جب گنتی کا ہندسہ بم بن جائے

اسلام آباد کے ایوانوں میں وہ صبح عام نہیں تھی جب کمیٹی روم کی کرسیوں پر سیاست‘ معیشت‘ مذہب‘ اعداد و شمار اور عالمی اداروں کی آنکھیں ایک دوسرے کو لاجواب ہوکر دیکھ رہی تھیں۔ فائلوں کے پلندے‘ خوبصورت پروجیکشن سلائیڈز اور ہر چہرے پر ایک ہی سوال لکھا تھا کیا ہم اس دھرتی کے بوجھ تلے دبنے والے ہیں؟ ہر کرسی پر بیٹھا شخص جانتا تھا کہ آج کی گفتگو محض ایک موضوع نہیں بلکہ ایک ایسے مسئلے پر ہے جو آنے والے 25 برسوں میں پاکستان کے نصیب کا فیصلہ کرے گا۔دیوار پر پروجیکٹر کی روشنی میں ایک عدد چمک رہا تھا 396 ملین (39کروڑ 60لاکھ )۔یہ 2050 ء میں پاکستان کی متوقع آبادی تھی۔ وزیر منصوبہ بندی‘ ترقی و خصوصی اقدامات احسن اقبال نے انہی پرانے الفاظ کا چنائو کیا کہ یہ صرف ایک ہندسہ نہیں یہ ہماری معیشت‘ تعلیم‘ پانی‘ روٹی‘ روزگار سب نگل جائے گا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب کمرے کی خاموشی میں اعدادوشمار بھی چیخنے لگے۔ کسی نے کہاکہ 80 فیصد این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم آبادی پر ہے تو صوبوں کوکیا ضرورت ہے کہ شرح پیدائش کم کریں؟ یہ تلخ حقیقت ہے۔ اگر ایک نظر ماضی پر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ کبھی ہم تین کروڑ کے قریب تھے‘ جو نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد ایک نوآزاد مملکت کیلئے خوشیوں‘ امیدوں اور خوابوں کا دور تھا۔ 1951ء کی پہلی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی تین کروڑ 38 لاکھ تھی۔ اُس وقت ملک میں تعمیری جذبہ‘ ترقی کے خواب اور ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا وقت اور وسائل دستیاب تھے‘ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ہماری آبادی نے وہ رفتار پکڑی جو ہمارے وسائل اور نظام کے لیے بوجھ بن گئی۔ 2023ء کی ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 24 کروڑ 10 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے‘ یعنی سات دہائیوں میں تقریباً سات گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اگر یہی رفتار رہی تو 2050ء تک یہ تعداد 39کروڑ 60 لاکھ تک پہنچ جائے گی‘ جو صرف ایک عدد نہیں‘ ملک عزیز کیلئے ایک الارم ہے۔ 1951ء میں جب پاکستان کی پہلی مردم شماری ہوئی تو آبادی کے بڑھنے کا رجحان زیادہ واضح نہیں تھا۔ اُس وقت کے حکمرانوں کیلئے سب سے بڑا چیلنج بنیادی ڈھانچے کی تعمیر‘ معیشت کو مستحکم کرنا اور تعلیم و صحت کے شعبے کو سنوارنا تھا‘ مگر آبادی میں تیزی سے اضافے نے ان کوششوں کو پیچیدہ بنا دیا۔ سات دہائیوں میں سات گنا اضافہ کسی ملک کیلئے آسان نہیں ہوتا‘ خاص طور پر جب وسائل محدود ہوں۔ آج کے دور میں ہم نہ صرف زیادہ تعداد میں ہیں بلکہ نوجوانوں کی تعداد بھی بڑھ چکی ہے جس کا مطلب ہے روزگار‘ تعلیم‘ صحت اور رہائش کی بڑھتی ہوئی ضرورت۔ 40فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں‘ 26ملین بچے سکول سے باہر ہیں اور خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت صرف 20 فیصد ہے۔ ایسے حالات میں تیز رفتار آبادی میں اضافے کو سنبھالنا ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔پاکستان میں آبادی کی بنیاد پر این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم ہوتی ہے‘ جس میں 80 فیصد وسائل کی تقسیم آبادی کے حساب سے کی جاتی ہے۔ اس فارمولے نے صوبوں کو زیادہ آبادی رکھنے کی ترغیب دی ہے‘ جس کی وجہ سے شرحِ پیدائش کم کرنے کی کوششیں محدود رہتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سیاسی مفادات اور مالی ترغیبات نے آبادی کی بڑھوتری کو قابو میں لانے کی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
