ایران ‘ اسرائیل تنازع اور پاکستان

اسرائیلی جارحیت جاری ہے اور ایران کی جانب سے بھی جوابی حملے کیے جار ہے ہیں۔ میزائل حملوں کے علاوہ انفارمیشن وار بھی جاری ہے۔ فیک نیوز کی منڈی دوبارہ سے سج گئی ہے۔ حملوں کے بارے غلط اعدادو شمار اور وڈیوز کی سوشل میڈیا پر بھرمار ہے۔ خواہش کو خبر بنانا اور اب تو ایک قدم آگے بڑھ کر جعلی وڈیو بنا کر شیئر کرنا معمول بنتا جا رہا ہے۔ کمیونیکیشن کے ماہرین کے لیے جنگیں اب نئے اُفق کھول رہی ہیں کہ جن پر مزید تحقیق کی جاسکتی ہے۔
ایران اور اسرائیل کی مخاصمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس میں مذہب‘ جغرافیہ‘ نظریات‘ دھڑے بندی‘ عالمی سیاست‘ علاقائی اثرو رسوخ اور سب کچھ شامل ہے۔ سرد جنگ دہائیوں پر مبنی ہوتو جب ماحول گرم ہو جائے اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔ اسرائیل کو امریکہ کی ہر طرح کی سپورٹ حاصل ہے یہ اب ایک کھلا راز ہے۔ امریکہ کھل کر اسرائیل کے ہر اقدام کی پشت پناہی کر تا ہے جس کی وجہ سے وہ دیدہ دلیری سے نہ صرف غزہ میں ظلم و بربریت کے ریکارڈ توڑ رہا ہے بلکہ اس نے ایران کی خودمختاری پر بھی حملہ کیا ہے۔ اگر جذبات کی عینک اتار کر صورتِ حال کا بغور جائزہ لیا جائے تو اسرائیل نے اب تک ایران کو جو مالی و جانی نقصان پہنچایا ہے وہ بہت زیاد ہ ہے۔ ایرانی آرمی کے اہم کمانڈرز کو شہید کرنے سے لے کر اہم ترین ایٹمی سائنس دانوں کو چن چن کر ٹارگٹ کیا گیا جس سے جنگ کے پہلے ہی راؤنڈ میں ایران کا نقصان بہت زیادہ ہو گیا۔ اگر ٹیکنالوجی‘ اسلحہ‘ صلاحیتوں اور عالمی سپورٹ کو دیکھا جائے تو ایران اور اسرائیل کا کوئی مقابلہ نہیں۔ ایرانی ایمان کے جذبے اور حمیت وغیرت کے پاسبان ضرور ہیں مگر اپنے لوگوں کی جانوں کے نقصان کے عوض یہ بہت مہنگا سودا ہے۔ جذباتیت کا سودا بیچنے والوں کو میری یہ دلیل شاید ناگوار گزرے گی مگر حقیقت یہی ہے کہ صرف نعرے‘ قومیت اور غیرت سے آپ جنگیں نہیں جیت سکتے۔ مدمقابل کے ساتھ اب ٹیکنالوجی میں برتری ثابت کرنا ہو گی۔ انٹیلی جنس میں برتری ثابت کرنا ہو گی‘ جو کہ اب تک ایران ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا جانی و مالی نقصان زیادہ ہو رہا ہے۔ نفسیاتی دباؤ یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ امریکہ کھل کر کھڑا ہے‘ اس حد تک کہ وہ اس کے لیے جنگ میں کود بھی سکتا ہے۔ دوسری جانب کوئی ایک بھی ملک اس سطح پر جا کر ایران کے ساتھ کھڑا نہیں ہے۔ بیانات‘ مذمتیں اور اخلاقیات کی باتیں ایرانیوں کی جانیں نہیں بچا سکتیں۔ کوئی ایک ملک بھی اتنا رِسک لینے کو تیار نہیں کہ وہ ایران کی کھلم کھلا سپورٹ کر کے اسرائیل اور امریکہ کو اپنا مخالف بنا لے۔ عرب دنیا بھی اس حوالے سے مکمل خاموش ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں پاکستان کیا کر سکتا ہے؟ پاکستان نے اصولی مؤقف سامنے رکھ دیا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج کو آئین کے مطابق ملکی خودمختاری اور سالمیت کے تحفظ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ پاکستانی مسلح افواج بیرونی تنازعات میں ریاست کی اجازت اور قانونی مینڈیٹ کے بغیر ملوث نہیں ہوتیں۔ ان کے تمام تر وسائل بشمول ہتھیار‘ میزائل اور عسکری آلات صرف اور صرف پاکستان کی سالمیت‘ خود مختاری اور قومی مفاد کے لیے ہیں۔ اسلامی شرعی قوانین کے مطابق جہاد کا اختیار صرف اور صرف ریاست کے پاس محفوظ ہے۔ کسی بھی ادارے‘ تنظیم یا فرد کو ہرگز اجازت نہیں کہ وہ جہاد کا اعلان کرے۔ ریاستِ پاکستان کی منظوری کے بغیر کیا جانے والا عمل جہاد نہیں بلکہ فساد ہے‘ جو اسلامی شریعت اور قانون کے مطابق حرام ہے۔ پاکستان کی افواج پیشہ ور‘ منظم اور آئینی افواج ہیں جو ریاست کے احکامات کے تابع رہ کر قومی مفادات کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دیتی ہیں۔
ایران اسرائیل تنازع میں بیرونی عناصر کی مداخلت خطے اور دنیا میں وسیع سطح پر پھیلاؤ‘ کشیدگی اور تصادم کا سبب بن سکتی ہے۔ پاکستان ہر حال میں سٹرٹیجک برداشت‘ ذمہ دارانہ طرزِ عمل اور کشیدگی میں کمی کے اصول پر کاربند ہے تاکہ علاقائی اور عالمی سطح پر عدم استحکام کو روکا جا سکے۔ پاکستان ہمیشہ خطے میں Net Regional Stabilizer کے طور پر اپنا کردار ادا کرتا ہے جبکہ بھارت خطے میں عدم استحکام کا باعث ہے۔ پاکستان نے ایران کے ساتھ ہمیشہ سفارتی‘ سیاسی اور اخلاقی یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر کسی بھی قسم کی جارحیت کی کھل کر مذمت کی ہے جس کا ایرانی قیادت اور عوام نے اعتراف بھی کیا ہے۔ پاکستان جذباتی نعروں سے ہٹ کر تدبر‘ بصیرت اور ذمہ دار ریاستی طرزِ حکمرانی کو مقدم رکھتا ہے۔ اس کی واضح مثال معرکۂ حق میں بھارتی اشتعال انگیزی اور جارحانہ اقدامات کے باوجود اس تنازع کے دوران پاکستان کی طرف سے کشیدگی پر کنٹرول اور عسکری واخلاقی برتری کا برقرار رکھنا ہے۔ ایران پر حملے کی مذمت دنیا بھر سے ہوئی۔ پاکستان کے وزیراعظم‘ صدر اور قومی اسمبلی‘ سینیٹ‘ چاروں صوبائی اسمبلیوں نے بھی مذمتی قراردادیں منظور کیں۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب عاصم افتخار نے سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں کھل کر اس حملے کی مذمت کی‘ مگر اس کے بعد کیا ہوا؟ ایران پر حملے تواتر سے جاری ہیں۔ قراردادیں کسی کو مارنے اور مرنے سے نہیں روک سکتیں۔
ایران پاکستان کا ایک قریبی ہمسایہ ملک ہے۔ ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات قیام پاکستان کے فوری بعد قائم ہو گئے تھے اور ہمیشہ ایران پاکستان کے حق میں رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ جب حالیہ دنوں میں کشیدگی ہوئی تو ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان اور بھارت کا دورہ کیا اور جنگ بندی کے لیے کوششیں کیں۔ اس کے علاوہ ایران کے ساتھ ہمارا ایک ثقافتی اور تہذیبی رشتہ بھی ہے۔ پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال کی جتنی عزت پاکستان میں ہے‘ اتنی ہی ایران میں بھی ہے۔ علامہ اقبال کا فارسی کلام ایران میں ہر گھر میں مل جاتا ہے۔ یہ سارے تعلقات اپنی جگہ اور ان کے بدلے پاکستان ایران کی جس سطح کی حمایت کر سکتا ہے وہ کر رہا ہے۔ایران نے اس پر پاکستان کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ مگر اس کے باوجود ایران پر حملے جاری ہیں۔ ان کا نقصان ہورہا ہے اور اس نقصان کو ایک ہی صورت میں روکا جاسکتا ہے اور وہ ہیں مذاکرات۔ ایران نے اسرائیل پر جوابی حملے کر کے غیرت‘ حمیت اور بہادری کا ثبوت دیا ہے‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے دفاعی نظام کی کمزوریاں بھی کھل کر سامنے آئی ہیں۔ اب ڈپلومیسی کا وقت ہے۔ علاقائی کھلاڑیوں کے ذریعے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر کوئی راہ نکالی جائے۔ جنگ طوالت پکڑ گئی اور اگر امریکہ بھی اس کا حصہ بن گیا تو ایران کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ ہمیں چیزوں کو اس جانب لے جانے سے بہر صورت روکنا ہے۔ بہرحال ایران میں زور زبردستی اور جنگ کے بعد لائی گئی کوئی حکومتی تبدیلی پاکستان کے لیے نیک شگون نہیں ہوگی‘ لہٰذا فوری جنگ بندی وقت کی ضرورت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں