رواں برس مئی میں اسرائیل اور بھارت کا قطر کے خلاف جاسوسی کا نظام اُس وقت تباہ ہو گیا جب بھارتی بحریہ کے آٹھ اہلکار اسرائیل کیلئے جاسوسی کرتے پکڑے گئے۔ قطر کی عدالت نے ان بھارتی اہلکاروں کو گزشتہ ماہ سزائے موت سنا دی تھی جس کے بعد بھارتی حکومت نے اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل بھی دائر کر دی۔ بھارت اور اسرائیل نے کیسے قطر کی جاسوسی کیلئے گھناؤنا منصوبہ بنایا اور پھر اس پر عملدرآمد کیلئے بھارتی بحریہ کے آٹھ اہلکاروں کو کیسے قطری بحریہ میں فٹ کرایا‘ یہ سحر زدہ کر دینے والے جاسوسی ناولوں جیسی کہانی ہے۔ اس واقعے نے بھارتی سرونگ فوجی افسر کلبھوشن یادیو کے جاری تنازع کی یاد بھی تازہ کردی جسے پاکستانی جانبازوں نے بلوچستان سے جاسوسی کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا تھا اور اسے سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ بھارت نے اس گرفتاری پر کئی ڈرامے کیے تھے یہاں تک کہ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں 40سال نوکری کرنے والے جرمن نائب وزیر خارجہ سے یہ تک کہلوایا کہ کلبھوشن کو پاکستان نے گرفتار نہیں کیا بلکہ طالبان سے خریدا تھا۔ قطر ی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل میں بھارت قانون سے مدد لینے کے بجائے سیاسی اور سفارتی دباؤ جیسے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ ان بھارتی جاسوسوں کو بچانے کیلئے دوحہ کا بھارتی سفارتخانہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ بھارتی سفارت کاروں کا دعویٰ ہے کہ قطری حکومت دو بار بھارتی جاسوسوں کو قونصلر رسائی دے چکی ہے جو کہ بھارت کی بڑی کامیابی ہے کیونکہ عام حالات میں سزا یافتہ مجرموں کو قونصلر رسائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اپنے جاسوسوں کی جانیں بچانے کیلئے بھارت اپنا ایک اہم پتا کھیلتے ہوئے قطر میں اپنے سابق سفیر دیپک متل کو میدان میں اُتار چکا ہے جو آج کل بھارتی وزیراعظم سکرٹریٹ میں جوائنٹ سیکرٹری ہے۔ وہ جاسوسی کے اس سارے معاملے کو بہت اچھی طرح سمجھتا ہے اور بھارتی جاسوسوں کو چھڑانے کیلئے اپنا کام شروع بھی کر چکا ہے۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ یہ دیپک متل کون ہے اور یہ اتنا اہم کیوں ہے؟ تو یہ دیپک متل ہی تھا جس نے کابل کی فتح کے بعد دوحہ میں موجود طالبان قیادت سے سب سے پہلے رابطہ استوار کیا اور طالبان کے بھارت کے ساتھ سیاسی اور سفارتی معاملات کو آگے بڑھایا۔ اب سنا ہے کہ امیرِ قطر 18دسمبر کو قطر کے قومی دن کے موقع پر رحم کی اپیل پر معافی کا فرمان جاری کر سکتے ہیں کیونکہ جاسوسوں کے لواحقین امیر قطر کے دربار میں رحم کی اپیلیں دائر کر چکے ہیں۔ امیر قطر سے رحم کی اپیل سمیت بھارتی شاطر مختلف امکانات پر غور کر رہے ہیں۔ جس طرح جاسوسی کے جرم میں سزائے موت پانے والے کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کو عالمی عدالتِ انصاف میں لے جاکر لٹکا دیا گیا ہے‘ بھارت اسی طرح اب قطری عدالت کے اس فیصلے کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف میں اپیل دائر کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
بھارتی بحریہ کے یہ جاسوس اہلکار کیسے پکڑے گئے‘ ان پر اسرائیل کیلئے جاسوسی کا جرم کیسے ثابت ہوا‘ اس معاملے میں بھارت نے روایتی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا بلکہ وہ کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچ رہا ہے۔ دوحہ میں مقیم میرے دوست مجھے مسلسل جاسوسی کے اس ڈرامے سے باخبر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ کالم نگار ان معلومات کے ذریعے یہ سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ یہ سنگین مقدمہ آخر ہے کیا؟ بھارتی بحریہ کے جن افسروں پر اسرائیل کیلئے جاسوسی کرنے کا جرم ثابت ہوا وہ سب بھارتی بحریہ سے قطری نیول فورس میں کیسے گھسے؟ بھارتی بحریہ کے ان افسروں اور اہلکاروں کو بڑی منظم منصوبہ بندی کے تحت مسقط کے ایک نجی ادارے میں فٹ کرایا گیا۔ یہ جاسوس افسر قطر کی کسی مقامی فرم میں کام نہیں کر رہے تھے‘ وہ تو مسقط‘ عمان میں رجسٹرڈ Dahra Engineering & Security Servicesمیں کام کرتے تھے۔ رواں برس مئی میں جاسوسی کا سکینڈل سامنے آتے ہی اسے فوری طور بند کر دیا گیا۔ قطر میں اس کا کھیل ختم ہو گیا تھا۔ Dahra Global Technologies & Consultancy Services قطری نیوی کو ٹریننگ اور دوسری سروسز مہیا کرتی تھی۔ قطری نیوی اٹلی کی مدد سے ریڈار پر دکھائی نہ دینے والی جدید ترین آبدوز پر کام کر رہی تھی جس کے بارے میں خفیہ معلومات یہ بھارتی بحریہ کے جاسوس طے شدہ منصوبے کے مطابق اسرائیل کو بھجوا رہے تھے‘ جس پر قطری خفیہ اداروں نے ان بھارتی جاسوسوں کو گرفتار کر لیا۔ تفتیش شروع ہوئی تو سارے راز کھلتے گئے۔گزشتہ ماہ انہی جرائم کی پاداش میں انہیں سزائے موت سنائی گئی ہے۔بھارتی جاسوسوں کو سزائے موت ایسے وقت پر سنائی گئی جب قطر اسرائیلی باشندوں اور فوجیوں کو حماس سے چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔ بھارت 2008ء سے قطرکے ساتھ اسرائیل کی منصوبہ بندی کے تحت تعلقات بڑھا رہا ہے۔ اس وقت قطر اور بھارت کے درمیان 17ارب ڈالرکی تجارت ہو رہی ہے۔ تقریباً سات لاکھ سے بھی زیادہ بھارتی شہری قطر میں کام کر رہے ہیں۔ اسرائیل کیلئے جاسوسی میں ملوث تمام افراد بھارتی بحریہ کے نمایاں افسر تھے۔ سبھی فوجی خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں‘ کئی تو کمانڈر انچیف اور صدارتی ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں۔ صرف ایک sailor ہے۔ بھارتی بحریہ کے ان اہلکاروں کی تفصیل کچھ یوں ہے:
Captain Navtej Gill:کیپٹن نوتیج گل کے والد بھی فوجی افسر تھے۔ چندی گڑھ کا رہنے والا بھارتی بحریہ کا یہ افسر ڈیفنس سروسز سٹاف کالج ولنگٹن میں رہ چکا ہے۔ بھارتی بحری جہاز ویرات (INS Viraat) پر نیویگیٹنگ افسر بھی رہ چکا ہے۔ اسے بھارت سرکار کی طرف سے صدارتی ایوارڈ برائے اعلیٰ کارکردگی بھی مل چکا ہے۔Captain Saurabh Vasisht:انجینئر کیپٹن سوربھ واسشت بھارتی ڈیفنس سروسز سٹاف کالج ولنگٹن اور کالج آف ڈیفنس مینجمنٹ سکندر آباد سے وار کورسز کر چکا ہے۔ ڈیرہ دون سے تعلق رکھنے والا کیپٹن سوربھ بھارتی بحریہ کی Southern Naval Command میں Refit Officer کی حیثیت سے کام کر چکا ہے۔ اسی طرح وہ بھارتی نیوی کے بحری جہاز میگار (INS Magar)‘ کلوش(Kulish INS)‘ خانجکر (Khanjar INS) اور Indian Coast Guard ship سنگرام پر بھی کمانڈر کی حیثیت سے کام کر چکا ہے۔Captain BK Verma:کیپٹن بی کے ورما بھارتی نیوی میں نیویگیشن سپیشلسٹ رہ چکا ہے۔ گوداوری کلاس بحری جہازوں پر کام کرنے کاماہر ہے۔ دونوں میاں بیوی فوجی خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ Commander Sugunakar Pakala:انجینئر کمانڈر سونگناکار پاکالا بھارتی بحریہ کا بڑا انجینئرنگ افسر تھا۔ یہ بحری جہاز Tarangini پر دو بار خط وسطیٰ (equator) عبور کر چکا ہے۔Commander Purnendu Tiwari:کمانڈر پرنینڈو تیواری بھی نیوگیشن سپیشلسٹ ہے‘ اس کا تعلق بھارتی بحریہ کی ایگزیکٹو برانچ سے ہے۔ یہ بحری جہاز میگار (INS Magar) کا کمانڈر اور بھارتی بحریہ کے eastern fleet کے راجپوت جہازوں کا کماندار بھی رہا ہے۔ قطری بحریہ کے افسروں کو تربیت دینے سے پہلے سنگاپور بحریہ میں بھی کام کر چکا ہے۔ یہ بھارتی افواج کا واحد افسر ہے جو Pravasi Bharatiya Samman ایوارڈ حاصل کر چکا ہے۔Commander Amit Nagpal:کمانڈر امیت ناگپال بھارتی بحریہ کا کمیونی کیشن سپیشلسٹ رہا ہے۔Commander SK Gupta:کمانڈر ایس کے گپتا گولہ باری اور نشانہ بازی میں مہارت رکھتا ہے۔Ragesh:راگیش غریب sailor اور واحد نان کمیشنڈ سپاہی ہے۔
ان بھارتی افسران کا تجربہ تو یہی ظاہر کرتا ہے کہ بھارت نے انہیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہی قطر کی بحریہ میں فٹ کروایا ہوگا۔