"MAHG" (space) message & send to 7575

ایس سی او سمٹ: لُک ویسٹ سے لُک ایسٹ کا سفر

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا چین کے شہر تیانجن میں منعقدہ حالیہ سربراہی اجلاس انتہائی غیر معمولی رہا‘ جہاں کم و بیش 20 ممالک کے سربراہانِ مملکت کے سامنے میزبان صدر شی جن پنگ نے ایک انداز میں چین کے دنیا کی سپر پاور ہونے کا اعلان کیا۔ مذکورہ اجلاس میں جو کچھ چینی صدر نے کہا اس کا صاف اور واضح مطلب یہی تھا کہ امریکہ کی اب وہ برتری ختم ہو چکی جسے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے دنیا سے تسلیم کرایا گیا تھا۔ اپنے خطاب کے دوران صدر شی جن پنگ کے لہجے کا اعتماد‘ اُن کے دوٹوک الفاظ اور ان کا تاثر یہی تھا کہ امریکی سامراج کا زوال نوشتۂ دیوار ہے اور چین اب صرف ایک ابھرتی ہوئی طاقت نہیں بلکہ ایک نئی سپر پاور کے منصب پر فائز ہو چکا ہے۔ صدر شی جن پنگ نے کہا کہ دنیا کو ایک نئے نظام کی ضرورت ہے‘ ایسا نظام جو انصاف‘ ترقی اور امن پر مبنی ہو۔ اگر ہم اکیسویں صدی کے امریکہ کی بات کریں تو 2000ء سے ہنوز امریکی غلبے کا سورج غروب ہو رہا ہے۔ اس وقت واشنگٹن اندرونی طور پر نہ صرف کمزور ہوا ہے بلکہ سیاسی طور پر بھی شدید تقسیم کا شکار ہے‘ معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور وہاں عدم مساوات بڑھ رہی ہے۔ پینٹاگون کی دنیا بھر میں فوجی مداخلتیں ناکام ہو رہی ہیں۔ افغانستان سے شرمناک انخلا‘ مشرقِ وسطیٰ میں کمزور ہوتی گرفت اور یوکرین کے مسئلے پر محدود اثر ورسوخ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ کی واحد سپر پاور کی حیثیت اب قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔
چینی صدر کا خطاب محض ایک دعویٰ یا جذباتی نعرہ نہیں تھا‘ انہوں نے مستقبل کی دنیا کا ایک خاکہ بھی اقوام عالم کے سامنے رکھا جسے ''گلوبل گورننس انیشی ایٹیو‘‘ کا نام دیا گیا جو سلامتی‘ ترقی اور تہذیب کے تین اقدامات کا تسلسل ہے۔ یہ سب اقدامات مل کر بین الاقوامی سسٹم کو نئے سر ے سے تشکیل دینے کے ان کے ویژن کا خاکہ ہیں۔ صدر شی جن پنگ نے کہا ''ہم دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر ایک اعلیٰ منصفانہ اور مساوی عالمی حکمرانی کے نظام کیلئے کام کرنے کے خواہش مند ہیں اور ہمیں دیواریں گرانے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔ ہمیں علیحدگی نہیں بلکہ اتحاد کی راہ اپنانا ہو گی۔ ہم یونی پولر کے بجائے بائے پولر ورلڈ کے خواہاں ہیں‘‘۔ چین کا ویژن اس امریکی نظام کے خلاف ہے جسے بزور طاقت و جبر پوری دنیا پر مسلط کیا گیا۔ وہ نیٹو جیسے اتحادوں کی مخالفت کرتا ہے جو چین کے نزدیک مغرب کے ''رُول بیسڈ سسٹم‘‘ کو نافذ کرنے کا اوزار ہے۔ چین اقوامِ متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں میں طاقت کی ازسر نو تقسیم چاہتا ہے جن پر‘ چین کے مطابق مغرب کی اجارہ داری ہے۔ امریکہ کا نام لیے بغیر صدر شی نے عہد کیا کہ وہ ''ہیجمونزم‘‘ (Hegemonism)، ''سرد جنگ کی ذہنیت‘‘ اور ''بدمعاشی کے طریقوں‘‘ کی مخالفت کریں گے۔ اس وقت امریکی صدر ٹرمپ کی تجارتی جنگ‘ بین الاقوامی اداروں سے علیحدگی‘ بیرونی امداد میں کمی اور سوشل میڈیا پر دھمکیوں نے دیگر ممالک کو پریشان کر رکھا ہے۔ بیجنگ کے نزدیک امریکہ عالمی نظام کو نقصان پہنچا رہا ہے‘ لہٰذا موجودہ عالمی تناظر میں چین متبادل قیادت کے طور پر ابھرا ہے۔ چین کی اس متبادل قیادت کے تین بڑے پہلو ہیں:اول: اقتصادی قیادت۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو دنیا کے 150 سے زائد ممالک کو آپس میں جوڑ رہا ہے۔ سڑکیں‘ ریلویز‘ بندرگاہیں اور بجلی کے منصوبے اب عالمی معیشت کی نئی شہ رگ بن چکے ہیں۔دوم: ٹیکنالوجی میں برتری۔ مصنوعی ذہانت‘ 6G‘ خلائی تحقیق اور الیکٹرک گاڑیوں جیسے شعبوں میں چین تیزی سے آگے نکل رہا اور امریکہ اور یورپ کو پیچھے چھوڑ رہا ہے۔ چین کی کمپنیاں نئے عالمی معیارات قائم کر رہی ہیں۔سوم: عسکری طاقت۔ جدید میزائل نظام‘ بحری قوت‘ خلائی پروگرام اور خلائی فورس نے چین کو اس وقت دنیا کی ایک ناقابلِ شکست عسکری طاقت بنا دیا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد 2001 ء میں رکھی گئی تھی۔ چین اور روس اس تنظیم کے بانی اراکین ہیں۔ بعد ازاں اس میں قازقستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان‘ ازبکستان‘ پاکستان‘ ایران اور بھارت بھی شامل ہو گئے۔ یہ ایشیا کا ایک اہم فورم ہے جسے نیٹو اتحاد کا متبادل بھی کہا جاتا ہے۔ امریکہ کی پوری کوشش رہی کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس نتیجہ خیز نہ ہو اور اس کی حیثیت عضوِ معطل بن کر رہ جائے مگر ایس سی او تیانجن اجلاس2025ء میں جس طرح روس‘ ترکیہ‘ ایران‘ پاکستان‘ وسطی ایشیا اور افریقہ کے ممالک چین کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں‘ اس سے واضح ہو گیا کہ اقوامِ عالم کی اکثریت امریکہ کے بجائے چین کو نیا عالمی رہنما تسلیم کرنے کو تیار ہے۔ یورپ اور امریکہ ایک محدود بلاک میں سمٹتے جا رہے ہیں جبکہ بیجنگ کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے۔ درحقیقت امریکہ کو اس کی پالیسیوں نے تنہا کیا ہے۔ عراق پر حملہ‘ افغانستان پر قبضہ‘ لیبیا کی تباہی اور شام میں مداخلت‘ یہ سب گزشتہ دو دہائیوں میں امریکہ کے ناجائز تسلط اور مداخلت کی بدترین مثالیں ہیں جن سے دنیا پر یہ ظاہر ہو گیا کہ امریکہ ہر معاملے میں طاقت کے بے جا استعمال کو ہی آخری حل سمجھتا ہے۔ دوسری جانب چین کا سرمایہ کاری‘ تعمیر وترقی اور تعاون کے اقدامات کا راستہ دنیا کیلئے زیادہ پُرکشش ہے۔ متعدد ماہرین کا خیال ہے کہ یہ صورتحال ایک نئی سرد جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ پچھلی بار سوویت یونین کے پاس فوجی طاقت تو تھی مگر معیشت کمزور تھی جبکہ اس بار چین دونوں طاقتوں کا حامل ہے؛ مضبوط معیشت کا بھی اور جدید عسکری ٹیکنالوجی کا بھی‘ اور اسی نے بیجنگ کو امریکہ کے مقابل زیادہ مضبوط بنایا ہے۔
اس بدلتے منظر نامے میں پاکستان کیلئے بھی نئے امکانات ومواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ ایک طرف امریکہ کا دبائو اور شرائط ہیں تو دوسری طرف چین کا دفاعی ومعاشی تعاون‘ نیز سی پیک اور راہداریوں جیسے انقلابی منصوبے۔ پاکستان کے آہنی برادر اور دیرینہ دوست کا ورلڈ سپر پاور بننا پاکستان کیلئے ایک آئیڈیل صورتحال ہو گی۔ یقینا مادرِ وطن کیلئے دفاعی وتجارتی سطح پر مزید راہیں کھلیں گی۔ دوسری عالمی جنگ میں جاپان کی خلاف فتح کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر چین میں قومی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی پریڈ میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو نظر انداز کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ ایس سی او سمٹ میں پاکستان‘ چین اور روس کا ایک پیج پر آنا خطے کے چودھری بننے کے خبط میں مبتلا بھارت کی عالمی تنہائی وشکست ہی نہیں بلکہ یہ اس کے پشت پناہوں‘ امریکہ واسرائیل کے مذموم مفادات پر بھی کاری ضرب ہے۔ ایس سی او سمٹ پاکستان کیلئے بڑی سفارتی فتح لایا اور مسنگ پرسنز کا بھارتی بیانیہ مسترد کر دیا گیا۔ بلوچستان میں بھارت کے پراکسی نیٹ ورک اور دہشت گردانہ حملوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے رکن ممالک کی جانب سے پاکستان کے مؤقف کی کھل کر حمایت کی گئی۔ دہشت گرد تنظیم بی ایل اے کی فارن فنڈنگ اور اس کے پروپیگنڈا کو پہلی بار باضابطہ طور پر عالمی سطح پر رد کیا گیا‘ جو بھارت کی عالمی محاذ پر تاریخی پسپائی ہے۔
آنے والے برسوں میں دنیا کا نقشہ بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔ یورپ اور امریکہ کا اثر محدود ہوتا جا رہا ہے۔ طاقت کا مرکز ایشیا کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ افریقہ‘ لاطینی امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ چین کے ساتھ جڑتے جا رہے ہیں۔ عالمی اداروں میں بھی نیا توازن پیدا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی پوزیشن حاصل کر سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اندرونی مسائل اتنے گہرے ہیں کہ واپسی آسان نہیں لگتی۔ چین نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ ترقی صرف طاقت کے زور پر نہیں ہوتی بلکہ یہ سرمایہ کاری اور تعاون کے ذریعے بھی ممکن ہے اور امریکہ کیلئے یہ فارمولا اپنانا مشکل ہے کیونکہ اس کی پالیسی ہمیشہ طاقت ودھونس پر مبنی رہی ہے۔ واشنگٹن کو اب تاریخ کا سبق دہرانا چاہیے۔ نظر آتا ہے کہ چینی قیادت میں عنقریب ایشیائی وافریقی ممالک اس کے مقابل کھڑے ہوں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں