ماہِ ربیع الاول کے تقاضے اور ہماری ذمہ داریاں

ربیع الاول وہ ماہِ مبارک ہے جس کے دامن میں سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی سعادت بھی آتی ہے اور دارِفانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرما جانے کا غم بھی۔ ربیع بہار کو کہتے ہیں‘ بلاشبہ کائنات کی تاریخ میں انسانیت کے خزاں رسیدہ چمن کے لیے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے بڑھ کر کوئی بہارِ نو نہیں آئی۔ وجہ ہے کہ ایک مومن کا دل آپؐ کی محبت کے چراغ ہی سے روشن رہتا اور اس کا باغِ آرزو‘ عقیدتِ رسولؐ کی خوشبوؤں ہی سے مہکتا اور لہلہاتا ہے۔ آپؐ ہی کی یاد سے مسلمانوں کی دل کی کلیاں کھلتیں‘ مسکراتیں اور ذکرِ رسولؐ کی شادابی سے ان کے دل کی دنیا سرسبز و شاداب اور آباد رہتی ہے۔ ہر مسلمان آپؐ ہی کے تذکرہ میں اور آپؐ کی محبت کی لذت و سرور میں زندگی بسر کرنا چاہتا ہے۔ امتِ اسلامیہ کا گنہگار سے گنہگار بندہ بھی آپؐ پر قربان ہونے کی سعادت حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔ ماہِ ربیع الاول میں میلاد النبیؐ کی مناسبت سے مسلمان عموماً محافلِ میلاد منعقد کرتے ہیں اور حضور اکرمؐ کی سیرتِ پاک کے مختلف پہلوؤں کو اجاگرکیا جاتا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک تذکرہ اتنی بڑی سعادت ہے کہ اس سے بڑی کوئی اور سعادت ایک مسلمان کیلئے ہو ہی نہیں سکتی۔ نبی اکرمؐ کے یومِ ولادت کی مناسبت سے جلوس نکالے جاتے ہیں‘ مٹھائیاںتقسیم کی جاتی ہیں‘ پُرتکلف دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور گلیوں‘ بازاروں‘ گھروں اور مسجدوں میں چراغاں کیا جاتا ہے‘ جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں‘ جلسوں میں اللہ کے رسولؐ سے محبت کا بھرپور اظہار کیا جاتا ہے۔ بلکہ حکومتی سطح پر بھی بڑی بڑی سیرت کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ حضور نبی اکرمﷺ سے ہماری محبت‘ عقیدت اور احترام کا جذبہ قابلِ تحسین ہے لیکن ہم اپنی خامیوں کی وجہ سے اپنے دل کی تاریکیوں کو نبی کریم ﷺ کی روشن تعلیمات سے پوری طرح منور نہیں کرپاتے‘ ہم اپنے آپ کو اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے معطر نہیں کرپاتے۔
ماہِ ربیع الاول کا پیغام آج کے مسلمان کے لیے اگر کوئی ہو سکتا ہے تو یہ ہے کہ وہ اپنے معاملات اور طرزِ حیات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن زندگی کو داخل کرکے جنت کا حقدار بن جائے۔ یہ اللہ کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نے مسلمانوں کو اور تمام جہانوں کو سرورِ کائنات حضرت محمد ﷺ کی ذاتِ اقدس کی صورت میں عظیم نعمت سے مالا مال کیا۔ اللہ تعالیٰ کے بے شمار احسانات میں سے یہ احسان نسلِ انسانی کے لیے گراں قدر بھی ہے اور باعثِ کامرانی بھی۔ ایک لمحے کے لیے اُس وقت کے معاشرے کا تصور ذہن میں لائیں جب سرورِ کائناتؐ کی آمد نہ ہوئی تھی‘ ہر طرف کس قدر تاریکی اور کس قدر جہالت تھی۔ انسان‘ انسان سے کس قدر بے زار تھا۔ نسلِ انسانی ذات پات‘ نسلی برتری‘ لسانی زبوں حالی سے دو چار تھی۔ عقل و شعور کے بجائے نوکِ شمشیر سے فیصلے ہوتے تھے۔ انسانوں کی باقاعدہ منڈیاں لگتی تھیں‘ وہاں پر ان کی بولیاں لگائی جاتیں‘ غلام در غلام کا تصور پورے جزیرۃ العرب میں رائج تھا۔ کہیں سے بھی زندگی کے آثار دکھائی نہیں دیتے تھے۔ چار سو وحشت و درندگی کا راج تھا۔ بیٹیوں کو زندہ درگوراور خواتین کا استحصال کرنے کا رواج عام تھا۔ ایسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں آپؐ مینارۂ نور بن کر جگمگائے اور آپؐ نے پوری انسانیت کو تاریکیوں سے نکالا۔
