گزشتہ ہفتے امریکی کانگریس کے 11اراکین نے پاکستان میں آئینی نظام کی بحالی اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد تک امریکی وزارتِ خارجہ سے پاکستان کی تمام امداد روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔گوکہ اس کی وجہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں قرار دی جا رہی ہیں لیکن بادی النظر میں امریکی واضح طور پر تحریکِ انصاف اور پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت میں سرگرم ہو چکے ہیں‘ یعنی امریکہ اور پاکستان آمنے سامنے آگئے ہیں جس سے بچاؤ صرف امریکی صدر جوبائیڈن کے خصوصی استثنا سے ہی ممکن ہو سکے گا۔ ایک ماہ پہلے امریکی کانگریس کے ایک رکن نے تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنان سمیت دیگر سیاستدانوں کی پکڑ دھکڑ کی حوصلہ شکنی کے لیے پاکستان کو دی جانے والی امریکی امداد بند کرنے کی تجویز پیش کی تھی‘ قبل ازیں 65امریکی اراکینِ کانگریس مئی 2022ء میں بھی اسی طرح کے مطالبات کر چکے ہیں۔ اگرچہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ 2018ء میں ٹرمپ انتظامیہ کی معطل کی گئی امداد آج تک پوری طرح سے بحال نہیں ہو سکی۔ گوکہ امریکہ نے گزشتہ برس پاکستان کو سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے کچھ امداد دی تھی‘ کچھ دوسرے شعبوں میں بھی امداد جاری رہی لیکن امریکہ کی طرف سے عسکری امداد ابھی تک معطل ہے۔ آج کے کالم میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ پاکستان کے لیے امریکی امداد کتنی اہمیت رکھتی ہے۔
پاک امریکہ تعلقات میں امریکی امداد ہمیشہ بنیادی معاملہ رہی ہے‘ اس میں مالی اور عسکری دونوں طرح کی امداد شامل ہے۔ امریکی اراکین کانگریس کے وزارتِ خارجہ کو خط کے بعد اس میں کمی کا امکان ہے جسے امریکی صدر جوبائیڈن کا خصوصی استثنا ہی رَد کر سکتا ہے۔ جس طرح چند برس قبل امریکی صدر نے ایک صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے میں سعودی ولی عہد کو معاف کردیاتھا‘ جن کے خلاف قتل کا مقدمہ چلانے کے لیے امریکی صدر پر کافی دباؤ تھا لیکن امریکی ریاستی مفادات نے انہیں سر جھکانے پر مجبور کردیا ۔ اسی طرح کا صدارتی استثنا دہائیوں تک پاکستان کو حاصل رہا ہے جب سوویت یونین کے خلاف نام نہاد افغان جہاد جاری تھا جسے اب ''افغان فساد‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ صدر ضیا الحق کی آمرانہ حکومت کے خلاف پابندیوں کو امریکی صدر جمی کارٹر اور رونالڈ ریگن نے صدارتی اختیارات کے تحت معطل رکھا اور پاکستان کے ایٹم بم بنانے کے منصوبے کو بھی نظرانداز کیے رکھا کیونکہ CIA '' افغان فساد‘‘ کو مسلم اُمہ کا جہاد بنا کر پھیلا چکی تھی‘ پھر ان ''مجاہدینِ باصفا ‘‘نے جس طرح آپس میں جو تم پیزار کی‘ وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اصل معاملہ تو امریکی مفادات کی اہمیت کا ہے کہ کیا جوبائیڈن اس وجہ سے پاکستان کو استثنا دینے پر مجبور جائیں گے جس کے بظاہر امکانات بہت کم ہیں‘ جس کی وجہ سے نگران ڈھانچے کے لیے اَن گنت مسائل کھڑے ہو جائیں گے۔
پہلے اُس خط کا تجزیہ جو امریکی کانگریس کے 11اراکین نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو لکھا ہے۔ اس خط میں پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ خط میں جوبائیڈن انتظامیہ پر زور دیا گیا ہے کہ پاکستان کے لیے سکیورٹی کی مد میں دی جانے والی امریکی امداد اس وقت تک روک دی جائے جب تک ملک میں آئینی نظام بحال نہیں ہو جاتا اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات نہیں ہو جاتے۔ ایسے انتخابات جن میں تمام سیاسی جماعتیں آزادانہ حصہ لے سکیں۔ اس خط میں امریکی قانون سازوں نے تحفظِ انسانی حقوق قوانین اور فارن اسسٹنٹس ایکٹ کے تحت محکمہ خارجہ سے قانونی طور پر اس بات کا تعین کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ امریکہ کی سکیورٹی کی مد میں دی گئی امداد کو پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ خط میں امریکی نمائندوں نے سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے اور ان کی گرفتاریوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے جن میں تحریک انصاف اور پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنان و حامی اور انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں۔ اس خط میں اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے پر زور دیا گیا ہے کہ وہ چیئرمین تحریک انصاف سمیت انسانی حقوق کے سرگرم سماجی کارکنوں اور سیاسی رہنماؤں کے مقدمات کی سماعتوں اور دیگر قانونی کارروائیوں کا جائزہ لینے کے لیے مبصرین بھیجے۔ امریکی قانون سازوں کے مطابق پاکستان امریکہ کا پرانا اور قابلِ اعتماد اتحادی ہے اور وہ علاقائی استحکام اور دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں دونوں ممالک کے رشتے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور یہ بھی کہ امریکہ کو پاکستان میں مثبت تبدیلی کے لیے تعمیری کردار ادا کرنا چاہیے۔ امیدِ واثق ہے کہ امریکی تعاون سے پاکستان کے عوام کے لیے روشن مستقبل کے قیام میں مدد ملے گی۔
نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ ان کی بنیادی ذمہ داری پاکستان میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے لیکن اگر اس وقت عوام میں مقبول ایک رہنما جیل میں رہے اور اس کی پارٹی کی سرگرمیاں بھی محدود ہو جائیں‘ اسے دوسری جماعتوں کی طرح آزادانہ انتخابی مہم چلانے کے لیے برابر کے مواقع میسر نہ ہوں اورعوام میں یہ تاثر ابھی سے قائم ہو جائے کہ عام انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوں گے تو اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ نگران حکومت نے اپنا آئینی فرض ادا نہیں کیا۔ اس حوالے سے نگران وزیراعظم کا ٹھوس مؤقف ہے کہ نگران حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ تمام فریقین کو الیکشن کے دوران انتہائی شفافیت کے ساتھ مساوی مواقع فراہم کرے لیکن اگر اس کے بعد بھی تنقید کی جاتی ہے تو ہمیں اس کی فکر نہیں اور جہاں تک کسی مخصوص سیاسی رہنما کا تعلق ہے تو ہماری انتظامیہ نے کسی کو قید نہیں کیا‘ ان کا واضح اشارہ چیئرمین تحریک انصاف کی طرف تھا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ نگران حکومت نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ اگر کوئی ہنگامہ آرائی یا فوجی تنصیبات پر حملوں یا ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہوا تو اسے عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور جو بھی فیصلہ آئے سب کو اسے تسلیم بھی کرنا چاہیے۔ان پر عدالتوں میں مقدمات چلنے چاہئیں۔ اس کارروائی کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں‘ یہ طریقہ کار کئی دوسرے ممالک میں بھی رائج ہے۔ پاکستان میں بھی اس کے طے شدہ قوانین موجود ہیں اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اس کے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔اگر کوئی فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچائے گا تو اس کے خلاف ضابطے کی کارروائی ہو گی۔ فوجی تنصیبات کسی سیاسی جماعت کا دفتر نہیں ہوتیں کہ جہاں آپ جائیں اور احتجاجی مظاہرہ کریں۔ آپ کو سیاسی اداروں کے باہر جا کر مظاہرہ کرنا چاہیے‘ یہ بالکل جائز ہے اور یہی معمول ہے جس پر عمل کرنا چاہیے۔
گزشتہ ماہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے عام شہریوں کے ٹرائلز سے متعلق آرمی ایکٹ کی شق 2 (ون) (ڈی) کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نو اور دس مئی کے واقعات میں گرفتار تمام ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں سے فوجداری عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل کی طرف سے نو اور دس مئی کے واقعات میں ملوث تمام 103گرفتار افراد کی فہرست یا اس کے علاوہ بھی اگر کوئی عام شہری ان واقعات میں کسی بھی طرح ملوث ہیں تو ان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا ہے۔ رواں ماہ کی 13 تاریخ کو سینیٹ میں اس فیصلے کے خلاف قرارداد منظور کی گئی اور اب شنید ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف پنجاب کی نگران حکومت نے بھی ایک درخواست دائر کی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ معاملہ کہاں جا کر ختم ہوتا ہے۔