یہ کامیابیوں اور کامرانیوں کی دلکش دہائی ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ دس برس مکمل ہونے پر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کی تیسری کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے جس کے نتائج ثمر آور ثابت ہوئے ہیں۔ دنیا کی مجموعی طور پر 75فیصد آبادی‘ڈیڑھ سو سے زائد ملک اور 30بڑے عالمی ادارے BRI کے مختلف عظیم منصوبوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ چینی صدر شی کو پیار سے ''شی دادا‘‘ کہتے ہیں جبکہ چینیوں کے شی دادا‘ BRIکے ثمر بار منصوبوں کی وجہ سے دنیا کی 75فیصد آبادی سے محبت کرنے والے مہربان دادا ابو بن چکے ہیں۔ عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق BRIایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کو باہمی تعاون اور ہر قسم کے معاشی‘ اقتصادی اور اخلاقی مفادات کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ چین اپنے دوست اور شراکت دار ممالک کو اعلیٰ درجے کے اخلاقی‘ معاشی اور اقتصادی ڈھانچے کی تشکیل میں ہر طرح کی مدد فراہم کر رہا ہے جس کے مثبت نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔ جہاں تک پیارے پاکستان کا تعلق ہے‘ ہم BRIسے مستفید ہونے والا پہلا ملک ہیں جہاں 2013ء میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) جیسا عظیم منصوبہ شروع کیا گیا تھا جو پاکستان کیلئے Game changer ہے۔ پاکستان 2013ء تک اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ بجلی کی پیداوار کم ہونے کی وجہ روزانہ 12سے 18گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ معمول تھا۔ لاکھوں نوجوان کارخانے اور کاروبار بند ہونے کی وجہ سے بیروز گار ہو چکے تھے۔ یہ عالم تھا کہ پاکستان کا خوبصورت دارالحکومت اسلام آباد بھی اندھیروں میں ڈوبا رہتا تھا۔ ہمارے پاس اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کیلئے کوئی حل موجود نہیں تھا۔ چینی صدر شی نے 2013ء میں BRI کے تحت CPEC شروع کیا تو اندھیرے میں ڈوبا ہوا پاکستان بجلی کی روشنیوں سے جگمگانے لگا۔ اب پاکستان میں اعلیٰ معیار کا اقتصادی ڈھانچہ تشکیل پا رہا ہے‘ بجلی پیدا کرنے کے 25منصوبے مکمل ہو چکے ہیں جن سے 18 سو میگا واٹ سستی بجلی پیدا ہو رہی ہے مگر یہ غریب عوام کو مہنگی بیچی جا رہی ہے۔ گوادر بندرگاہ اور گوادر ایئر پورٹ کے وجہ سے عالمی فاصلے سمٹ چکے ہیں۔ خصوصی اقتصادی منصوبوں کی وجہ سے لاکھوں نئی ملازمتیں تعلیم یافتہ جوانوں اور ہنر مندوں کیلئے پیدا ہو رہی ہیں۔ بلا مبالغہ کروڑوں پاکستانی نوجوانوں کا مستقبل BRIنے بدل کر رکھ دیا ہے‘ اس ضمن میں سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی چینی قیادت سے بھرپور تعاون کیا تھا۔
اب BRIکی ایک دہائی مکمل ہونے پر حکومتِ پاکستان اور نجی اداروں نے چینی حکومت اور نجی اداروں سے باہمی تعاون کے 25سے زائد باہمی تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے حوالے سے اصل مسئلہ سوشل میڈیا ہے‘ روایتی میڈیا میں تو پھر بھی پالیسی اور انتظامی ادارہ جاتی کنٹرول موجود ہے لیکن سوشل میڈیا تو صرف پسند اور ناپسند کی مال بناؤ پالیسی پر چلتا ہے‘ اس لیے نئے نئے کھلاڑیوں نے مادر پدر آزادی کا مظاہرہ کرکے زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کرنے کیلئے گمراہی کا K2 سر کر لیا ہے۔ پروفیسر احسن اقبال اوائلِ جوانی میں انجینئر بننا چاہتے تھے‘ اس لیے ٹیکسلا انجینئرنگ کالج میں داخلہ لے لیا۔ وہ تو موتیوں والی سرکار منصور صدیقی مرحوم نے طلبہ یونین الیکشن کیلئے ٹیکسلا انجینئرنگ کالج سے برادر احسن اقبال کوڈھونڈ نکالا اور لاہور لے آئے۔ آپا نثار فاطمہ کے صاحبزادے اور راجپوت سرداروں کے بیٹے احسن اقبال کو یہ کالم نگار بھی اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتا تھا کہ محترم امین احسن اصلاحی سے نسبت نے انہیں محبوب سے محبوب تر بنا دیا۔ BRIمیں (ن) لیگ کی والہانہ شمولیت میں پروفیسر احسن اقبال نے بنیادی کردار ادا کیا ۔ ان کیساتھ ساتھ نارووال سے ہی دوسرے (ن) لیگی رہنما دانیال عزیز بھی سب سے پہلے چین کے نعرے لگاتے تھے کہ ان کے والد گرامی قدر ایم انور عزیز چیئرمین ماؤ اور چینی قیادت کے عاشقِ زار تھے۔ ابتدائی چند برسوں کے دوران‘ پاکستانی میڈیا کیلئے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں BRIاور CPEC کی اہمیت کو سمجھنا مشکل تھا۔ بعض میڈیا اداروں نے اپنے طور پر BRI کے فوائد کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنا شروع کیا۔ ہم نے اپنے ملک کے بہترین مفاد کیلئے BRI اور CPEC کے بارے میں سچ بتا کر پروپیگنڈا خبروں اور غلط معلومات پر مبنی مہمات کا بھی پردہ فاش کیا ہے۔ انٹر نیوز پاکستان 2015ء سے ژنہوا نیوز ایجنسی کیساتھ تعاون کر رہا ہے۔ ژنہوا نیوز ایجنسی کے ٹھوس‘ اعلیٰ تحقیق شدہ اور غیر جانبدارانہ مواد نے ہمیں عوام کو یہ بتانے میں کافی مدد فراہم کی کہ BRI جیسا منصوبہ عالمی سطح پر کیسے فائدہ پہنچا رہا ہے۔
شاہراہِ ریشم سے منسلک ممالک کے میڈیا کا بنیادی فرض ہے کہ وہ بی آر آئی اور اس کے فوائد کے بارے میں آگاہی پیدا کرے اور دنیا کے غریب لوگوں کے فائدے کیلئے بی آر آئی کے بارے میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ میڈیا رائے عامہ کو تشکیل دینے اور درست اور معروضی معلومات فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عالمی اتفاقِ رائے کو بڑھانے کیلئے میڈیا کی طاقت کا فائدہ اٹھانے کے مقصد سے میں چند تجاویز پیش کرنا چاہتا ہوں۔سلک روڈ انٹرنیشنل کمیونیکیشن فورم کو شاہراہِ ریشم کیساتھ والے ممالک میں زیادہ سے زیادہ میڈیا ہاؤسز کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ عالمی اتفاقِ رائے کو بڑھانے کیلئے میڈیا کی طاقت کا فائدہ اٹھانے کیلئے‘ میڈیا کی مثبت اقدار کو فروغ دینا چاہیے اور لوگوں کے درمیان پل بنانا چاہیے۔ لیکن اس حوالے سے فی الحال اہم مسائل میں سے ایک ترقی پذیر ممالک میں میڈیا ہاؤسز کا غیر تربیت یافتہ‘ ناتجربہ کار اور نااہل عملہ ہے جو چینلز اور اخبارات کیلئے ناقص مواد تیار کرتا ہے۔ سلک روڈ انٹرنیشنل کمیونیکیشن فورم کو میڈیا سے منسلک افراد کو تربیت فراہم کرنے کیلئے بھی کچھ اقدامات کرنا چاہئیں تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ تربیت عملے کیلئے کتنی ناگزیر ہے۔
حرفِ آخر یہ کہ ایک بہت بڑی ہستی نے اس کالم نگار سے پنجابی میں گفتگو کرتے ہوئے اچانک پوچھ لیا کہ تمہارا بڈھے ظالم بائیڈن بارے کیا خیال ہے؟ میں نے کہا ہے: بزرگ آدمی ہے‘ Soft Face ہے۔ جس پر اس بزرگ نے کہا: اس کی شکل پر نہ جاؤ۔ اس بزرگ کا نام نہیں بتایا جا سکتا۔پھر انہوں نے چند باتیں گوادر بارے بتائیں۔ یہ سب حماس اسرائیل تنازع سے بہت پہلے کی باتیں ہیں۔ کاش‘ اے کاش ان سے آپ کو آگاہ کر سکوں۔ سی پیک کے 10سال مکمل ہونے پر اسلام آباد میں عام تعطیل کے اعلان کیساتھ ساتھ خصوصی تقریبات کا بھی انعقاد کیا گیا۔ چینی صدر شی جن پنگ کے خصوصی نمائندے اور چین کے نائب وزیراعظم ہی لی فنگ نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی تھی اور ایک بار پھر دونوں ملکوں نے سی پیک منصوبوں کی بروقت تکمیل اور راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کی۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت چین پاکستان میں 62ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے جس کے تحت سڑکیں‘ زراعت‘ بجلی اور پانی کے بیشتر منصوبوں پر کام مکمل ہو چکا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے 2006ء میں چین کیساتھ مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط کیے تھے‘ جن میں 50کے قریب منصوبوں پر کام ہونا تھا۔ سی پیک‘ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا بہت اہم حصہ ہے جس کی باقاعدہ بنیاد 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کے دور میں رکھی گئی تھی۔ اپریل 2015ء میں دونوں ممالک نے 46ارب ڈالر کی 51یادداشتوں پر دستخط کیے تھے۔ نومبر 2017ء میں لانگ ٹرم معاہدے کی مدت کے سمجھوتے پر دستخط کیے گئے جس کا دورانیہ 2017ء سے 2030ء تک ہے۔ ون پلس فور کہلانے والے اس منصوبے میں ون سی پیک کو کہا جاتا ہے اور چار منصوبے اس کے تحت ہیں جن میں گوادر بندرگاہ‘ توانائی اور مواصلاتی نظام اور صنعتی زونز کو بہتر بنانا شامل ہے۔