ملکی معیشت گویا ایک بے لگام رتھ ہے جسے ہر دورِ حکومت میں نئے کوچوان کے سپرد کیا گیا مگر نہ سمت طے ہوئی نہ رفتاراور نہ ہی منزل کا پتا چلا۔ کبھی ہم ترقی کا ڈھول بجاتے رہے تو کبھی زوال کی زنجیروں میں جکڑے سسکتے رہے۔ ہمارے مالیاتی نظام میں تسلسل کی کمی‘ پالیسیوں کی غیر یقینی تھی اور ذاتی مفادات پر مبنی فیصلوں نے معیشت کو تجربہ گاہ میں بدل دیا۔ ایسے میں اگر دو کرداروں کا تذکرہ کیا جائے‘ جنہوں نے حالیہ برسوں میں معیشت کو سنوارنے کی کوشش کی تو وہ اسحق ڈار اور مفتاح اسماعیل ہیں۔ ان دونوں کی حکمت عملی‘ نظریہ اور طرزِ عمل ایک دوسرے سے مختلف رہامگر دونوں نے پاکستان کے معاشی منظرنامے پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
اسحق ڈار کو معاشی استحکام کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ 2013 ء میں جب وہ وزیر خزانہ بنے تو ملک توانائی بحران‘ دہشت گردی اور زرِمبادلہ کی قلت جیسے مسائل سے دوچار تھا۔ اسحق ڈار کے اقدامات نے وقتی طور پر ایک مثبت تاثر قائم کیا‘مہنگائی 9.7 فیصد سے کم ہو کر 2.5 فیصد پر آ گئی‘ زرمبادلہ کے ذخائر جو صرف 6 ارب ڈالر تھے‘ 23 ارب ڈالر تک جا پہنچے‘ جی ڈی پی کی شرح نمو 3.7 فیصد سے 5.5 فیصد تک پہنچ گئی اور سٹاک مارکیٹ 19 ہزار سے 50 ہزار تک جا پہنچی۔ اس دوران انفراسٹرکچر کے کئی منصوبے بھی شروع کیے گئے اورترقیاتی پروگراموں میں تاریخی اضافہ کیا گیا۔تاہم یہ سارا استحکام ایک ایسی بنیاد پر استوار تھا جو مصنوعی تھی۔ روپے کی قدر کو غیر فطری طور پر مستحکم رکھا گیا تھا‘ جس سے برآمدات کو شدید دھچکا لگا۔ 2013ء میں برآمدات 25ارب ڈالر تھیں جو 2017ء میں21 ارب ڈالر رہ گئیں۔ درآمدات بڑھ گئیں‘ تجارتی خسارہ بڑھا اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 6.1 فیصد تک پہنچ گیا۔ اسحق ڈار کے ناقدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے معیشت کو ایک ''فگر گیم‘‘ میں بدل دیا‘ جہاں ظاہری اعداد و شمار کو بہتر بنا کر حقیقت کو چھپایا گیا۔ روپے کی مصنوعی قدر نے برآمد کنندگان کی کمر توڑ دی اور درآمدات نے مقامی صنعت کو دباؤ میں ڈال دیا۔
اس کے مقابلے میں مفتاح اسماعیل بالکل مختلف طرزِ فکر کے ساتھ سامنے آئے۔ 2022 ء میں جب ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا مفتاح نے وزارتِ خزانہ سنبھالی تو روپے کو مصنوعی کنٹرول سے آزاد کیا‘ پٹرول اور ڈیزل پر سبسڈی ختم کی‘ بجلی و گیس کے نرخ بڑھائے اور آئی ایم ایف کے ساتھ تعطل کا شکار معاہدہ بحال کیا۔ ان اقدامات نے وقتی طور پر عوام کو مشکلات میں مبتلا کیا مگر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا۔مفتاح کے دور میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف سات ہزار ارب روپے مقرر کیا گیا جو ایک بڑا قدم تھا کیونکہ اس کی بنیاد ڈائریکٹ ٹیکسیشن پر رکھی گئی تھی۔ برآمدات میں بہتری دیکھی گئی‘ جو 23 ارب سے بڑھ کر 27 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ ان کا انداز زیادہ پیشہ ورانہ تھا اور وہ بیوروکریسی اور سیاست سے الگ تھلگ ہو کر فیصلے کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن اندرونی سیاسی مخالفت ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی۔ پارٹی کے اندر اسحق ڈار کی واپسی کی لابی نے ان کے اقدامات کو کمزور کیا اور انہیں ایک ایسے وقت میں سبکدوش ہونا پڑا جب معیشت کو تسلسل کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمیں کیسا وزیر خزانہ درکار ہے؟ وہ جو وقتی طور پر اعداد و شمار سنوار کر بین الاقوامی اداروں کو مطمئن کرے یا وہ جو سخت فیصلے کر کے معیشت کی بنیاد مضبوط کرے؟ ایک طرف ڈار صاحب کی پالیسی ہے جو عوام کو وقتی ریلیف دیتی ہے‘ روپے کو مصنوعی طاقت دیتی ہے لیکن نتیجتاً برآمدات‘ زرمبادلہ اور مقامی صنعتوں کو تباہ کردیتی ہے۔ دوسری طرف مفتاح اسماعیل ہیں جو عوام کو کڑوی گولی کھلاتے ہیں لیکن ملک کو خود مختاری کی طرف لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کی معاشی تاریخ میں بہترین وزیر خزانہ کا انتخاب ہمیشہ سے ایک پیچیدہ سوال رہا ہے۔ کچھ لوگ حفیظ شیخ کو بحران کا بہترین منیجر سمجھتے ہیں جو پی ٹی آئی دور میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات اور مالی نظم و ضبط میں کامیاب رہے۔ کچھ معاشی تجزیہ کار مفتاح اسماعیل کو ترجیح دیتے ہیں کہ انہوں نے نازک وقت میں دیوالیہ پن کے خطرے کو ٹالا۔ ڈار صاحب کو عالمی اداروں نے South Asia's Best Finance Minister جیسے اعزازات سے نوازا لیکن ان کے فیصلوں کا بوجھ ہمیشہ بعد میں آنے والی حکومتوں کو اٹھانا پڑا۔
اصلاحات کی بات کی جائے تو پاکستان کو چند بنیادی تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا ہوگی۔ ملک میں صرف دو فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں‘ جن میں اکثریت تنخواہ دار طبقے کی ہے۔ طاقتور طبقے ٹیکس سے بچ نکلتے ہیں‘ اور نظام صرف کمزور کیلئے سخت ہے‘بلکہ اب تو ایف بی آر ان افراد کو زیادہ تنگ کررہا ہے جو پہلے ہی ٹیکس دے رہے ہیں۔اس لیے کارروباری شخصیات انتہائی پریشان ہیں کیونکہ ایف بی آر کی جانب سے کہا گیا کہ جو ٹیکس نہیں دے گا اسے ہتھکڑی لگائی جائے گی۔ کیا ایسے ٹیکس اکٹھاہوتا ہے؟ ایف بی آر کے ایک سینئر افسرسے ملاقات ہوئی جو کہہ رہے تھے کہ بس ہمیں ایک ہی حکم ملا ہے کہ ٹارگٹ پورا کرنا ہے جیسے مرضی کریں‘ اب بتائیں ایسے زبردستی کسی سے ٹیکس لیا جا سکتا ہے؟ ایک معروف کارروباری شخصیت کہنے لگی: ہم تو پاکستان میں صرف ٹیکس یا رشوت دینے ہی آتے ہیں۔ ان سے پوچھا کہ ہمارے حکمرا ن تو کہہ رہے ہیں کہ کوئی رشوت نہیں‘ سب کام میرٹ پر ہو رہے ہیں‘ کہنے لگے: جی اب ریٹ بڑھ چکا ہے‘ بس اتنا فرق ہے۔ سب ہو رہا ہے مگر ڈبل ریٹ کے ساتھ۔ ایف بی آر کی کوئی پالیسی نہیں بلکہ اطلاع تو یہ بھی ہے کہ ہتھکڑی والے معاملے پر طرم خان افسران اور حکمرانوں کو سخت ڈانٹ بھی پڑی ہے اور پھر وہ خاموش تماشائی بن گئے‘ ایک تو بیچارے صاحب نے تبادلے کی درخواست بھی کردی کیونکہ ان کی کارستانیوں کا سب کو پتا چل گیا کہ وہ باتیں زیادہ اور کام کم کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا تبادلہ کردیا جائے مگر اس وقت تین بڑے عہدوں سے متعلق تبادلوں کے معاملات زیر غور ہیں۔ ایک مسئلہ تو ہوا کہ ایف بی آر کے مسائل‘ ٹیکس سے متعلق یکطرفہ پالیسی‘اب دوسرا بڑا مسئلہ سرکاری اداروں کا ہے۔ پی آئی اے‘ سٹیل ملز اورڈسکوز جیسے ادارے ہر سال خزانے پر اربوں روپے کا بوجھ ڈالتے ہیں۔ اگر یہ ادارے اصلاحات یا نجکاری کے بغیر چلتے رہے تو مالی خسارہ کبھی کم نہیں ہوسکتا۔ زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے مگر یہ ریڑھ اب کمزور ہو چکی ہے۔ ہمیں جدید زرعی تحقیق‘ مشینی کاشت‘ پانی کے محفوظ استعمال اور فوڈ پروسیسنگ پر توجہ دینا ہوگی۔ اسی طرح ہمیں اپنی برآمدات کو وسعت دینا ہوگی۔ صرف ٹیکسٹائل پرانحصار خطرناک ہے‘ آئی ٹی‘ فارما‘ زراعت‘ اور خدمات کا شعبہ بھی برآمدی معیشت کا حصہ بننا چاہیے۔ روپے کی قدر کو مارکیٹ کے مطابق چھوڑنا ہوگاتاکہ برآمد کنندگان کو مقابلے کی فضا میسر آئے اور درآمدات میں اعتدال آ سکے۔
یہ سب اصلاحات کاغذوں میں موجود ہیں‘ ان پر کئی رپورٹس بن چکی ہیں مگر عملدرآمد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی نیت کی کمی ہے۔ ہر حکومت اپنی سیاسی بقا کو معیشت سے زیادہ اہم سمجھتی ہے۔ جب تک ہم یہ طے نہیں کر لیتے کہ معاشی پالیسیوں میں تسلسل‘ شفافیت اور حقیقت پسندی ضروری ہے تب تک ہر وزیر خزانہ محض وقتی ریلیف کا ماہر رہے گا‘ اصلاحات کا معمار نہیں۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ مصنوعی اعدادوشمار سے خوش رہناہے یا دیرپا معاشی استحکام کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ ہمیں ایسے وزرائے خزانہ کی ضرورت ہے جو صرف بجٹ پیش نہ کریں بلکہ نظام کو بہتر بنانے کی ہمت اور صلاحیت رکھتے ہوں‘ کیونکہ معیشت صرف نمبروں کا کھیل نہیں ہوتی ‘ یہ قومی کردار‘ اجتماعی نیت اور ادارہ جاتی نظم کا عکس ہوتی ہے۔