ایس ایم ظفر (سید محمد ظفر)مختصر علالت کے بعد پچھلے دنوں چل بسے۔ وہ صبح خیز تھے‘ طلوعِ آفتاب سے پہلے طویل مارننگ واک کے عادی تھے‘ یہی ان کی سمارٹ اور پرُوقار شخصیت کا راز تھا۔ ان کی شخصیت پر صرف ایک داغ تھا کہ جنرل ایوب کی کابینہ میں مرکزی وزیر قانون رہے تھے‘ اُس وقت اُن کی عمر صرف 35 برس تھی۔ شاید ظفر مرحوم کے بارے میں ہی کہا گیا کہ؎
اس عشق نہ اُس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت
اب ذکر ہو جائے ایس ایم ظفر سے ڈاکٹر وقار ملک کے مسلسل 25 برس جاری رہنے والے مکالمے کا جو مکالمے ہی کے نام سے شائع ہونے والی کتاب کا سرورق بنا۔یہ کتاب نہیں خزینہ ہے‘ ایسا خزانہ جس کے ورق ورق اور حرف حرف میں نجانے کون کون سی دولت پوشیدہ ہے‘ جس کا عمومی انداز میں ذکر نہیں کیا جا سکتا۔اس مکالمے میں سعد سنگروی کا ذکر جس والہانہ انداز میں کیا گیا ہے وہ بھی الگ داستان ہے‘اور رہے مصنف‘ دانشور اور استاد ڈاکٹر وقار ملک‘ تو انہوں نے اس سے پہلے بھی شاندار کتابیں رقم کی ہیں۔ میرا خیال ہے ان کی پہلی کتاب طفیل نامہ تھی۔ میاں طفیل محمد کی آپ بیتی اسی طرح کے طویل انٹرویو کے بعد انہوں نے مرتب کی تھی۔ مکالمہ تو ایس ایم ظفر سے چوتھائی صدی پر مشتمل ہے اور اس کے بعد پانچ سات سال میں یہ کتاب مرتب کی گئی۔ یہ کتاب نہیں داستان سرائے ہے‘ عظیم الشان اور شاندار داستان‘ ایک ایسے شخص کی داستان جس نے اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں مختلف طرح سے شاندار اسلوب مرتب کیے۔
سید محمد ظفر (ایس ایم ظفر)نے 1950ء میں وکالت شروع کی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستان کے وزیر قانون تھے۔ 19ستمبر 1965ء کو اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں انہوں نے جنگ بندی کی قرارداد کو مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط کرایا۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن سے بھی خطاب کیا۔وہ صرف 35 برس کی عمر میں جنرل ایوب کابینہ میں قانون و پارلیمانی امور کے مرکزی وزیر بنے۔ کئی اہم ملکی اور بین الاقوامی مقدموں میں کامیابی حاصل کی‘ خاص طور پر محسن ِپاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف ہالینڈ میں دائر مقدمات میں کامیابیاں حاصل کرکے پاکستان کا نام روشن کیا اور مرحوم اے کیو خان کو چار چاند لگا دئیے۔ 2003ء سے 2012ء تک سینیٹ کے ممبر رہے۔ 2004ء سے 2012ء تک ہمدرد یونیورسٹی کے چانسلر کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں۔ایس ایم ظفر صبح خیز تھے‘اسلام آباد میں بار ہا اس کالم نگار کو سویرے سویرے ان کی مارننگ واک سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ ایس ایم ظفر پر اپنے والدین کا گہرا اثر تھا۔ان کی والدہ محترمہ نے ان کو لاء کالج میں پڑھانے کے لیے اپنی چوڑیاں بیچ دی تھیں‘ جس کا ساری زندگی ایس ایم ظفر پر اثر رہا۔ وہ اکثر بتایا کرتے تھے کہ میں نے اپنی عظیم والدہ‘ محترمہ فاطمہ کے نام سے ایجوکیشن سوسائٹی بنائی جس کی وجہ سے ذہین مگر بے وسیلہ ہزاروں نوجوان انجینئر اور ڈاکٹر بن چکے ہیں۔ایس ایم ظفر کے والد سید محمد اشرف کشفی مرحوم تو زندہ ولی تھے۔ ان کی زندگی کا سب سے اہم اور آخری واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے انتقال سے چند دن پہلے اپنے تمام دوست احباب اور مریدین کو باقاعدہ خط لکھ دیا تھا کہ میں فلاں دن انتقال کر جاؤں گا اور جس کسی نے میرے جنازے میں شرکت کرنی ہو وہ آبائی گاؤں چک قاضیاں نارووال فلاں دن پہنچ جائے اور جب ان کے عزیز و اقارب‘دوست احباب اور مریدین مقررہ دن چک قاضیاں پہنچے تو کشفی صاحب کا جنازہ تیار تھا۔ ظفر صاحب نے کبھی پیٹ بھر کھانا نہیں کھایا تھا‘ یہی ان کے سمارٹ ہونے کا راز تھا۔
