واخان کوریڈور یا پامیر راہداری‘ جو افغانستان کے شمال مشرقی علاقے بدخشاں میں واقع ایک تنگ پٹی ہے‘ افغانستان کو چین کے سنکیانگ صوبے سے ملاتی ہے۔ یہی راہداری پاکستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے۔ تاجکستان اس راہداری کے شمال اور پاکستان اس کے جنوب میں واقع ہے۔ دنیا کے نقشے پر واخان راہداری افغانستان کے شمال مشرق سے باہر نکلنے والی ایک چھوٹی سی چمنی کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ صدیوں سے یہ راستہ وسطی ایشیا میں تجارت کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ واخان کوریڈور کی تشکیل 19ویں صدی میں برطانیہ اور روس کے تصادم‘ جسے Great Game بھی کہا جاتا ہے‘ کے دوران ہوئی جب برطانیہ اور روس نے اس علاقے کو بفر زون قرار دیا۔ اس کا مقصد برطانوی ہندوستان اور روسی سلطنت کے درمیان براہِ راست تصادم کو روکنا تھا۔ 1891ء میں واخان کی قسمت کا حتمی فیصلہ برطانوی فوجی فرانسس ینگزبینڈ اور اس کے روسی ہم منصب کرنل یانوف کے درمیان اس راہداری پر واقع ایک گاؤں بوزئی گمباز (Bozai Gumbaz)میں ہونے والی ایک ملاقات میں ہوا۔ اس ملاقات کا اختتام اس علاقے کو روسی علاقہ قرار دینے پر ہوا لیکن بعد ازاں روس نے معذرت کرتے ہوئے اس علاقے کو پہلے سے طے شدہ ایک معاہدے کے تحت افغانستان کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ برٹش راج میں‘ 1893ء میں مورٹیمر ڈیورنڈ اور امیر عبد الرحمن خان کے مابین طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت ڈیورنڈ لائن کا قیام عمل میں آیا۔ یہ کوریڈور روس کے حوالے سے برٹش پالیسی کا اہم ستون تھا جس نے افغان بفر سٹیٹ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ انیسویں صدی کے دوسرے حصے میں روسی امپائر نے وسطی ایشیا کے شہروں تاشقند‘ سمرقند‘ بخارا اور خوقند کو ضم کر لیا‘ یہ شہر برٹش انڈیا کا دروازہ کہلاتے تھے۔ اگرچہ افغانستان ایک آزاد ملک تھا لیکن وہ بھی برٹش راج کے ماتحت ایک ریاست تھی۔ 1895ء میں روس اور برطانیہ نے ایک پامیر باؤنڈری کمیشن قائم کیا جس نے اس کوریڈور کی شمالی و جنوبی سرحدیں قائم کیں اور یہ اعلان کیا کہ چین اور افغانستان اس میں مداخلت نہیں کریں گے‘ جس سے مقامی آبادی پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے؛چنانچہ اُس وقت چند کرغز قبائل واخان سے روسی علاقوں میں ہجرت کر گئے لیکن بعد ازاں وہ واخان واپس چلے گئے اور پھر 1979ء میں کابل میں روسی حملے کے بعد پاکستان آ گئے۔ چند ایک ترکیہ کے علاقے کردستان میں آباد ہو گئے ۔
موجودہ واخان کوریڈور کا ایک بڑا حصہ کابل کی رسائی میں ہے لیکن وہ اس کی حکومت میں نہیں آتا۔ واخان جیو پولیٹکل لحاظ سے 35ہزار کلو میٹر گھنے جنگلات پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کے کچھ حصے کی چوڑائی 10میل ہے‘ جو پامیر کے پہاڑوں سے جڑا ہے۔ یہاں اس کی بلندی 17ہزار فٹ ہے۔ اس علاقے کی آبادی 17ہزار کے لگ بھگ ہے‘ جو کاشتکاروں‘ چرواہوں‘ مقامی واخی و مہاجر کرغز قبائل پر مشتمل ہے۔واخان اس وقت چین‘ افغانستان اور پاکستان کے مابین ایشو بنا ہوا ہے۔ پاکستان وسطی ایشیا کی ریاستوں سے تجارت کیلئے کوششیں کرتا چلا آرہا ہے‘ تاہم افغانستان میں دہشت گردی جنگ کی وجہ سے گزشتہ چار دہائیوں سے یہ کاوش پوری نہیں ہو سکی ہے۔ واخان میں پراکسی وارکی وجہ سے چین اور افغانستان کی نسبت پاکستان کو زیادہ پیچیدہ صورتحال کا سامنا ہے۔ افغانستان اور چین کے مابین اس وادی میں پلوں کی تعمیر اور آ ئل پائپ لائن بچھانے کے حوالے سے مذاکرات ہوئے ہیں۔ اگر یہ کوریڈور فعال ہو جاتا ہے تو نہ صرف افغانستان کا بھارت پر انحصار کم ہو جائے گا بلکہ اس کوریڈور کے ذریعے پاکستان بھی وسطی ایشیائی ممالک سے جڑ جائے گا۔ اس سے وسطی ایشیا‘ بالخصوص افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ میں کمی واقع ہو گی۔ وسطی ایشیا تک زمینی رسائی سے پاکستان کے معاشی ہی نہیں بلکہ عسکری فوائد بھی وابستہ ہیں‘ اس کے لیے حکومت کو اس حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلے ضروری ہے کہ خطے میں امن و امان کے قیام کے لیے داعش سمیت دیگر دہشت گرد گرہوں کا قلع قمع کیا جائے۔ اس کے لیے چین اور پاکستان کے ساتھ افغانستان کو بھی دہشت گردی کے خاتمے میں موثر کردار ادا کرنا ہو گا جبکہ افغانستان کی جانب سے پاک افغان بارڈر پر موثر مینجمنٹ بھی بہت ضروری ہے۔
افغانستان کی عبوری حکومت پاکستان کی وسطی ایشیائی ممالک تک زمینی رسائی کے راستوں میں رخنہ ڈال رہی ہے‘ جس سے یہ واضح ہو تا ہے کہ طالبان اسلام آباد سے مخلصانہ تعلقات کے خواہاں نہیں۔ توقع کی جا رہی تھی کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آئے گی لیکن اب صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ افغانستان میں پناہ گزین دہشت گرد عناصر پاکستان کے سکیورٹی چیلنجز میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کر رہی ہے۔ طالبان کی جانب سے دہشت گرد عناصر کی پشت پناہی پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔ لہٰذا طالبان کی حکومت میں پاکستان کی واخان کے ذریعے وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی مزید مشکل ہو گئی ہے۔ بھارتی ایما پر طالبان کی جانب سے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہ کرتے ہوئے پاک افغان سرحد کھولنے کا مطالبہ بھی کیا جا چکا ہے۔ پاکستان کو واخان کے ذریعے وسطی ایشیا تک رسائی سے معاشی‘ تجارتی اورکاروباری فوائد حاصل ہوں گے اور جغرافیائی طور پر بھی یہ ہمارے لیے اہم ہے۔اس پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ طالبان علاقائی امن اور استحکام کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔پاکستان میں افغانستان کی معاونت سے ہونے والی دہشت گردی میں ہزاروں شہری جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ افغانستان کو ہونے والی سمگلنگ پاکستان کی معیشت پر اثرانداز ہوتی۔ بھارت واخان راہداری کی سٹریٹجک اہمیت سے بخوبی واقف ہے۔ اس لیے وہ بھی اس کوریڈور کی فعالیت کے حق میں نہیں۔ ماضی میں بھارت نے تاجکستان میں جو ایئر بیس قائم کی وہ بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہوئی۔اس بیس کے قیام کا اصل مقصد خطے میں پاک چین سرگرمیوں پر نظر رکھنا تھا۔بعدازاں بھارت نے اس ایئر بیس کی توسیع کرتے ہوئے وہاں فائٹر جیٹ کی لینڈنگ کیلئے رن وے بھی بنایا۔Fakhor نامی اس ایئربیس پر تین ہنگر بھی تعمیر کیے‘ لیکن روسی دبائو کے پیش نظر وہ اس ائر بیس کو فائٹر جیٹس کیلئے استعمال نہ کر سکا۔ کارگل جنگ کے دوران چوربت‘ مشربرم اور سالتورو وادیوں نے شدید بھارتی حملوں کا مشاہدہ کیا جبکہ شگر پل سے نوبرا تر تک سیکٹرز نے اپنی اہم فوجی موجودگی کو برقرار رکھنے میں پاکستان کی مدد کی۔ موجودہ تناظر میں بھارت کے خطے میں توسیع پسندانہ عزائم کو روکنے کیلئے پاکستان چین اور روس مشترکہ طور پر آگے بڑھ رہے ہیں۔پاکستان کے لیے واخان کوریڈور تک رسائی سے سٹریٹجک مفادات میں مدد ملے گی اور لداخ کے علاقے سے گلگت بلتستان میں بھارتی مداخلت کے خلاف فوجی تنصیبات میں اضافہ اور جوابی اقدامات کیے جا سکیں گے۔ اس بحث کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان نے افغان حکومتوں کے ساتھ مضبوط تعلقات کی پوری کوشش کی لیکن افغانستان میں دہشت گردی اور دیگر عوامل کی وجہ سے یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں لہٰذا پاکستان کی طرف سے اس ضمن میں معاشی اور تزویراتی طور پر اقدام اٹھانے میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ بلاشبہ واخان کوریڈور کی تعمیر و ترقی ہماری خوشحالی و تجارت کے لیے نیک شگون ثابت ہو گی!