۔