مرحوم ایس ایم ظفر خوداپنے مکالمات بارے لکھتے ہیں کہ جب میں اس کتاب میں شامل مکالمات کودیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ وہ نوجوان وقار ملک جو کبھی صحافی ہوا کرتے تھے‘ اب شعبہ ابلاغیات‘ پنجاب یونیورسٹی میں سینئر استاد ہیں‘ ان کی نظر کیسے کیسے اہم مسائل اورکتنے متنوع موضوعات پر پڑتی رہی۔ اس سے یقیناًڈاکٹروقارملک کی وطنِ عزیز کے ساتھ محبت اور اس کے مسائل کو حل کرنے کا خواب ظاہر ہوتاہے۔ ابتدامیں مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنا محنت طلب اورصبر آزما کام بخوبی انجام دے سکیں گے۔ ڈاکٹر وقار ملک نے میرے ساتھ مکالمہ ہی نہیں کیا بلکہ بعض واقعات کی صحت کی جانچ پڑتال کے لیے جس طرح سے تحقیق وتصدیق کی وہ یقیناًقابلِ تحسین ہے۔ جس کی بنا پر اب یہ کتاب گفت و شنید سے بڑھ کر ایک علمی اورتاریخی دستاویز بن گئی ہے۔مجیب الرحمن شامی صاحب لکھتے ہیں ''جس طرح ایس ایم ظفر اپنی مثال آپ ہیں‘ اسی طرح وقارملک بھی منفرد اور ممتاز ہیں۔انہیں مختلف موضوعات پر سوال اٹھانے کا جوملکہ حاصل ہے وہ بہت کم میڈیا پرسنزکونصیب ہواہوگا۔ پاکستان کی تاریخ‘ سیاست‘ عدالت اورثقافت کے بارے میں شاید ہی کوئی سوال ہوگاجووقار ملک نے نہ پوچھا ہواوراس کا جواب حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہ کی ہو۔ آپ نے ایس ایم ظفرکی ٹکسال سے استفادہ کرکے لکھ پتی بننا ہے‘ کروڑ پتی یا ارب پتی‘ یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔‘‘ممتاز خاتون لکھاری بشری رحمن نے اس کتاب پر اپنے تاثرات کا یوں اظہار کیا '' ہم نے طالب علمی کے زمانے میں 'مکالمات افلاطون‘کاذکرتو سنا تھا اب جو ڈاکٹر وقارملک کی ضخیم کتاب جناب ایس ایم ظفر کے ساتھ مسلسل پچیس سال کے مکالمات پر مشتمل ملی تو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ افلاطون اورسقراط ہر دورمیں ہوا کرتے ہیں۔ خوش قسمتی سے زمانے کو اگر ڈاکٹر وقار ملک بھی میسر آجائیں تو پھر عقل وخرد کے خزینوں میں اضافہ ہوتارہتاہے اور آنے والی نسلوں کو راہنمائی ملتی رہتی ہے۔ میں ڈاکٹر وقار ملک جیسے قلم کے غازی کو مبارک باددوں گی کہ انہوں نے ان مکالمات کے ذریعے نہ صرف زندگی اوربندگی کے ہر موضوع پر سوال اٹھایاہے بلکہ ایس ایم ظفر سے اس کا مثبت حل بھی معلوم کرلیا ہے۔‘‘پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹرمجاہد کامران لکھتے ہیں ''وقارملک کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ انٹرویو دینے والی شخصیت کے جواب پر اپنے کالم میں نہایت خوبصورتی اورمہارت کے ساتھ تبصرہ اورائے کا اظہار بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں جس سے نہ صرف قاری کی معلومات میں اضافہ ہوتاہے بلکہ اس کی انٹرویو میں دلچسپی بھی بڑھ جاتی ہے۔ ان کے سوالات میں تیکھے پن کے ساتھ ساتھ مذہب کی چاشنی بھی موجود ہوتی ہے۔‘‘
پاکستان کی جانی پہچانی شخصیت ایس ایم ظفر وقار ملک کی پسندیدہ شخصیات میں بہت نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ ایس ایم ظفر صرف ایک قانون دان ہی نہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی‘ معاشرتی اورثقافتی زندگی کے اہم مبصربھی ہیں۔اس کتاب میں قارئین کو مختلف اہم موضوعات پر ایک صاحب الرائے شخصیت کے نظریات سے بھرپور استفادہ کرنے کا موقع ملے گا۔ اس کتاب میں ایس ایم ظفر کی ذاتی زندگی‘ نظریۂ پاکستان‘ انسانی حقوق‘ کشمیر‘ مذہب‘عدلیہ‘ پاکستان کا ایٹمی پروگرام‘ ذرائع ابلاغ‘ دہشت گردی‘غرض کسی بھی قسم کے موضوع سے دلچسپی رکھنے والے قاری کے لیے کچھ نہ کچھ مواد موجودہے۔ مثلاًایک حصہ طنز ومزاح پر مبنی مکالمات پر مشتمل ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ اوربین الاقوامی امورپر بھی ایس ایم ظفر صاحب کے قیمتی خیالات موجود ہیں۔ مکالمہ نگار ڈاکٹر وقار ملک نے ایک مستند اورتاریخی تحریر کی وساطت سے ایس ایم ظفر سے قارئین کی ملاقات کروادی ہے‘ جس سے یقیناًبہت کم لوگ واقف ہوں گے۔ جس طرح ایس ایم ظفر کی زندگی اہم‘ بھرپور اورجامع ہے اسی طرح کتاب میں شامل تمام مکالمات بھی اہم بھرپور اورجامع ہیں۔ ڈاکٹروقار ملک نے ان مکالمات کے ذریعے نہ صرف موجودہ نسل بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک مستقل اہمیت کی کتاب کی تحریر وتدوین کا اہم فریضہ بخوبی انجام دیا ہے جس کے لیے وہ یقینامبارک باد کے سزاوار ہیں۔