ذوالفقار علی بھٹو کی یہ بات کہ ''مجھے تاریخ میں زندہ رہنا ہے‘‘ محض ایک سیاسی دعویٰ نہیں بلکہ ایک فکری اظہار تھا۔ یہ اس سیاسی رہنما کی سوچ کا عکاس تھا جو جانتا تھا کہ تاریخ صرف واقعات کا مجموعہ نہیں بلکہ فیصلوں کا حساب بھی رکھتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے بے شمار موڑ آئے جہاں افراد نے وقتی مصلحتوں کو اصولوں پر ترجیح دی‘ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہی فیصلے قومی ضمیر پر بوجھ بن گئے۔
سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان‘ جو ہمیشہ دھیمے لہجے اور متوازن سیاسی گفتار کیلئے جانے جاتے ہیں‘ آج ایک بالکل مختلف زاویے سے سامنے آئے ہیں۔ ان کی حالیہ رولنگ محض ایک آئینی رائے نہیں بلکہ نظریۂ ضرورت کے خلاف کھلا چیلنج ہے۔ یہ وہی نظریہ ہے جس کے سہارے کئی آمر آئے‘ عدلیہ نے وقت کے تقاضوں کے نام پر آئینی موشگافیوں کو جواز فراہم کیا اور عوام کی رائے کو بارہا پسِ پشت ڈالا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نظریۂ ضرورت‘ جس کا سہارا ماضی میں پاکستان تحریک انصاف نے بھی لیا‘ اب خود ان کیلئے دردِ سر بنتا جا رہا ہے۔ اگر وہ آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہیں تو انہیں ان ججوں اور فیصلوں سے لاتعلقی اختیار کرنا پڑے گی جنہوں نے اسی نظریے کو تقویت دی۔ اگر وہ سمجھوتے کی سیاست کی طرف آتے ہیں تو یہ ان کے سیاسی مؤقف کی نفی ہو گی۔ گویا نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔
سپیکر پنجاب اسمبلی کا مؤقف صرف سیاسی تناؤ کی نشاندہی نہیں کرتا بلکہ ایک فکری مؤقف بھی معلوم ہوتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 آمرانہ دور کی باقیات ہیں‘ اس سوچ پر ضرب ہے جو ان دفعات کو اخلاقی تطہیر کے اوزار کے طور پر پیش کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دفعات کو ماضی میں سیاسی انتقام اور مخالفین کو دیوار سے لگانے کیلئے استعمال کیا گیا۔ نواز شریف کی نااہلی انہی دفعات کا نتیجہ ہے۔ مجھے کچھ اور بھی فیصلے اور ریمارکس یاد آ رہے ہیں‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پاناما کیس کا فیصلہ دیا جس میں سپیکر کو اختیار دیا گیا تھا کہ اگر سپیکر کے پاس ایم این اے درخواست لیکر آئیں تو خاموش تماشائی نہ رہے بلکہ 30 روز میں فیصلہ کرنا چاہیے‘ اگر فیصلہ نہ کر سکے تو الیکشن کمیشن کے پاس ریفر کرنا چاہیے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ دیا تھا کہ ووٹ شمار نہیں ہوں گے اور ممبر ڈی سیٹ بھی ہوں گے اور سپیکر کو اختیار دیا گیا تھا کہ ان کو ڈی سیٹ کر سکتا ہے۔ مجھے تو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے وہ جملے بھی یاد آ رہے ہیں کہ جب وہ شیخ رشید کے حلقے میں جاکر کہہ رہے تھے کہ چار پانچ تو میں خود ڈِس کوالیفائی کر سکتا ہوں۔ یہ جملے انتہائی اہم تھے اور ہیں۔ کیا یہ سب نظریۂ ضرورت تھا یا واقعی آئین پاکستان پر عملددآمد؟ یہ تو ایک الگ سوال ہے مگر اب جو ہو رہا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ سپیکر پنجاب اسمبلی سے ملاقات ہوئی تو ایسی ہی کچھ مثالیں انہوں نے بھی دے ڈالیں۔ ویسے کمالات دیکھیں کہ جن فیصلوں کی پہلے مسلم لیگ (ن) مخالفت کرتی رہی اب اُنہی فیصلوں کو بنیاد بنا کر سپیکر ملک احمد خان اپوزیشن کے خلاف اقدامات کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ یعنی ہر جگہ نظریۂ ضرورت ہی چلے گا‘ آئین پاکستان نہیں۔
سپیکر کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعظم کو اسمبلی کو گمراہ کرنے کے الزام میں ہٹایا جا سکتا ہے تو ہنگامہ آرائی‘ انتشار اور پُرتشدد رویوں کے مرتکب ارکان کو بھی اسی طرح سزا دی جانی چاہیے۔ اس میں ایک واضح پیغام چھپا ہے کہ آئین کو اگر جزوی یا انتخابی طور پر استعمال کیا جائے گا تو اس کی حرمت اور ساکھ متاثر ہو گی۔ اسی سلسلے میں سپیکر نے آرٹیکل (2) 63 کے استعمال کا عندیہ بھی دیا ہے‘ جس کے تحت وہ ایسے ارکان کو معطل یا نااہل کر سکتے ہیں جنہوں نے اسمبلی کے وقار کو مجروح کیا۔
یہ پہلی بار نہیں کہ سپیکر کے منصب پر بیٹھے فرد نے اراکینِ اسمبلی کے خلاف ریفرنس بھیجا ہو۔ ماضی میں بھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب سپیکر کے فیصلے نے سیاسی منظر نامے پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ 2011ء میں جب یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہینِ عدالت کا فیصلہ آیا تو سپیکر قومی اسمبلی نے ریفرنس مسترد کر کے ایک آئینی تشریح دی‘ جسے بعد ازاں سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا۔ 2022ء میں قاسم سوری کے استعفوں سے متعلق اقدامات بھی ایک آئینی بحران کا پیش خیمہ بنے۔ یہ سب مثالیں بتاتی ہیں کہ سپیکر کا عہدہ صرف ایک علامتی منصب نہیں بلکہ سیاسی وآئینی حوالوں سے وزن دار کردار رکھتا ہے۔
آج کی صورتِ حال میں سوال یہ نہیں کہ کس نے کیا کہا بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ آئندہ کیا ہو گا؟ نظریۂ ضرورت کو دفن کرنے کا نعرہ ہر سیاسی جماعت نے کسی نہ کسی وقت لگایا ہے لیکن جب اقتدار قریب آتا ہے تو اکثر وہی نظریہ پھر زندہ ہو جاتا ہے۔ آئین اور قانون کی بالادستی کی بات کرنے والے خود اسی قانون کے سقم کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہی وہ تضاد ہے جو پاکستان کے جمہوری سفر کو مسلسل دھندلکوں میں رکھتا ہے۔ سپیکر کا مؤقف اس لحاظ سے منفرد ہے کہ وہ اصولی طور پر ان دفعات کی مخالفت کر رہے ہیں جن سے فی الوقت وہ سیاسی فائدہ بھی اٹھا سکتے تھے لیکن اگر وہ واقعی ان اصولوں پر قائم رہے اور اسمبلی کے تقدس کو ہر سیاسی مفاد سے بالاتر رکھا تو شاید وہ تاریخ میں بھی زندہ رہیں۔ اسی تاریخ میں‘ جس کیلئے بھٹو نے کہا تھا کہ وہ کبھی معاف نہیں کرتی۔
آئین پاکستان کا آرٹیکل (2)63 کہتا ہے :اگر یہ سوال پیدا ہو کہ مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) کا کوئی رکن رکنیت سے نااہل ہو گیا ہے یا نہیں تو سپیکر یا حسبِ صورت چیئرمین‘ جب تک وہ یہ فیصلہ نہ کر لے کہ ایسا کوئی سوال پیدا نہیں ہوا‘ اس سوال کو تیس دن کے اندر الیکشن کمیشن کو بھیجے گا۔ اور اگر وہ مذکورہ مدت کے اندر ایسا کرنے میں ناکام رہے تو یہ تصور کیا جائے گا کہ سوال الیکشن کمیشن کو بھیج دیا گیا ہے)۔ میری خبر کے مطابق ابھی تک سپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے باقاعدہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو نہیں بھیجا گیا‘ سپیکر پنجاب اسمبلی نے اپوزیشن کیلئے ایک راستہ ضرور نکالا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ بیٹھ جائیں اور طے کریں کہ اب اسمبلی میں گالم گلوچ کا ماحول نہیں ہوگا‘ پھر یہ معاملہ یہاں ہی کلیئر ہو سکتا ہے۔ ملک احمد خان کی وزیراعلیٰ سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے کہا کہ کوئی حکومتی ممبر بھی ایسی غلطی کرے گا تو اس کے خلاف بھی یہی ایکشن ہو گا۔ سپیکر پنجاب اسمبلی اپوزیشن کے ساتھ ڈیڑھ سال تک کھڑے رہے ان کو بولنے کا مکمل حق دیا گیا‘ چھ ماہ تک ایک بھی مقدمہ نہیں ہونے دیا گیا مگر اس کے باوجود اپوزیشن کی جانب سے گالم گلوچ ایوان کے اندر نازیبا حرکت ہے‘ مگر کیا یہ پہلی بار ہوا؟ نہیں! پہلے اس سے بھی زیادہ خطرناک ایوانوں کے اندر ہوتا رہا‘ گالم گلوچ تو دور کی بات ہاتھا پائی‘ مارکٹائی بھی ہوتی رہی‘ اس سے کہیں زیادہ بھی ہوا مگر جو سپیکر پنجاب اسمبلی نے ایکشن لیا وہ انتہائی سخت ہے‘ اس پر اپوزیشن جماعتوں سمیت آزادنہ حلقوں کے بھی شدید تحفظات ہیں۔ اب کیا ہو سکتا ہے؟ سپیکر 10جولائی کو برطانیہ جا رہے ہیں ‘ حکومتی اور اپوزیشن اراکین مل بیٹھ کر معاملہ سلجھائیں اور سپیکر کی واپسی پر ان کو آگاہ کر دیں کہ اب معاملہ ٹھیک چلے گا تویہ معاملہ یہاں ہی حل ہو جائے گا ۔ مجھے لگ یہی رہا ہے کہ معاملہ یہاں ہی سیٹل ہو جائے گا‘ مزید آگے نہیں بڑھے گا۔ ہاں اگر معاملہ یہاں حل نہ ہوا تو پھر 30 روز تک سپیکر صاحب کوئی نہ کوئی فیصلہ ضرور کریں گے اور پھر معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جا سکتا ہے اور اپوزیشن کیلئے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ بہتر یہی ہے کہ متعلقہ فریق اس معاملے کو یہیں ختم کریں۔