2023 ء کی مردم شماری میں کئی علاقوں میں آبادی کے اعداد وشمار کو بڑھانے کیلئے سیاسی دباؤ بھی دیکھا گیا تاکہ زیادہ فنڈز حاصل کیے جا سکیں۔ یہ رویہ قومی مفاد کے منافی ہے اور ملک کی پائیدار ترقی کیلئے خطرہ۔ اگر ہم نے فوری اقدامات نہ کیے تو 2050ء تک چھ کروڑ 50 لاکھ نئی نوکریاں پیدا کرنا ہوں گی‘ 60 ہزار نئے پرائمری سکول بنانا ہوں گے اور صحت‘ تعلیم‘ خوراک اور انفراسٹرکچر پر اربوں ڈالر کے اضافی اخراجات برداشت کرنا ہوں گے۔
اجلاس میں صوبہ سندھ کے نمائندے نے ہمیشہ کی طرح فنڈز میں اضافے کا مطالبہ کیا تاکہ مقامی سطح پر شرح پیدائش کم کرنے کے منصوبے چلائے جا سکیں مگر ان کے پاس کوئی پلان نہ تھا۔ سندھ کے نمائندے کے بعد خیبر پختونخوا کی سیکرٹری پاپولیشن نے بنگلہ دیش کی طرز پر علما کوکنٹریکٹ پر بھرتی کرنے اور مساجد سے فیملی پلاننگ کا پیغام دینے کی تجویز دی۔اجلاس میں سب سے اہم یہ تھا کہ یو این ایف پی اے کے نمائندے نے کہاکہ اداروں کو طاقت دو‘ قیادت کو مستقل کرو‘ اور شرمندہ ہوئے بغیر فیملی پلاننگ کی بات کرو۔ یونیسف کی نمائندہ نے کہا کہ یہ لمحہ فیصلہ کن موڑ بن سکتا ہے اگر ہم انتظامی اصلاحات لے آئیں۔ خیر نمائندوں کے خیالات انتہائی اہم تھے اس پر مزید بات کرنے کے بجائے احسن اقبال نے کہاکہ قومی ایمرجنسی نافذ کرنا ہو گی‘ مذہبی قیادت کو شامل کر کے پیغام دیا جائے گا کہ یہ صرف مانع حمل اشیا کا مسئلہ نہیں‘ یہ ماں اور بچے کی زندگی کا سوال ہے۔ آگاہی مہم پر زیادہ فوکس کرنا ہو گا‘ لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام کی بحالی اور صوبائی منصوبوں کو وفاقی فنڈنگ سے جوڑنا ہوگا۔ فیصلے تو ہو گئے لیکن یہ سوال اپنی جگہ باقی رہا کہ ہم اس عزم کو فائلوں میں دفن کر دیں گے یا واقعی آبادی پر قابو کی سنجیدہ کوشش کریں گے؟
حکمرانوں اور بیوروکریٹس کو کون بتائے کہ دنیا اس معاملے کو انتہائی سنجیدہ لے کر فیصلے کررہی ہے اور لانگ ٹرم پالیسیاں بنا کر عمل پیرا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے تعلیم اور خاص طور پر خواتین کی تعلیم کو ترجیح دی۔ جاپان‘ جنوبی کوریا‘ فرانس‘ جرمنی جیسے ممالک میں خواتین کی تعلیم اور معاشی شمولیت کو بڑھایا گیا۔عالمی تحقیق بتاتی ہے کہ ہر اضافی تعلیمی سال خواتین کی شرحِ پیدائش کم کرتا ہے۔ مثال کے طورپر ایران نے 1980ء سے 2000ء کے درمیان خواتین کی تعلیم اور ہیلتھ سروسز میں سرمایہ کاری کی اور شرحِ پیدائش 6.5 سے کم ہو کر 2.0 تک آ گئی۔ فیملی پلاننگ سروسز کی آسان دستیابی پر کام کرنا ہوگا‘ سویڈن‘ ناروے‘ کینیڈا میں مانع حمل ادویات اور آلات مفت یا سبسڈی پر دستیاب ہیں۔ برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروس کے ذریعے ہر شہری کو مفت فیملی پلاننگ سہولت ملتی ہے۔ ان ممالک میں خوف‘ شرمندگی یا سماجی دباؤ کو کم کرنے کے لیے کھلے عام آگاہی مہمات چلائی جاتی ہیں۔ سنگاپور اور ہانگ کانگ جیسے ممالک نے پالیسی بدل کر معاشی ترغیبات دیں۔ ٹھوس مہم پر فوکس کرنا ہوگا جیسے جنوبی کوریا میں 70ء کی دہائی میں ہر گاؤں میں فیملی پلاننگ مراکز قائم ہوئے اور مقامی سطح کے لیڈرز کو اس کا چہرہ بنایا گیا۔ ہمیں تمام مکاتب فکر کو ایک پیج پر لاکر اس پر لانگ ٹرم پالیسی بنانا ہوگی اور سب کو اس پر عمل کرنا ہوگا۔ تاریخی حقائق‘ موجودہ اعداد و شمار‘ اور عالمی تجربات اس بات کا واضح اشارہ کرتے ہیں کہ تعلیم‘ خاص طور پر خواتین کی تعلیم‘ معاشی شمولیت اور مؤثر فیملی پلاننگ ہی وہ راستہ ہے جس پر عمل کر کے پاکستان اپنے عوام کیلئے بہتر مستقبل کی ضمانت دے سکتا ہے۔اگر ہم نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا اور پالیسی بنانے اور عمل درآمد میں تاخیر کی تو پاکستان کے نقشے پر پانی سے خالی دریا‘ سکولوں سے باہر بچے‘ بے روزگاری کے طوفان اور غذائی قلت کا مسئلہ سنگین ہو جائے گا۔ تب آبادی صرف ایک ہندسہ نہیں بلکہ ایک ایسا بم ہوگی جو ملک کے مستقبل کو تباہ کر دے گااور ہم تاریخ کے ان صفحات میں پھنس کر رہ جائیں گے جہاں صرف اعداد و شمار نہیں‘ بلکہ انسانیت کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں