اخراجات اور ٹیکسز کی بھرمار

وفاقی حکومت نئے مالی سال کا بجٹ بنانے میں مصروف ہے اور مباحثوں کا دائرہ کار سرکاری دفاتر سے لے کر بازاروں اور گھر گھر تک وسیع ہو چکا ہے۔ بجٹ میں ہونے والے فیصلوں سے ہر خاص وعام متاثر ہوتا ہے؛ چنانچہ اس پر ہر خاص وعام کی نظر ہوتی ہے۔ عوام کو امید ہوتی ہے کہ کچھ بہتری ہو گی مگر ہر بار ہی بجٹ الفاظ کا گورکھ دھندا ثابت ہوتا ہے۔ اب عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے۔ پچھلے سال کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے سے جتنا کچھ نچوڑا جاسکتا تھا حکومت اس کی آخری اس حد تک پہنچ گئی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس سال کس کی باری آتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف عین بجٹ کے موقع پر لندن چلے گئے ہیں تاکہ سوالات اٹھیں تو کہا جا سکے کہ میں تو باہر تھا‘ میرے پیچھے سے بجٹ بن گیا‘ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا گیا۔ (ن) لیگ کہتی ہے کہ ہر اچھے کام کے پیچھے نواز شریف کا فیصلہ ہے مگر نواز شریف کی ہدایت پر سرکاری اخراجات کم کیوں نہ ہو سکے؟ نواز شریف غریبوں پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے کی ہدایات کیوں نہ دے سکے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فٹ پاتھ پر بیٹھا شخص کیسے زندگی گزار رہا ہے‘ کیا اس پر کسی نے سوچا؟ حکومت کو اس معاملے کو سوچ سمجھ کر اخراجات کو کم کرنے کیلئے واضح پلان بنانا اور اس پر عملدرآمد یقینی بنانا چاہیے۔ دوسرا حکومت کو چاہیے کہ آئندہ بجٹ میں صرف ٹارگٹڈ سبسڈی دینا مناسب ہے۔ اس وقت یہ 715 ارب روپے ہے‘ اس سے بڑھا بھی سکتے ہیں‘ آئی ایم ایف کو بھی اس پر اعتراض نہ ہو گا۔ اس وقت جو 50 ہزار روپے سے اوپر کی آمدن پر ٹیکس لگا ہوا ہے اس کو بڑھا کر کم از کم 80 ہزار یا ایک لاکھ تک لے جائیں‘ یعنی چھ لاکھ روپے سالانہ آمدن پر ٹیکس ہے تو اس حد کو بڑھا کر 10 لاکھ روپے کر دیں۔ زیادہ تنخواہ لینے پر 10 فیصد سرچارج لگا ہوا ہے‘ اس کو بھی کم کرنا ہوگا ورنہ قابل لوگ بیرونِ ملک جانے لگیں گے۔ پہلے ہی برین ڈرین بہت ہے۔ اسی طرح مینوفیکچرنگ پر ٹیکس کم کر کے 25 فیصد ہونا چاہیے۔ اس وقت 29 فیصد ٹیکس لاگو ہے‘ اور اس پر 10 فیصد سپر ٹیکس اور پانچ سے چھ فیصد لیبر ویلفیئر فیس لگا کر 45 فیصد ٹیکس دیں گے تو انڈسٹری کیسے چلے گی؟ ہمیں دنیا کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اسی طرح وفاق نے صوبوں کو جو ادارے منتقل کر دیے ہوئے ہیں‘ اب وہ ادارے اور وزارتیں وفاق سے ختم کر دی جائیں۔ اس سال مئی تک 1050 ارب روپے کم ٹیکس اکٹھا کیا گیا ہے‘ یعنی 12ہزار 900 ارب روپے کا جو ٹارگٹ رکھا گیا تھا‘ اور نظر ثانی کے بعد جو 12 ہزار 300 کر دیا گیا تھا‘ وہ بھی پورانہیں ہو سکا۔ لگتا ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک تقریباً 11 ہزار 500 ارب روپے تک ٹیکس اکٹھا ہو سکتا ہے‘ یعنی اصل ہدف سے تقریباً 800 ارب روپے کا شارٹ فال ہوگا جبکہ سننے میں آ رہا ہے کہ اگلے مالی سال کے لیے 14 ہزار 200 ارب روپے کا ٹارگٹ دیا جا سکتا ہے‘ یعنی تقریباً 2500 ارب روپے زیادہ۔ اس میں کچھ ٹیکس سسٹم گروتھ سے آ جائے گا‘ کچھ تنخواہوں پہ ٹیکسوں سے آ جائے گا‘ چیزیں مہنگی ہوں گی‘ اکانومی بڑھے گی‘ تقریباً 12 فیصد یہاں سے اکٹھا ہو جائے گا۔ دوسرا‘ ٹیکسز کی مد میں رد وبدل کیا جائے گا یعنی کچھ پرچون فروشوں سے‘ کچھ عدالتی کیسوں سے آ جائیں گے‘ کچھ چیزوں پر جی ایس ٹی سبسڈی ختم ہو جائے گی ‘ سگریٹ پر ٹیکس بڑھے گا‘ پٹرول پر کاربن لیوی لگے گی۔ حکومت کی اب تک کی مشاورت سے یہی سامنے آیا ہے۔ ریلیف کے بارے میں تو کوئی چہ مگوئی تک نہیں۔ عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کو ن سا سیکٹر کتنے پیسے لے گا‘ ان کو تو عزت کی دو وقت کی روٹی مل جائے تو ان کیلئے بہت ہے ۔ حکومت ان مشکل حالات کو کیسے مینج کرتی ہے‘ سب کی نظر یں اس پر لگی ہوئی ہیں۔
اس میں دورائے نہیں کہ حکومتی اخراجات کو کم کرنے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے‘ مگر جنہوں نے یہ سب کرنا ہے ان میں آپسی اتحاد موجود ہے بھی کہ نہیں؟ کہنے کو یہ اتحادی حکومت ہے مگر ان کے نظریات تو ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ ابھی دو دن پہلے ضمنی الیکشن میں (ن) لیگ پر پیپلز پارٹی نے دھاندلی کا الزام لگایا ہے اور اب یہی دونوں جماعتیں مل کر بجٹ بھی پاس کریں گی۔ (ن) لیگ نجکاری اور حکومت کا سائز چھوٹا کرنے پر یقین رکھتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ زیادہ سے زیادہ روزگار ملنا چاہیے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے بھی (ن) لیگ کا ہاتھ ہمیشہ تنگ رہا جبکہ پیپلز پارٹی کو اس حوالے سے ملازم دوست سمجھا جاتا ہے۔ ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد اضافہ آصف علی زرداری کے دور میں ہوا تھا‘ جس کو ملازمین آج بھی یاد کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ دیکھنا ہے کہ اب پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ‘ جن کے مؤقف میں واضح تضاد ہے‘ ان حالات میں مل کر کیسا بجٹ لے کر آتے ہیں۔ عوام کو سستی بجلی اور دو سو یونٹ تک مفت بجلی کی باتیں کر کے دونوں جماعتوں نے اپنے آپ کو وعدوں کے گرداب میں پھنسا تو لیا مگر ابھی تک عوام کو خاطرخواہ ریلیف دینے میں ناکام ہیں۔ بجلی کی قیمتیں اتنی ہیں کہ لوگ ڈر کے مارے گھروں میں لگے اے اسی اور کولر تک چلانے سے قاصر ہیں۔ بجلی کے بلوں سے ڈرے ہوئے لوگ گرمی میں جھلس رہے ہیں تو حکومت کے بارے میں ان کی رائے کیسی ہو گی؟ اس کے باوجود حکومت بجلی پوری نہیں کر پا رہی اور جو فراہم کر رہی ہے وہ اتنہائی مہنگی ہے۔ جو لوگ اپنی مدد آپ کے تحت سولر اور متبادل ذرائع سے انتظام کر رہے ہیں ان کو بھی تنگ کیا جا رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ بجلی کی قیمتوں کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرے‘ سولر انرجی لگانے والوں کو ٹیکس کی چھوٹ دے‘ زیادہ سے زیادہ سولر انرجی کی طر ف لوگوں کو راغب کرے‘ بجلی کا مسئلہ حل ہو گیا تو ہماری پیداواری لاگت بھی کم ہو گی اور اس سے ہم دنیا میں سستی مصنوعات بیچ پائیں گے۔ کسانوں کو مفت بجلی دی جانی چاہیے‘ حکومت ان کو سولر ٹیوب ویل لگا کر دے‘ زرعی پیداوار کیلئے پوری دنیا کی مارکیٹس کھلی ہیں اور ہمارے پاس بہت پوٹینشل ہے مگر اس پر کام نہیں ہو رہا۔ یاد رہے کہ توانائی بنیاد ہے‘ باقی سارے کاروبار اس پر کھڑے ہیں۔ حکومت کو اس ون پوائنٹ ایجنڈا پر اس بجٹ میں کام کرنا چاہیے۔ آئی ایم ایف کو ہماری گروتھ سے کوئی سروکار نہیں‘ وہ چیزوں کو اپنے حساب سے دیکھے گا‘ ہمیں خود اس میں گنجائش پیدا کر کے گروتھ والے سیکٹرز کو ریلیف دینا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس سے فائدہ پہنچ سکے۔ اگر ارکانِ صوبائی اور قومی اسمبلی نے اپنی تنخواہوں میں بھرپوراضافہ کر لیا‘ وزرا نے اضافہ کر لیا تو عوام کو بھی راحت کا کوئی وسیلہ فراہم کیا جائے۔ فرد معاشرے کی اکائی ہے‘ اس کی فلاح ترجیح بنائیں‘ یوں ترقی کے معنی بھی سمجھ آئیں گے۔ ترقی غریب کی شکل اور لباس سے ماپی جائے نہ کہ اعداد وشمار کے گورکھ دھندے اور سٹاک ایکسچینج کے کھیل سے۔ یہ میڈیا کا دور ہے‘جو ہو رہا ہے سب کو خبر ہے۔ اب عوام اسی کا ساتھ دیں گے جو اُن کی بات کرے گا۔ یہ بجٹ صحیح معنوں میں حکومت کا امتحان ہے۔ مجھے اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف کا ایک بیان یاد آ رہا ہے کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ عوامی ہوگا۔ بجٹ صحیح معنوں میں عوامی ہونا چاہیے نہ کہ دیوانے کا خواب۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں