بجٹ‘ اخراجات اور حقیقت

پاکستان کو ایک طرف بھارت اور دوسری طرف افغانستان کی سرحدوں پر خطرے کا سامنا ہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ اس پہ مستزاد۔ اتنے سارے محاذوں پر لڑنے والی فوج کے وسائل بھی بڑے ہونے چاہئیں۔ مگر افواجِ پاکستان محدود وسائل کے ساتھ ہی وطن کا ہر ممکن دفاع کر رہی ہیں۔ تاہم دفاعی بجٹ میں اضافے سے صرف فوج کا نہیں پوری قوم کا بھلا ہوتا ہے۔ فوج اپنا نظام کس طرح چلا رہی ہے‘ اس کے ادارے کیسے ایک نظام کے تحت سول بجٹ پر بوجھ کم کر رہے ہیں یہ سبب جاننا ہے تو ڈاکٹر عشرت حسین کی کتاب Governing the Ungovernable پڑھیں۔
نئے وفاقی بجٹ کی آمد آمد ہے۔ اب آئی ایم ایف بھی ایک اہم سٹیک ہولڈر کے طور پر بجٹ سازی کے مراحل میں شامل رہتا ہے۔ معرکہ حق میں جس طرح پاک فوج نے وطن کا دفاع کیا ہے‘ پوری قوم یک زبان ہے کہ دفاع کو مضبوط بنانے پر بھرپور توجہ دی جائے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ نہیں چاہتے کہ بجٹ میں اتنا اضافہ ہو کہ اس کا بوجھ عام آدمی پر پڑے‘ یعنی ان کو دفاع کے ساتھ ساتھ مجموعی معاشی صورتحال کا بھی ادراک ہے۔تاہم معیشت اور سکیورٹی لازم وملزوم ہیں۔ ملک محفوظ ہوگا تو ہی معیشت پھلے پھولے گی۔ معیشت پھلے پھولے گی تو اتنے وسائل ہوں گے کہ دفاع کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنایا جا سکے۔ یہ سویلین قیادت کا امتحان ہے کہ عوام پر مزید بوجھ ڈالے بغیر دفاع کے بجٹ میں اضافہ بھی کرنا ہے اور آئی ایم ایف کے اعتراضات سے بھی بچنا ہے۔ حکومت کے سنگھاسن پر بیٹھنا کسی زمانے میں بھی آسان نہیں رہا مگر قیادت کہتے ہی اسے ہیں جو چیلنجز سے نبرد آزما ہونا جانتی ہو۔ مہنگائی میں کمی تو ہوئی ہے مگر اب بھی عوامی ریلیف کی ضرورت ہے۔ گزشتہ چند سال کافی مشکل گزرے ہیں۔ امید ہے کہ اب آسانیوں کا دور شروع ہو گا۔ اس بجٹ سے عوام‘ افواج ‘ میڈیا ‘ غرض ہر طبقے کو بڑی امیدیں ہیں۔ دیکھتے ہیں سیاسی قیادت کیسے اس امتحان میں سرخرو ہوتی ہے۔
وفاقی بجٹ کے حوالے سے چند ضروری گزارشا ت یہ ہیں کہ بجلی کی قیمتوں کو کم کرنے کیلئے تمام ممکنہ اقدامات پر سر جوڑا جائے۔ دنیا نیوز کے رپورٹر ذیشان یوسفزئی کی ایک خبر پڑھنے کو ملی کہ رواں مالی سال کے دوران بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) نے ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں بجلی کی قیمت میں 9 روپے 21 پیسے اضافہ کیا‘ حالانکہ حکومت نے اس سال آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بھی چلایا اور وزیراعظم نے بڑے اعلانات بھی کیے ‘مگر کہاں گئے وہ اعلانات‘ وہ بیانات اور وہ دعوے؟ بجلی کی طلب میں اضافے کیلئے ونٹر پیکیج کا بھی اعلان کیا گیا مگر خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ اشیا کی پیداواری لاگت کم ہونے سے مہنگائی کم ہو جاتی ہے اور اس کیلئے بجلی بنیادی ضرورت ہے۔ توانائی مہنگی نہیں خریدی جا سکتی۔ تیل کی قیمتوں کا تعلق بھی اس کے ساتھ ہے۔ عالمی سطح پر اب تیل کی قیمتیں کافی نیچے آ چکی ہیں‘ لہٰذا توانائی کی قیمتوں میں کمی ازحد ضروری ہے۔ وہ لوگ جو سولر پر شفٹ ہو رہے ہیں‘ ٹیکس لگنے کی خبریں سن کر پریشان ہیں۔ جو اپنی مدد آپ کے تحت متبادل ذرائع سے توانائی حاصل کر رہے ہیں ان کو تنگ نہ کیا جائے۔ایسی خبریں بھی ہیں کہ متعلقہ محکموں کے اہلکار گرین میٹر پالیسی کو جان بوجھ کر ناکام بنا رہے اور میٹر بدلنے اور اَپ ڈیٹ کرنے میں چھ چھ ماہ لگا دیے جاتے ہیں۔ توانائی جیسے شعبے میں اتنی لاپروائی سمجھ سے بالاتر ہے۔ حکومت کو سمجھا چاہیے کہ بجلی کا مسئلہ حل ہو گا تو ہی ملک میں خوشحالی آئے گی۔
تنخواہ دار طبقے کی بات کریں تو اس پہ ٹیکسوں کابوجھ بہت زیادہ ڈالا جا چکا‘ اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ کاروبار ی طبقہ دھڑلے سے ٹیکس چوری کر رہا‘ہونا تو یہ چاہیے کہ اس کا سدباب کیا جائے اور کاروبار کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے‘ آن لائن جو کاروبار ہو رہے ان کا بھی جائزہ لے کر ان پر ٹیکس لگایا جائے۔ ایک تنخواہ دار سے زیادہ ایک ٹک ٹاکر کما رہا ہے مگر وہ ٹیکس نیٹ میں نہیں۔ اسی طرح زراعت کے فروغ کیلئے بھی اقدامات ناگزیر ہیں۔ زراعت کی ترقی ہی معیشت کی ترقی ہے۔ نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ کے دوران اہم فصلوں کی پیداوار میں 11.14کمی ہوئی۔ یہ صورتحال حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے۔
حکومت کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ کفایت شعاری کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے حکومتی اخراجات کم کیے جا رہے اورٹیکس کولیکشن بہتر ہورہی ہے‘ مگر چیئرمین ایف بی آر نے جو اعلانات کیے‘ حقائق ان سے برعکس نکلے۔ اب ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ ایک طرف عوام قربانیاں دے رہے ہیں اور دوسری طرف آپ اربوں روپے کی گاڑیاں خرید رہے ہیں۔ کیا ان گاڑیوں کی خریداری سے ٹیکس کولیکشن میں اضافہ ہوگا؟ مالی سال کے نو ماہ میں 8452 ارب روپے ٹیکس جمع ہوا جو مقررہ ہدف 9168ارب سے 716 ارب روپے کم ہے۔ سیلز ٹیکس 2860 ارب روپے رہا‘ جو ہدف (3513 ارب) سے 653 ارب روپے کم ہے۔ کسٹمز ڈیوٹی 927 ارب روپے‘ جو ہدف سے 207 ارب روپے کم ہے۔ اسی طرح فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 537 ارب روپے جمع ہوئی‘ جو ہدف سے 143 ارب روپے کم ہے۔ دعوے کیا تھے اور اہداف کتنے حاصل ہوئے۔ یہ جولائی 2024ء سے مارچ 2025ء کے اعداد وشمار ہیں۔ ایف بی آر اپنی کارکردگی کو بہتر دکھانے کیلئے اعداد وشمار میں ابہام بھی پیدا کرتا ہے۔ جیسے ریفنڈز روک کر ٹیکس کولیکشن زیادہ دکھانا‘ اضافی ایڈوانس ٹیکس وصول کر کے موجودہ سال کی کارکردگی بڑھا چڑھا کر پیش کرنا‘ بڑی کمپنیوں کو دباؤ میں لاکر ادائیگیاں کروانا۔ یہ محض اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہے‘ جس سے معیشت کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ ٹیکس فائلرز کی تعداد سے متعلق بھی بیانات سامنے آتے رہے حالانکہ بعض رپورٹس کے مطابق یہ اضافہ زیادہ تر پچھلے سالوں کے فائلرز کو شمار کر کے دکھایا گیا۔ صرف نوٹس بھیجنے کو ''ٹیکس نیٹ‘‘ میں اضافے کا حصہ بنا لینا بھی مبالغہ کہلاتا ہے۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ فائلر کا مطلب صرف انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانا ہے۔ فائلرز اصل فعال ٹیکس دہندگان کی نمائندگی نہیں کرتے۔ اسی طرح ڈیجیٹل اصلاحات سے متعلق بھی دعوے کیے گئے کہ آٹو میشن اور آئی ٹی میں کمالات دکھائے جا رہے ہیں‘ مالیاتی نظام کو ڈیجیٹل بنایا جا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ سسٹم بار بار خراب ہو جاتا ہے‘ ٹیکس دہندگان اور ٹیکس وکلا کو اکثر سافٹ ویئر بگز اور اَپ ڈیٹ کی کمی کی شکایات رہتی ہیں۔
اشرافیہ اورحکمرانوں کے مفادات اور بیوروکریسی کے شاہانہ اخراجات کو کم کرنے کے بجائے غریبوں اور تنخواہ دار طبقہ پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانا سراسرنا انصافی ہے۔عوام اس صورتحال سے تنگ آ چکے ہیں۔ یہ بوجھ اندھا دھند عوام پر ڈالنے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ اگر عوام کو ریلیف کے بجائے دلاسے دیے جاتے رہے تو یہ لاوا پھٹ جائے گا۔ بہتر یہی ہے کہ حکومت اپنے شاہانہ اخراجات کو کم کر کے حقیقی معنوں میں عوام کو ریلیف دینے کیلئے اقدامات کرے‘ وگرنہ ہر گھر سے اختلافی نوٹ نکلے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں