"MAK" (space) message & send to 7575

قصور وار مسلمان ہی ہوتا ہے

حماس اسرائیل جنگ نے سب کچھ بے نقاب کر دیا ہے۔ مہذب یورپ اور انسانیت دوست امریکہ کے سب دعوے جھوٹ کا پلندہ ثابت ہو چکے ہیں۔ افسوس کہ جہاں ہدف مسلمان ہوں وہاں سب کچھ بدل جاتا ہے‘ وہ یورپ کا قلب بوسنیا ہو یا فلسطین کا غزہ‘ کہانی ایک ہی رہتی ہے‘ قصور وار مسلمان ہی ہوتا ہے۔
جنگ و جدل میں سب کچھ جائز ہوتا ہے‘ یہ مفروضہ نہیں ابدی حقیقت ہے۔ کہتے ہیں کہ قدیم تہذیبوں میں جنگیں شاید اصولوں کے مطابق لڑی جاتی ہوں گی لیکن قومی ریاستوں کے قیام کے بعد جنگوں میں انسانی حقوق پامال نہ ہوں‘ اس کے لیے باقاعدہ قوانین ترتیب دیے گئے‘ قواعد و ضوابط بنائے گئے۔ لیکن اسرائیل غزہ میں کئی ہفتوں سے جو وحشیانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے‘ انہیں جنگی جرائم کہا جا رہا ہے۔ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے مطابق جنگ میں پھنسے عام شہریوں‘ جنگی قیدیوں‘ زخمی فوجیوں اور بیمار افراد سے سلوک کا جو معیار جنیوا کنونشن میں طے کیا گیا ہے‘ اس کی سنگین خلاف ورزیاں جنگی جرائم کہلاتی ہیں۔ مغربی ممالک کی طرف سے جنیوا کنونشن کی شقوں پر کبھی عملدرآمد نہیں کیا گیا جس کی سب سے بڑی مثال بوسنیا اور سربیائی کی ہولناک خانہ جنگی تھی۔ یورپ کے عین قلب میں لاکھوں کلمہ گو مسلمانوں کو جس ہولناک اور منظم طریقے سے قتل کیا گیا‘ اس پر سارا مہذب یورپ گم سم بیٹھا رہا۔ انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں پر بھی کسی نے ایک لفظ کہنا گوارا نہیں کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سب مظلوم یورپی النسلوں کا واحد جرم کلمہ گو مسلمان ہونا تھا اور اب دوبارہ وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ اسرائیل کی وحشیانہ یکطرفہ بمباری کا نشانہ نہتے فلسطینی خواتین اور بچے ہیں‘ صہیونی درندوں نے غزہ کے تمام ہسپتالوں کو براہِ راست بمباری کرکے تباہ و برباد کر دیا ہے۔ غزہ کے سب سے بڑے ہسپتال الشفا کو کھنڈرات میں بدل دیا ہے۔ اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے صدر بائیڈن نے الزام دہرایا ہے کہ الشفا ہسپتال حماس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر ہے اور اس پر اسرائیلی فوجی حملے جائز ہیں۔ رہے پاکستان اور ایران سمیت سارے دیگر مسلمان ممالک تو سب گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ رہے ہیں۔
ہیگ کنونشنز کے اصولوں کی خلاف ورزی بھی جنگی جرائم تصور کی جاتی ہے۔ بین الاقوامی تنازعات کے پُرامن حل کے لیے پہلا ہیگ کنونشن 1899ء اوردوسرا 1907ء جبکہ جنیوا کنونشن 1864ء میں متعارف کروایا گیا تھا۔ جنگ عظیم دوم میں فوجیوں کے مقابلے میں عام شہریوں کی دو گنا ہلاکتوں کے بعد ان کنونشنز میں نئے اصول اور پروٹوکولز شامل کیے گئے۔ ہیگ کنونشنز میں جنگوں کے وحشیانہ طریقہ کار اور حکمت عملی پر پابندی لگائی گئی تو جنیوا کنونشن میں عام شہریوں کے تحفظ کو ترجیح دی گئی۔ یہ کنونشنز جنگ میں شامل سبھی فریقوں پر نافذ ہوتے ہیں‘ خواہ وہ ملک ہوں یا افواج یا پھر مسلح عسکریت پسند گروہ۔ ان قوانین کو انٹرنیشنل ہیومینٹیرین لاز بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کنونشنز مسلح تصادم کے دوران عام شہریوں کا زیادہ سے زیادہ تحفظ یقینی بناتے ہیں‘ ان سے سلوک کا معیار طے کرتے ہیں اور جنگ میں پھنسے عام شہریوں‘ زخمیوں اور ہتھیار ڈال دینے والے سپاہیوں کا بنیادی انسانی احترام یقینی بناتے ہیں۔ ہیگ اور جنیوا کنونشنز اپنے جن اصولوں کے خلاف ورزیوں کو جنگی جرائم تصور کرتے ہیں ان میں قتل یا قتلِ عام‘ تشدد یا غیرانسانی سلوک‘ شہریوں کو اغوا کرنا‘ جنگی حکمت عملی کے تحت بھوک کو شہریوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنا‘ خوراک سے متعلقہ سپلائز کو روکنا‘ جنگ میں پھنسے شہریوں اور ان کی املاک کو نشانہ بنانا‘ انسانی امداد فراہم کرنے والے اور امن قائم کرنے والے عالمی اداروں کے دفاتر‘ گاڑیوں‘ ملازمین اور املاک کو نشانہ بنانا‘ یہ جاننے کے باوجود حملہ کرنا کہ کسی فوجی ہدف کو حاصل کرنے کے دوران ہلاک اور زخمی ہونے والے عام شہریوں کی تعداد اور شہری املاک کو پہنچنے والا نقصان ہدف کی کامیابی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگا‘ شہریوں یا شہری آبادیوں پر ایسے ہتھیار اور جنگی طریقے استعمال کرنا جن سے غیر ضروری تکلیف یا چوٹ پہنچنے کا خطرہ ہو‘ کیمیاوی یا کیمیکل ہتھیاروں کا استعمال‘ ہسپتالوں اور ایسے مقامات کو جہاں بیمار اور زخمیوں کو رکھا گیا ہے‘ نشانہ بنانا‘ قبضے میں لیے گئے علاقوں کو لوٹنا‘ شہریوں اور جنگی قیدیوں کے ساتھ ایسا سلوک کرنا جو انسانی وقار کے خلاف ہو‘زنا بالجبر کرنا‘ جنسی غلامی لاگو کرنا‘ عسکری ضرورت نہ ہوتے ہوئے بھی املاک کو تباہ کرنا‘ جنگی قیدیوں اور عام شہریوں کو انصاف تک رسائی نہ دینا‘ غیرقانونی دربدری‘ قید‘ جبری گمشدگی شامل ہیں۔ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ جنگی جرائم‘ انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی جیسے جرائم پر فیصلہ دینے کا اختیار رکھتی ہے۔ جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے خلاف ہیگ میں موجود بین الاقوامی فوجداری عدالت کارروائی کر سکتی ہے لیکن انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں یہ ثابت کرنا کہ یہ جرائم غلط فہمی کی بنیاد پر نہیں بلکہ ارادتاً کیے گئے ہیں‘ آسان کام نہیں۔ اسی لیے ایسے علاقوں میں کام کرنے والے صحافی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مستقل دستاویزی ثبوت مرتب کرتی ہیں تاکہ انہیں بعد میں ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ دنیا کے 123ممالک انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے ممبرز ہیں مگر امریکہ‘ روس‘ اسرائیل‘ بھارت اور پاکستان جیسے ممالک ان میں شامل نہیں۔ عالمی عدالتِ انصاف نان ممبر ممالک پر اختیار نہیں رکھتی لیکن اگر کوئی نان ممبر ملک ممبر ملک کے خطے میں کوئی جرم کرے تو عالمی عدالتِ انصاف اس پر تحقیق اور تفتیش کے بعد فیصلہ سنا سکتی ہے لیکن اس پر عملدرآمد کون کرائے گا‘ کیسے کرائے گا‘ یہ واضح نہیں ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ پاکستان میں مجسٹریٹ کے فیصلے پر تو برق رفتاری سے عمل ہو جاتا ہے لیکن سپریم کورٹ کے حکم کی پروا نہیں کی جاتی۔
حماس اسرائیل جنگ نے اسرائیلی معیشت کو منہ کے بل گرا دیا ہے۔ جنگ کے باعث اسرائیل کی کرنسی شیکل 2012ء کے بعد کم ترین سطح پر آ چکی ہے۔ غزہ جنگ کے سبب اسرائیلی معیشت کو یومیہ 26کروڑ ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے۔ ادھر اسرائیل اور حماس نے یرغمالیوں کی رہائی پر جاری مذاکرات معطل کر دیے ہیں جس میں قطر‘ امریکہ اور ایران ثالث کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ایک اسرائیلی سینئر سکیورٹی اہلکار کے بیان کے مطابق اسرائیل کی جنگی کابینہ کے دو ارکان اور اس کا ایک مبصر جنوبی غزہ پر فوج کے زمینی حملے میں توسیع کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے وزیر دفاع یوو گیلنٹ‘ سابق چیف آف سٹاف بینی گانٹز اور اسرائیلی فوج کے سابق چیف آف سٹاف گاڈی آئزنکوٹ حماس سے اسیروں کی رہائی کے لیے جاری مذاکرات کے باوجود فوجی آپریشن جاری رکھنے پر اتفاق کرتے ہیں۔ اب تک اسرائیلی افواج اور فلسطینی مجاہدین کے درمیان لڑائی غزہ پٹی کے شمال میں مرکوز رہی ہے‘ جس سے لاکھوں لوگ جنوب کی طرف بھاگنے پر مجبور ہوئے تھے لیکن جمعرات کو اسرائیلی فوج نے جنوبی غزہ میں خان یونس کے کچھ علاقوں پر کتابچے گرائے تھے جس میں مکینوں کو یہ علاقہ خالی کرنے کا حکم دیا گیا تھا‘ تاہم یہ واضح نہیں کہ رہائشیوں کو کس راستے سے جانے کا کہا جا رہا ہے کیونکہ اسرائیل جنوبی علاقوں میں بمباری جاری رکھے ہوئے ہے جہاں پہلے فلسطینیوں کو اپنی حفاظت کے لیے نقل مکانی کا حکم دیا گیا تھا۔
غزہ کے ہسپتالوں میں لاشوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ شہید فلسطینیوں کی تعداد 11ہزار 500 سے زائد ہو گئی ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کی بھرمار ہے‘ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری نے غزہ کا نظام صحت تباہ کردیا ہے۔ اسرائیلی فوج الشفا ہسپتال پر مکمل قبضہ کر چکی ہے۔ غزہ کے انڈونیشین ہسپتال میں بھی مریضوں کا علاج بند ہو چکا ہے۔ جہاں ہدف مسلمان ہوں‘ وہاں سب کچھ بدل جاتا ہے‘ وہ یورپ کا قلب بوسنیا ہو یا فلسطین کا غزہ‘ کہانی ایک ہی رہتی ہے قصور وار مسلمان ہی ہوتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں