پاکستان کا داخلی سیاسی بحران کیا محض اتفاق ہے یا کسی بڑے مذموم منصوبے کی ایک معمولی تمہید؟ یہ ایک ایسا اہم سوال ہے جس کی طرف ہمارے معاشرے کے باشعور و محب الوطن طبقے کو فوری توجہ دینی چاہیے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پوری دنیا ایک ہولناک جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے اور ملک کے مفاد پرست ٹولے نے‘ خواہ اس کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو‘ قوم کو ایک ذہنی ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ صہیونی و دجالی قوتیں عالمی سطح پر اہم ترین خطوں کا نقشہ تبدیل کرنے کی ابتدا کر چکی ہیں اور ہماری قیادت سیاسی رسہ کشی میں مصروف ہے۔ اب ایک طرف دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور ملکی سلامتی کا مدعا ہے اور دوسری جانب اقتدار کی رسہ کشی میں باہم دست و گریبان سیاسی رہنما ... دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کا جغرافیائی نقشہ کافی حد تک بدل گیا۔ اس وقت آزاد ہونے والی ریاستوں کے لیے مغربی جمہوریت کی تقلید کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت عالمی سامراجی قوتوں نے اُن نئی آزاد ہونے والی ریاستوں اور ترقی پذیر ملکوں کے حکمرانوں کو قرضوں کے نام پر مالیاتی کرپشن اور اقربا پروری کی بیماری میں مبتلا کر دیا اور انہیں معاشی لحاظ سے کمزور کیا‘ بدقسمتی سے ہمارے معاشی حالات بھی تسلی بخش نہیں ہیں اور مختلف فورموں پر پاکستان کے دیوالیہ ہونے ممکنہ خطرات کو موضوعِ بحث بنایا جاتا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کی قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے کاندھوں پر ایک بار پھر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے کیونکہ عالمی صہیونی طاقتیں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام چاہتی ہیں۔ اوچھے ہتھکنڈوں سے پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنا ان طاقتوں کا ایجنڈا ہے۔ اسی ایجنڈے کے تحت آج ہمارا ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو کر معاشی مشکلات میں گھِر چکا ہے۔ اس ساری مشق کا مقصد ملکی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کو اندرونی عدم استحکام میں اُلجھانا ہے۔
ہمارے سیاسی رہنمائوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اورسیاست کے بجائے ریاست کا تحفظ ان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ عوامی سطح پر مخالفت سے بھرپور سیاسی دھڑے بندیاں معاشرتی بگاڑ کا سبب بن رہی ہیں جبکہ سیاستدانوں کے مابین سیاسی رسہ کشی اور جوڑ توڑ ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ بلو چستان ڈوب گیا‘ سندھ ڈوب گیا‘ جنوبی پنجاب سیلاب سے متاثر ہوا‘ پاکستان کا معاشی حب کراچی بھی بارشوں کی تباہ کاریوں کا شکار رہا‘ سیلاب کی ان تباہ کاریوں سے قطع نظر ہمارے سیاستدان ملک پر سیاسی جنگ مسلط کیے ہوئے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی سے معاشی بحران کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عوام میں اتنی سکت باقی نہیں رہی کہ مہنگائی کا مقابلہ کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بے روزگاری بھی انتشار اور بدامنی کا باعث بن رہی ہے لیکن یہ مسائل حکومت اور اپوزیشن کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سے محرومی کے بعد سے عوامی جلسوں میں اپنے خطابات کے دوران جو لب و لہجہ اختیار کر رکھا ہے‘ وہ نامناسب ہے۔ معمول کی کچھ تعیناتیوں کو سیاست کا موضوع بنا دیا گیا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سر فراز علی کی جس ہیلی کاپٹر حادثہ میں شہادت ہوئی‘ اُس حادثے کے حوالے سے ملک دشمن عناصر کی طرف سے سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا مہم چلائی گئی‘ گوکہ اُس منفی پروپیگنڈا مہم میں شامل افراد کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جا چکی ہے لیکن ایسی مہم جوئی کا مقصد محض اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان آج کل غیر جمہوری عناصر کا ملکی سیاست میں مداخلت کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں‘ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ خود جب وزیراعظم تھے تو اس حوالے سے اقدامات کیوں نہ کر سکے؟ پی ٹی آئی‘ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) سمیت ملک کی دیگر بڑی جماعتوں نے اس حوالے سے کوئی قدم کیوں نہ اٹھایا؟ ایسی بیان بازیوں سے محض ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو رہا ہے۔ میری تمام سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ سیاست ضرور کریں مگر اس کی قیمت ریاست نہیں ہونی چاہیے۔ اپنے ہی اداروں پر تنقید کرنا‘ اپنے دشمن کے لیے راہ ہموار کرنے کے مترادف ہے۔ اس وقت ملک میں ہائبرڈ وار جاری ہے جس کے ذریعے ملک دشمن عناصر وطنِ عزیز کو اندر سے کمزور کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام ان کے مکروہ عزائم میں معاون ثابت ہو سکتا ہے‘ اس لیے ہمیں ان سازشی عناصر کو ناکام بنانے کے لیے ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ امریکی صدر نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ پاکستان شاید دنیا کی خطرناک ترین اقوام میں سے ایک ہے کیونکہ اس کے جوہری ہتھیار غیر منظم ہیں۔مجاہدِ اسلام جنرل حمید گل صاحب درست فرماتے تھے کہ ہمیں ڈی نیوکلیئرائزڈ کرنا ہی دشمن کا ہدف ہے اور اس کے لیے مضبوط فوج کے پہرے کو ہٹانے کیلئے ڈی ملٹرائزیشن کی جائے گی۔ آج موجودہ خطرناک منظرنامہ اس کی عکاسی کر رہا ہے۔
سابق امریکی سینیٹر لیری پریسلر کی کتاب‘ Neighbours in Arms اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں برصغیر میں بھارت کے بجائے صرف پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان کو ایٹمی قوت کے اعزاز سے محروم کرنے کیلئے داخلی تصادم اور سیاسی عدم استحکام بھی اسی سازش کا حصہ ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کا موجودہ طرزِ سیاست یقینا ملک میں رواداری اور بھائی چارے کی فضا پیدا نہیں کر سکتا۔ موجودہ حالات میں لانگ مارچ ملک و قوم کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کی قیادت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف جاری مذموم مہم سے دشمن کو ہی فائدہ پہنچ رہا ہے‘ آخر یہ منافرت کی آگ کیسے بجھائی جا سکے گی؟ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرودیا تھا جن کی ناتہذیب ملتی تھی نا سرحد‘ ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے کے باوجود انہیں ایک قوم بنا دیا۔ یہ ہوتے ہیں قومی لیڈر جن کی نظر ووٹوں اور کرسی پر نہیں ہوتی بلکہ انہیں ملک کا مستقبل‘ اس کی سلامتی عزیز ہوتی ہے اور آج کے لیڈر ز کا مشن صرف الیکشن ہے‘ انہیں عوامی فلاح و بہبود اور ملکی سالمیت‘ امن و امان سے کوئی غرض نہیں۔ چاہے وہ پی ڈی ایم کی قیادت ہو یا پی ٹی آئی کی۔ سیلاب‘ مہنگائی اور مشکل معاشی حالات کی بنا پر ملک میں اس وقت دھرنوں‘ سیاسی جلسوں‘ مظاہروں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مہنگائی اور مختلف ٹیکسز کے بوجھ نے پہلے ہی عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ ان حالات میں سیلاب و قدرتی آفات کا آنا کسی قیامت صغریٰ سے کم نہیں۔ افسوس! اقتدار کی چھینا جھپٹی میں مبتلا حکومت اور اپوزیشن کا سیلاب میں مؤثر کردار نظر نہیں آیا۔ الحمدللہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ ہماری بہادر افواج نے ملکی دفاع کے لیے ہر دور میں قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور ملکی سلامتی کے لیے پاک فوج نے ہمیشہ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ملکی سلامتی کے ضامن اداروں کے خلاف پروپیگنڈا مہم میں شامل ملک دشمن عناصر کی بیخ کنی کی جائے اور سخت سزائوں سے ایسے عناصر کا راستہ ہمیشہ کے لیے روکا جائے۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں کو بھی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ سیاست میں بلیم گیم کا سلسلہ یونہی چلتا رہا تو ملک میں کبھی سیاسی استحکام نہیں آپائے گا۔
ہمارا ملک کہاں کھڑا ہے؟ اور ہم کدھر جا رہے ہیں؟ کسی کو کوئی خبر نہیں کیونکہ پوری قوم ہر طرف سے مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے قومی و ملکی مفادات کو ترجیح دی جائے‘ اس کے لیے امتیازی رویوں کا خاتمہ کرکے انصاف کی یکساں فراہمی بھی یقینی بنانا ہوگی۔