"MAK" (space) message & send to 7575

حماس کی فتح اور سمندری سرنگیں

حماس جنگ جیت چکی ہے۔ ساری دنیا جو چاہے کہتی رہے‘ مسلمانوں کی اکثریت نے حماس کو مجاہدینِ اسلام تسلیم کر لیا ہے۔ اس لڑائی نے متحدہ عرب امارات میں ہونے والے ابراہم معاہدے کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں‘ جس کے تحت سعودی عرب پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ اس کے بعد پاکستان پر بھی مبینہ طور پر سعودی عرب کے ذریعے اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے دباؤ بڑھایا جانا تھا۔ لیکن ابراہم معاہدہ آخرہے کیا‘ ملاحظہ فرمائیے۔متحدہ عرب امارات اور اسرائیل میں تعلقات کی دستاویز کو ' ابراہم معاہدات‘ کا نام دیاگیا ہے۔ اس کی دلیل یہ دی گئی تھی کہ تینوں بڑے ادیان کے ماننے والے مسلمان‘ مسیحی اور یہودی حضرت ابراہیم کا یکساں احترام کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم میں یہودیوں سے باربار یہی سوال پوچھاگیا ہے کہ تم یہودی کہاں سے اور کیسے بنے ہو؟ اللہ تعالی نے قرآنِ عظیم میں سوال پوچھا کہ تم ابراہیم کو مانتے ہو لیکن ابراہیم تو یہودی نہیں تھے۔اصل سوالات کیا ہیں‘ ان پر غور کرنا اور سمجھنا ضروری ہے تاکہ وقت اور تاریخ کی عدالت میں کھاتہ صاف شفاف رہے۔ مغربی ماہرین کا دعویٰ تھا کہ یواے ای کے اسرائیل سے تعلقات تو پہلے سے ہی استوار تھے۔ یروشلم کے ایک رہائشی فادرڈیوڈ نیوہاس کے مطابق یہ تعلقات تو کئی سال سے بحال ہوچکے تھے لیکن ابراہم معاہدات کی صورت میں ان کا باضابطہ اعلان کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق یواے ای اس راستے پر پہلا ملک ہے لیکن آخری نہیں۔ وقت کے ساتھ مزید ممالک بھی اس معاہدے میں حصہ دار بنتے جائیں گے۔2019ء میں یواے ای کے پہلے یہودی چیف راہب کا تقرر اسرائیل کیلئے اہم پیش رفت تھی۔
اب کچھ بات ترکیہ کی ہوجائے۔ ترکیہ اور اسرائیل میں باضابطہ تعلقات کا آغاز مارچ 1949ء میں ہوا تھا۔ یہ پہلا ملک تھا جس نے اس 'ناجائز ریاست‘ کو تسلیم کیا اور پھر ہر شعبے میں دو طرفہ تعاون کو فروغ دیا۔ اُس وقت ہمارے عرب بھائی اسلامی غیرت وحمیت کی علامت بنے ہوئے تھے۔ 1999ء میں نیویارک ٹائمز نے لکھا تھا کہ ترکی اور اسرائیل کی سٹرٹیجک پارٹنر شپ میں اتنی قوت ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست پلٹ سکتی ہے کیونکہ دونوں کے مابین تجارت اور سیاحت کا جادو سرچڑھ کر بول رہا تھا۔رجب طیب اردوان نے 2005ء میں اسرائیل کے دورے کے دوران اسرائیل فلسطین تنازعے میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی امید ظاہر کی۔ پھر 2008-09ء میں غزہ کی جنگ اور 2010ء میں غزہ فلوٹیلا پر حملے کے بعد تعلقات میں بگاڑ آگیا۔ مارچ2013ء میں اسرائیل نے معافی مانگ کر تعلقات کی بحالی کا راستہ پھر کھول لیا۔ پھر دسمبر2017ء میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے یکطرفہ فیصلے پر رجب اردوان نے اسرائیل سے تعلقات ختم کرنے کی دھمکی دی جس پر آج کی تاریخ تک عمل نہیں ہو سکا ہے۔ حماس کی اس سے بڑی کیا فتح ہو سکتی ہے کہ ساری دنیا میں امریکہ اور یورپ سمیت‘ اسرائیل کی غزہ پر وحشیانہ بمباری کے خلاف لاکھوں افراد پر مشتمل مظاہرے جاری ہیں۔ حتیٰ کہ امریکہ اور اسرائیل میں انسانیت پسند یہودی بھی اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور اس کی کابینہ انسانیت کی نگاہوں میں عریاں ہو چکے ہیں اور حماس کی قید میں رہنے والی ایک اسرائیلی بزرگ شہری نے تو رہائی کے بعد بیچ چوراہے اسرائیل کی سفاکیت پر مبنی پالیسیوں کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے اور صہیونی ماہرینِ ابلاغ منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ جنوبی امریکہ کے دور افتادہ ملک بولیویا نے انسانیت کے خلاف جرائم پر اسرائیل کے ساتھ اپنے تمام سفارتی تعلقات منقطع کر دیے ہیں۔ اسرائیلی سفارت خانے پر تالے لگا دیے گئے ہیں۔ باعثِ شرم امر یہ ہے کہ کوئی اسلامی ملک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی ہمت تو کیا کرتا‘ کسی نے کھل کر احتجاج تک نہیں کیا۔ مگر چلی اور کولمبیا نے بھی اسرائیل سے اپنے سفارت کار واپس بلوا لیے تھے جبکہ یمن نے اسرائیل کے خلاف باقاعدہ اعلانِ جہاد کر دیا ہے اور اس طرح وہ اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا ہے۔ گوکہ یہ کہا جاتا ہے کہ ایران نے حماس کو عسکری طور پر مضبوط کیا ہے لیکن ابھی تک ایران سمیت کسی اسلامی ملک نے اسرائیل کے خلاف اعلانِ جہاد نہیں کیا۔اسرائیلیوں نے تمام ہسپتالوں سمیت سارے غزہ کو اپنا جنگی ہدف قرار دے رکھا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے ہسپتالوں کو خالی کرنے کے نوٹسز جاری کیے جانے پر دنیا گم سم اور خاموش ہے۔ اسی خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے غزہ کا دوسرا بڑا القدس ہسپتال بھی فوری خالی کرنے کی وارننگ جاری کر دی ہے۔ اس ہسپتال میں 14ہزار افراد موجود ہیں۔ اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ نام نہاد مہذب دنیا بشمول امریکہ‘ آسٹریلیا اور سب سے بڑھ کر برطانوی انسانیت پسند گورے چپ سادے بیٹھے ہیں۔ غزہ میں ایک رات میں 600مقامات کو نشانہ بنایا گیا‘ اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا۔ جو لوگ غزہ میں بمباری سے بچ جائیں گے‘ وہ بھوک اور پیاس سے مر جائیں گے۔ یہ ہے آج کے غزہ کا ہولناک منظر نامہ جس میں نہتے‘ مظلوم اور بے کس بچے اور خواتین زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے حماس کی سمندری سرنگ کو تباہ کیا ہے جس سے اسرائیل میں گھس کر حملے کیے جاتے تھے۔ حماس نے اسرائیل پر حملے سے قبل غزہ کے علاقے میں میلوں طویل سرنگوں کا جال بچھا لیا تھا۔ انہی سرنگوں کے باعث اب غزہ اسرائیلی فوج کیلئے ہولناک میدانِ جنگ کے مناظر پیش کر رہا ہے۔ امریکی ان سرنگوں کو Miniature City قرار دے رہے ہیں۔ یہ سرنگیں ایسے ناقابلِ تسخیر مورچے بن چکی ہیں جن کی وجہ سے اسرائیل غزہ پر زمینی حملوں کے باوجود حماس کو شکست نہیں دے سکے گا۔ گزشتہ دنوں ایک زمینی حملے میں حماس کے مجاہدین نے انہی سرنگوں میں سے نکل کر 35یہودی کمانڈوز اور ان کے کمانڈر کو جہنم واصل کر دیا اور چھ سے زائد اسرائیلی ٹینک‘ متعدد گاڑیاں اور بلڈوزر تباہ کر دیے جن کے ڈھانچے اب بھی غزہ کی سرزمین پر موجود ہیں۔ اس حملے کی اسرائیل نے بھی تصدیق کی ہے۔ اسرائیلیوں کی خوش فہمی یہ تھی کہ وہ فلسطینیوں کو ان کی سرنگوں میں زندہ درگور کر دیں گے لیکن جب انہی سرنگوں کے دہانوں پر لڑائی کا سامنا ہوا تو پتہ یہ چلا کہ یہ صرف سرنگیں ہی نہیں بلکہ یہ سرنگیں قلعے ہیں‘ یہ سرنگیں شاہراہیں ہیں‘ یہ سرنگیں مورچے اور خندقیں ہیں۔ سرنگوں کا یہ نظام جنوب میں مصر کے اندر تک پھیلا ہوا ہے جبکہ شمال میں یہ اسرائیل کے اندر بھی کھولا اور بند کیا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی ماہرین اب یہ کہتے ہیں کہ سرنگوں کا یہ جال کم و بیش 500کلومیٹر طویل ہے جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی اور اس میں سمندری سرنگیں بھی شامل ہیں جس کا پہلے کوئی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ایک ریٹائرڈ پاکستانی فوجی افسر نے اس کالم نگار کو بتایا کہ حماس کی سرنگیں اسرائیلی فوج کیلئے بارودی شکنجے بن چکی ہیں۔ ساڑھے چھ فٹ اونچی اور تین فٹ چوڑی یہ سرنگیں کسی بھی عام کمانڈو یا سپاہی کیلئے موت کا دہانہ ہیں جس میں وہ دائیں بائیں متحرک نہیں ہو سکتا۔ کوئی بھی فوج اپنے سپاہیوں کو کبھی بھی لڑنے کیلئے ایسی سرنگوں میں نہیں بھیجتی لیکن اسرائیلی درندوں کو مقابلہ ہی سرنگوں سے نکلنے والے مجاہدین سے کرنا پڑ رہا ہے‘ جس کا انجام سب کے سامنے ہے۔
کالم اختتام کو پہنچا تو یہ خبر آئی کہ غزہ سے غیرملکی پاسپورٹ رکھنے والے افراد اور شدید زخمیوں کو رفح کراسنگ کے ذریعے مصر جانے کی اجازت دے دی جائے گی۔ اس پیش رفت میں امریکہ کی معاونت شامل ہے۔ رفح کراسنگ سے یہ انخلا کب تک جاری رہے گا‘ اس بارے میں مکمل تفصیلات سامنے نہیں آسکیں۔ واضح رہے کہ رفح کراسنگ کو حالیہ اسرائیل حماس جنگ کے بعد پہلی بار کھولا گیا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں