معاشی تنظیم جی ٹونٹی 1999ء میں ایشیا میں پیدا ہونے والے معاشی بحران کے بعد وجود میں آئی تھی اور اس کے ابتدائی اجلاسوں میں رکن ممالک کے سینٹرل بینکوں کے گورنرز شریک ہوئے تھے لیکن 2007ء میں عالمی اقتصادی بحران کے بعد 2008ء میں واشنگٹن سے اس کے سربراہی اجلاس کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ دنیا کی دو تہائی آبادی کی نمائندگی کرنے والے ممالک کے اس گروپ کا مقصد معاشی نظام کے پہلوؤں پر غور کرنا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں دیرپا ترقی، صحت، زراعت، توانائی، ماحولیاتی تبدیلی اور انسدادِ بدعنوانی جیسے معاملات بھی شامل ہو گئے۔ جی ٹونٹی گروپ کی طاقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی جی ڈی پی کا 85 فیصد جبکہ عالمی تجارت کا 75 فیصد اس تنظیم کے ممبر ممالک کے ہاتھ میں ہے۔ جی ٹونٹی کو وجود میں آئے ربع صدی گزر چکی ہے اور ہر سال یا دو سال بعد اس کا اجلاس مختلف ممبر ممالک میں منعقد ہوتا ہے۔ دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کے حامل ملکوں امریکہ، روس، چین، برطانیہ، ترکیہ، برازیل، بھارت، ارجنٹائن، آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، سعودی عرب اور جنوبی افریقہ کی تنظیم کا اجلاس گزشتہ دنوں بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کی عدم شرکت نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ جی ٹونٹی ممالک کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں بھارت اور اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کا ذکر تک نہ کرنا لمحۂ فکریہ ہے۔ نریندر مودی اور نیتن یاہو حکومتیں جس طرح روازنہ کی بنیاد پر مقبوضہ علاقوں میں مظا لم کے پہاڑ توڑ کر مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کیلئے نسل کشی کر رہی ہیں اس پر یورپی ممالک کی خاموشی ان کی انسانی حقوق کے بارے نام نہاد فکرمندی کو بے نقاب کرنے کے لیے کا فی ہے۔ واضح رہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے قبل ازیں مسئلہ کشمیر سے اقوام عالم کی توجہ ہٹانے کیلئے جی ٹونٹی ممالک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے چانکیائی سیاست کی عیاری و مکاری سے جی ٹونٹی کی سربراہی کانفرنس نئی دہلی سے سرینگر منتقل کر کے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی تھی مگر اسے منہ کی کھانا پڑی۔ بھارتی قیادت کا خیال تھا کہ اس طرح مقبوضہ کشمیر کی خصوصی پوزیشن سے متعلق بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 35A کی منسوخی کو جائز اور بین الاقوامی سطح پر قبول کر لیا جائے گا، نیز اس سربراہی کانفرنس سے بھارت کو کشمیر کو اپنا ''اٹوٹ انگ‘‘ قرار دینے میں آسانی ہو گی مگر یہ اس کی خام خیالی ثابت ہوئی۔
مغرب کا منافقانہ چہرہ اب کھل کر سامنے آیا ہے کہ وہ بھارت جس نے گزشتہ چار سال سے مقبوضہ کشمیر کو دنیا کے سب سے بڑے عقوبت خانے میں بدل رکھا ہے اور وہاں کی گلیاں مظلوم کشمیریوں کے خون سے رنگین ہیں‘ وہ بھارت جس میں بسنے والی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہے جہاں مسلم نسل کشی کے کھلم کھلا اعلانات کیے جارہے ہیں، مسلمانوں کے گھر بلڈوزروں سے مسمار کیے جا رہے ہیں، جہاں دیگر اقلیتیں حتیٰ کہ نچلی ذات کے ہندو بھی برہمن کی دستبرد سے محفوظ نہیں، وہ بھارت جہاں منی پور میں ہونے والے حالیہ فسادات میں غریب قبائلی خواتین کو برہنہ کر کے گھمایا گیا، وہ بھارت اس وقت جی ٹونٹی جیسی تنظیم کی صدارت کر رہا ہے۔ یہ مہذب دنیا کے منہ پر ایک بھرپور طمانچہ ہے۔ بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کے مطابق 2014ء (نریندر مودی کے برسر اقتدار میں آنے کے بعد) سے دلتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ ''انڈیا‘‘ کو ''بھارت‘‘ بنانے میں سَنگھ پریوار کئی دہائیوں سے مسلسل سرگرم عمل ہے اور آر ایس ایس کا پرچارک نریندر مودی ہندوتوا کے اسی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کوشاں ہے۔ حالیہ کانفرنس میں 'انڈیا‘ کے بجائے 'بھارت‘ نے نام نہاد سیکولر ازم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا ہے۔ حیرت ہے کہ مغربی دنیا نے ان تمام حقائق کے باوجود جی ٹونٹی کے نئی دہلی اجلاس میں شرکت کی اور کسی نے بھی بھارت میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز تک نہ اٹھائی۔ امتیازی شہریت قوانین اور تبدیلیٔ مذہب جیسے متنازع قانون کو بھی موضوعِ بحث نہیں بنایا گیا، حتیٰ کہ بھارت ماحولیاتی آلودگی اور کاربن کے اخراج میں جو حصہ ڈال رہا ہے‘ اس پر بھی بات نہیں کی گئی۔