انسانیت کے مسیحا‘ نجات دہندہ‘ یتیموں کے والی‘ غلاموں کے مولیٰ‘ فقیروں کے ملجا‘ ضعیفوں کے ماویٰ‘ محسنِ انسانیت اور رحمتِ عالم ﷺ نے غریب‘ ناتواں‘ پسماندہ اور بے کس طبقات کی دستگیری کی اور اُنہیں اُن کا جائز مقام اور حق دلایا۔ حضور اکرمؐ نے اس کام کے لیے صرف قانون ہی نہیں بنایا اور صرف وعظ و نصیحت اور درس ہی نہیں دیا بلکہ اپنے بہترین عمل سے خود بھی اس کا مثالی نمونہ پیش کیا۔ آپؐ نے اپنے حسن عمل سے جو مثالیں قائم کی ہیں کیا موجودہ دنیائے انسانیت کے مسیحا ایسی کوئی مثال پیش کر سکتے ہیں؟ بے شک قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اخلاقِ حسنہ‘ خصائل حمیدہ‘ فضائل کریمہ کا جو ذکر کیااور جو پہلو بیان کیے ہیں‘ ان ساری خوبیوں کے عملی پیکر کا نام حضرت محمد مصطفیﷺ ہے۔ اللہ رب العزت کے بیان کردہ اخلاق کو اگر تعلیمات کی شکل میں دیکھنا ہو تو اسے قرآن مجید میں دیکھا جا سکتا ہے اور اللہ رب العزت کے تعلیم کردہ اخلاق اور خصائلِ حمیدہ کو اگر ایک انسانی پیکر کی صورت میں دیکھنا ہو تو وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپؐ نے اخلاق کی ترویج و فروغ کو اپنی منصبی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''مجھے مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔ جب ہم حضور اکرمﷺ کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں کہ تو یہ چیز واضح ہو جاتی ہے کہ آپؐ نے اخلاقِ حسنہ کے ہزارہا گوشوں کی تعلیم دی۔ انہیں اپنی عملی زندگی میں سمویا اور ان کے ذریعے اپنے اسوۂ حسنہ اور شخصیت ِمقدسہ کو فکری‘ علمی اور عملی طور پر انسانیت کے سامنے رکھا۔ آپؐ کے اخلاقِ حسنہ کے ذریعہ ہم نہ صرف انفرادی سطح پر امن و سکون حاصل کر سکتے ہیں بلکہ اجتماعی سطح پر بھی تحمل و برداشت‘ عفو و درگزر کے رویے تشکیل دے سکتے ہیں۔ اسی میں پاکستان‘ امتِ مسلمہ اور تمام انسانی معاشروں کی ترقی کا راز مضمر ہے۔
اخلاقِ حسنہ کی اہمیت کے پیش نظر ہی اللہ نے اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خلقِ عظیم کے اعلیٰ درجے پر فائز کیا۔ رسول اللہﷺ انسانوں کے لیے زندگی گزارنے کا بہترین نمونہ ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں آپؐ کی عملی مثال موجود ہے اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ آپؐ کے اسوۂ حسنہ کے مطابق اپنا نظامِ زندگی استوار کریں۔ آپؐ کے فرائضِ نبوت کے حوالے سے قرآن میں ارشاد ہے: ''یقینا اللہ نے مومنین پر احسان فرمایا کہ ان میں ایک رسول انہی میں سے بھیجا جو ان پر قرآن کی آیات تلاوت کرتا ہے‘ ان نفوس کا تزکیہ کرتا ہے‘ انہیں کتاب کی تعلیم دیتا اور انہیں حکمت سکھاتا ہے‘‘۔ آپؐ مخالفین کو معاف کر دیتے‘ خطا کاروں سے درگزر فرماتے اور آپس میں محبت رکھنے کی تلقین فرماتے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اعمال کے ترازومیں سب سے زیادہ وزنی عمل حسن اخلاق ہے۔ بعثت نبویؐ سے پہلے دنیا عدل و انصاف کے مفہوم سے ناآشنا تھی۔ طاقتور لوگ ظلم و ستم کو اپنا حق سمجھتے تھے‘ آپؐ نے امیر و غریب‘ شاہ وگدا کو ایک صف میں کھڑا کر دیا اور آپس میں انس و محبت کا وہ رشتہ استوار کروایا جو انسانیت کے لیے سرمایۂ افتخار ہے۔ عرب کے پرآشوب دور میں معلم انسانیت سید الاولین و الآخرین محمد مصطفی ﷺکو خالقِ کائنات نے داعی‘ معلم اور ہادی بنا کر بھیجا اور اسلام نے جو ہمہ گیر انقلاب برپا کیا اس کی بنیاد تعلیماتِ نبویؐ پر تھیں۔ افسوس! امتِ مسلمہ کی اکثریت آپؐ کے حالات زندگی اور سیرت کے روشن پہلوؤں سے واقف نہیں۔ انسان کی کامیابی وکامرانی اللہ اور رسولؐ کی اتباع میں ہی ہے۔ اللہ رب العزت کی فرمانبرداری رسولؐ سے محبت کا واحد ذریعہ اور کسوٹی ہے۔ قرآن حکیم میں ہے کہ: ''اے نبی! لوگوں سے کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا اور تمہاری غلطیاں معاف کرے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور بڑا رحیم ہے‘‘۔ چنانچہ اس بات کی ضرورت ہے کہ میلاالنبیؐ کی محافل اور جلسوں میں آپؐ کی سیرت کے تمام گوشوں کو منظر عام پر لایا جائے۔ جنگ بدر میں 313نہتے صحابہؓ کو اللہ کی مدد‘ ایمان اور عمل صالح کی بدولت ملی تھی۔ آج مسلمان سمجھتے ہیں کہ انہیں بغیر عمل کے صرف زبانی دعووں سے اللہ کی مدد ملے گی۔ پس مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایمان اور عمل صالح کے ذریعے اللہ کی مدد کے طلب گار ہوں اور نبیؐ کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں۔ اس ماہِ مبارک کا یہی پیغام عام ہونا چاہیے۔ اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کو سنتِ نبویؐ و تعلیماتِ نبویؐ سے اپنی زندگی کو سنوارنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ اور رسولؐ کا سچا عاشق بنائے۔ آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں