لیکن الیکشن کا تازہ مقدمہ سب جیت چکے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات ملک بھر میں ایک ہی دن یعنی 8 فروری 2024ء کو ہوں گے۔ الیکشن کا مقدمہ بھی کیا چیز تھا‘ ناممکنات کا کھیل تھا جسے عدالتِ عظمیٰ نے ایسے شاندار طریقے سے ممکن بنایا کہ سب فاتح ہیں‘ البتہ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے حوالے سے آئین کی بے ادبی اور خلاف ورزی کی ہوائیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ صدرِ مملکت نے آئین کی توہین اور بے ادبی کرتے ہوئے الیکشن کی تاریخ نہیں دی تھی۔ ایسا کہنے والے بڑی آسانی سے بھول گئے کہ صدرِ مملکت نے الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن(1) 57 کے تحت 9اپریل 2023ء کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا تھا‘ جس پر عملدرآمد نہ کیا گیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ الیکشن کمیشن سمیت اس وقت کی حکومت اور چند نام نہاد دانشوروں سمیت سب نے صوبائی اسمبلیوں کی تاریخ دیے جانے پر مذاق اڑایا تھا۔ تب صدر صاحب نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے گورنروں پر تنقید کرتے ہوئے خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ دونوں گورنر صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90دن کے اندر الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کی اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے جبکہ الیکشن کمیشن بھی دونوں اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کی اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا۔ دونوں آئینی ادارے انتخابات کی گیند ایک دوسرے کی کورٹ میں ڈالتے رہے ہیں۔ صدرِ مملکت نے تو چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ کر 20 فروری 2023ء کو ایوانِ صدر میں انتخابات سے متعلق اجلاس میں شرکت کرنے کی دعوت بھی دی تھی‘ جسے مسترد کر دیا گیا جس پر حکومتی عہدیداروں نے بھی بغلیں بجائیں۔اب اُسی صدرِ مملکت کے مواخذے کے طریقے ڈھونڈے جا رہے ہیں جو اپنی مدت پوری کرنے کے بعد بھی نئے انتخابی ادارے کے انتخاب اور تشکیل تک کرسی ٔ صدارت پر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔
اب اعلیٰ عدلیہ آئندہ عام انتخابات ہر حال میں 8فروری کو کرانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان اور جسٹس اطہر من اللہ کا دورانِ سماعت کہنا تھا کہ عدالت آئین و قانون کی کسی خلاف ورزی کی توثیق نہیں کر رہی‘ الیکشن کمیشن یقینی بنائے کہ 8فروری کو ہر صورت انتخابات ہوں‘ الیکشن کمیشن ہر قدم قانون کے مطابق اٹھائے۔ صرف انتخابات نہیں‘ بلکہ ایسے صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانا سب سے بڑا چیلنج ہو گا جسے ساری قوم قبول کر لے۔ ملکی تاریخ میں کسی بھی الیکشن کے نتائج کو خوش دلی تسلیم نہیں کیا گیا اور ہر الیکشن کو کسی نہ کسی جماعت کی طرف سے دھاندلی زدہ یا جانبدارانہ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ 1970ء کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کیا گیا‘ جس کا نتیجہ سقوطِ ڈھاکہ کی صورت میں نکلا۔ 1971ء سے 1977ء تک ہر ضمنی انتخاب میں دھونس دھاندلی کے مظاہر دیکھے گئے‘ جھرلو پھیرے گئے اور یہی سب کچھ 1977ء کے عام انتخابات میں دہرانے کی ناکام کوشش کی گئی اور حالات نے ایسا رُخ اختیار کیا کہ ملک میں مارشل لا نافذ ہو گیا۔ 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں کوئی منظم دھاندلی نہ ہوئی اور شریف النفس اور ایماندار‘ دیانتدار محمد خان جونیجو وزیراعظم بن گئے جنہیں صرف اڑھائی برس بعد بدعنوان قرار دے کر برطرف کر دیا گیا۔ پھر 1990ء سے 2018ء تک ایک ہی کہانی مختلف انداز میں دہرائی جاتی رہی اور اب بھی دہرائی جا رہی ہے۔
اب ایک بار پھر عام انتخابات کا مرحلہ درپیش ہے۔ ان انتخابات کی شفافیت یقینی بنانا اہم ترین مسئلہ ہے کیونکہ شفاف انتخابات کے نتیجے میں ہی ملک سیاسی و معاشی استحکام کی جانب گامزن ہو سکے گا۔ جناب ذوالفقار چیمہ وہ شخصیت ہیں جن کے زیر انتظام کرائے گئے الیکشن کو اپنے پرائے سب قبول کر لیں گے۔ ذوالفقار چیمہ پنجاب پولیس کے قابلِ فخر‘ دیانتدار اور بہادر افسر رہے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر راست فکر دانشور ہیں‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ راست فکری بھی مشکل اور جاں جوکھوں کی راہ ہے۔برادر ذوالفقار چیمہ برسوں سے ساتھی کالم نگار بھی ہیں۔ اپنے آبائی علاقے میں انصاف کا ترازو سربلند رکھنا قریباً ناممکن ہو جایا کرتا ہے لیکن ذوالفقار چیمہ اس امتحان میں بھی سرخرو اور سربلند رہے۔ مجھے 2010ء میں نوشہرہ ورکاں میں ہونے والا قومی اسمبلی کا ضمنی الیکشن اب بھی یاد ہے۔ 13برس ہوتے ہیں‘ جناب ذوالفقار چیمہ نے اس وقت تمام تر دباؤ کے باوجود شفاف الیکشن کرانے کا ناقابلِ بیان کارنامہ انجام دیا تھا۔ تمام تر دباؤ کے باوجود ذوالفقار چیمہ نے صرف آئین و قانون کو سامنے رکھا اور اپنے فرائض پوری ایمانداری اور جرأت مندی سے انجام دیے۔ اس ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کا امیدوار ہار گیا جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار تصدق مسعود خان جیت گئے تھے۔ تب میرے ابا جی مرحوم رانا محمد اشرف خاں نے مجھے خاص طور گوجرانوالہ طلب کرکے ایک ایک ووٹ گن کر ڈلوا نے کا حکم دیا تھا۔ نوشہرہ ورکاں میں 2010ء کا یہ ضمنی الیکشن مقامی جاٹوں اور مہاجر راجپوتوں میں جنگ و جدل کا معرکہ بن چکا تھا۔ تحصیل گوجرانوالہ کے آخری کونے میں واقع یہ حلقہ شیخوپورہ اورحافظ آباد کے اضلاع سے متصل ہے۔ یہ کالم نگار اس حلقے میں بڈھا گورائیہ سے ووٹر بھی ہے۔ مجھے پل پل کی خبریں مل رہی تھیں کہ الیکشن میں دھاندلی کی تیاریاں وسیع پیمانے پرکی جا رہی ہیں۔ ماڈل ٹاؤن گوجرانوالہ میں الیکشن کمیشن کا جعلی دفتر بنالیا گیا تھا۔ اس شدید کشیدہ ماحول میں ذوالفقار چیمہ نے کھلے بندوں ہتھیاروں کی نمائش پر Zero Tolerance کی حکمت عملی کے تحت پُرامن انتخابات کرانے کا ناقابلِ یقین مرحلہ طے کر لیا۔ اصل کھیل اس کے بعد شروع ہوا۔ دور دراز علاقوں کے پریزائیڈنگ افسروں کو اغوا کرکے گوجرانوالہ پہنچا دیا گیا۔یہ ذوالفقار چیمہ ہی تھے جنہوں نے مصلحت اور مصالحت کو پس پشت ڈال کر الیکشن کمیشن کے جعلی دفتر پرچھاپہ مارا۔ عملہ اورجعلی دستاویزات برآمد کیں اور رات گئے سچ پر مبنی نتائج مرتب کرا کے ضمیرکی عدالت میں مطمئن اور سرخرو ہو گئے۔
ذوالفقار چیمہ کو بعد ازاں اس دیانتداری کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ انہیں ایک ڈیڑھ ماہ بعد مقامی قیادت کے دباؤ پر گوجرانوالہ سے تبدیل کر دیا گیا۔ انہیں دانستہ پنجاب پولیس کا سربراہ نہ بننے دیا گیا جس کے وہ سب سے زیادہ حق دار تھے۔ انہیں کبھی ایلیٹ فورس‘ کبھی پولیس فاؤنڈیشن اور کبھی موٹروے پولیس میں تعینات کیا جاتا رہا۔ چیمہ صاحب کا سارا خاندان (ن) لیگ سے وابستہ ہے۔ شریفوں سے اس درجہ قربتیں اور ایسی پارسائی‘ اسے کیا کہیے۔ ذوالفقار چیمہ کے بڑے بھائی جسٹس (ر) افتخار چیمہ اورڈاکٹر نثار چیمہ وزیر آباد سے (ن) لیگ کے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں۔ لیکن کُلی اور حتمی انصاف پر یقین رکھنے والے ذوالفقار چیمہ فرائض انجام دیتے ہوئے رشتے ناتوں کی پروا نہیں کرتے تھے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ ذوالفقار چیمہ کے ذریعے ووٹ کو عزت دینے کی یہ تجویز قائدِ جمہوریت جناب نواز شریف کو پسند آتی ہے یا نہیں۔
اب الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جاری کردہ پریس ریلیز ملاحظہ فرمائیں جس میں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا نام تک لکھنا گوارا نہیں کیا گیا۔ اس کا متن بھی سرکاری آداب اور قواعد و ضوابط کی شدید خلاف ورزی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سرابرہی میں ممبران نے صدرِ پاکستان سے الیکشن کی تاریخ کے سلسلے میں ملاقات کی۔اعلامیے کے مطابق متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ الیکشن مورخہ 8 فروری بروز جمعرات منعقد ہوں گے۔اس سے قبل الیکشن کمیشن نے صدرِ مملکت کو تحریری طور پر11 فروری کو عام انتخابات کی تاریخ تجویز کی اور چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے صدر مملکت کو خط ارسال کر دیا تھا۔