رپورٹرز وِد آئوٹ بارڈرز (RSF) کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت آزادیٔ صحافت کے حوالے سے 180 ملکوں میں 150ویں نمبر پر ہے۔ مودی مخالف صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ نام نہاد انسدادِ دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت حکومت مخالف بھارتی صحافی پابند سلاسل ہیں۔ مودی سرکار نے بی بی سی کی دستاویزی فلم ''Question Modi The‘‘ پر بھی پابندی عائد کر دی جس میں مودی کو گجرات کے مسلم کش فسادات میں ملوث دکھایا گیا۔ اگست 2022ء میں مسلم خواتین کی اجتماعی عصمت دری اور قتل میں ملوث عمر قید کے گیارہ مجرموں کی صدارتی معافی پر رہائی اس بات کا ثبوت ہے کہ مودی حکومت سانحہ گجرات کے مجرموں کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہندوتوا نظریے کے تحت تاریخی مسجدوں کو شہید کیا جا رہا ہے۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے بعد ''گیان واپی‘‘ کی تاریخی عیدگاہ اور مسجد ہندو فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہے۔ ضرورت اس مر کی ہے کہ اقوام متحدہ مسلمانوں کے خلاف بھارت کے امتیازی سلوک کی تحقیقات کرے اور بھارتی مظالم پر ایک آزاد کمیشن مقرر کیا جائے۔ کشمیریوں کے خلاف جرائم میں ملوث درندہ صفت بھارتی افواج کے خلاف بھی مقدمات قائم کیے جائیں۔
یہ درست ہے کہ بھارت رقبے کے لحاظ سے جنوبی ایشیا اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کی معیشت دنیا میں پانچویں بڑی معیشت ہے۔ اس کے جی ڈی پی کا حجم 3500 ارب ڈالر جبکہ زر مبادلہ کے ذخائر سات سو ارب ڈالر سے زائد ہیں۔ اسی لیے وہ عرصہ دراز سے ان کوششوں میں ہے کہ کسی طرح اسے خطے کی چودھراہٹ سونپی جائے اور اس کے لیے وہ نت نئے ہتھکنڈے آزما رہا ہے۔ آسیان کے بعد اب جی ٹونٹی کانفرنس کے نئی دہلی میں انعقاد سے نریندر مودی نے اپنا قد اونچا کرنے کی کوشش کی لیکن چین اور روس کے سربراہان کی عدم شرکت سے تمام کاوشوں کو دھچکا لگا۔ اگرچہ بھارت روس کے ہتھیاروں اور تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے، بھارتی فضائیہ اور بحریہ کے زیر استعمال 70 فیصد لڑاکا طیارے، 44 فیصد جنگی جہاز اور آبدوزیں اور بھارتی فوج کی 90 فیصد سے زائد بکتر بند گاڑیاں روسی ساختہ ہیں، اس کے باوجود روسی صدر نے اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ جی ٹونٹی میں بھارت کی امریکہ اور یورپ سے بڑھتی قربتوں سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بھارت اپنے مفادات کیلئے روس کو چھوڑ بھی سکتا ہے۔ جی ٹونٹی کے انعقاد کے بعد بھارت کی پوری کوشش ہے کہ اسے عالمی طاقت تسلیم کرتے ہوئے ایک اہم کردار دیا جائے۔ دوسری جانب امریکہ اپنی معیشت کے تنزل اور چین کے مضبوط معاشی طاقت بننے پر بے بس دکھائی دیتا ہے۔
اگرچہ جی ٹونٹی اجلاس نشستند، گفتند، برخاستند کے سوا کچھ نہیں اور دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کے اکٹھ میں دنیا کی بہتری کے لیے سنجیدہ اقدامات کا فقدان نظر آیا بلکہ دنیا کو بہتر بنانے کے بجائے چین کے خطے میں بڑھتے اثر و رسوخ کی فکر انہیں کھائے جا رہی تھی۔ امریکہ چین کے اطراف میں 100 سے زائد فوجی اڈے قائم کر چکا ہے اور یہی کچھ وہ یوکرین کے ذریعے روس کے ساتھ کرنا چاہ رہا تھا لیکن روس نے یوکرین پر حملہ کر کے امریکی پلان فیل کر دیا۔ عالمی سطح پر واشنگٹن کا تخریبی کردار اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ آج تیسری عالمی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ مسلم ممالک باہمی رنجشیں اور اختلافات بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہو جائیں تو تمام ایشوز بطریق احسن حل ہو سکتے ہیں۔ خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میں پاکستان کے لیے بھی چیلنجز خاصے بڑھ گئے ہیں۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