خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں کلاؤڈ برسٹ نے قیامت ڈھا دی۔ لمحوں میں کھیت اجڑ گئے‘ مکانات منہدم ہو گئے‘ ملک میں سیلاب‘ بارشوں اور کلائوڈ برسٹ کے باعث 670 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ عورتوں کی آہیں اور مردوں کی فریادیں ایوانوں کی دیواریں ہلانے کو تیار تھیں لیکن افسوس اسلام آباد ہو یا پشاور‘ یا دیگر صوبے کہیں بھی اقتدار کے کھیل میں مصروف ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے حکمرانوں کے کانوں تک یہ آوازیں نہیں پہنچ سکیں۔ وہاں صرف پاور پالیٹکس کی ڈائس پر کھیل جاری ہے‘ کون وزارت لے گا‘ کون اتحادی توڑے گا‘ کس پر مقدمہ ہو گا اور کس سے انتقام لینا ہے۔ ریاست عوام کے لیے تو کچھ نہیں کرتی مگر سیاسی انتقام کے لیے راتوں رات فیصلے ہو جاتے ہیں‘ مقدمے چل پڑتے ہیں‘ گرفتاریاں ہو جاتی ہیں‘ اقتدار کے کھیل میں سب کچھ جائز قرار دے دیا جاتا ہے۔ عوام پھر وہی سوال دہرا رہے ہیں: کہاں گئے وہ وعدے؟ کہاں ہیں وہ اربوں روپوں کے منصوبوں کے دعوے؟ کہاں گئی وہ ماحولیاتی پالیسیاں جن کا ڈھنڈورا بیرون ملک سیمینارز میں پیٹا جاتا رہا؟ کہاں ہے وہ ریاست‘ جس نے وعدہ کیا تھا کہ ندی نالوں کو وسیع کیا جائے گا‘ کلاؤڈ برسٹ پر تحقیق ہو گی اور جدید ٹیکنالوجی اپنائی جائے گی؟افسوس یہ ہے کہ جو تحقیق پہلے سے موجود تھی‘ جن ماہرین نے برسوں پہلے خبردار کیا‘ ان کی بات کسی نے نہیں سنی‘ جس کی ایک واضح مثال پنجاب یونیورسٹی کے ماہر ماحولیات پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد کمبوہ کی ہے‘ جو کئی سالوں سے ایک ہی بات کہتے چلے آ رہے ہیں اور مسلسل وارننگ دیتے آ رہے ہیں کہ اگر ہم نے فوری طور پر کلائمیٹ چینج کے خلاف منصوبہ بندی نہ کی‘ تو کلاؤڈ برسٹ‘ لینڈ سلائیڈز اور غیر متوقع بارشوں میں اضافہ ہو گا۔ لیکن یہ آوازیں بھی دیگر سچائیوں کی طرح فائلوں میں دفن ہو گئیں۔ اس وقت کوئی ایک صوبہ نہیں پورا ملک سنگین ماحولیاتی خطرات سے دوچار ہے۔ جنگلات کی کٹائی‘ جنگلات میں لگنے والی پُر اسرار آگ کے واقعات اورماحولیاتی تبدیلی سے جڑے دیگر خطرات تباہ کن سیلاب‘ لینڈ سلائیڈنگ اور کلائوڈ برسٹ کا باعث بن رہے ہیں۔ 34 سال قبل پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 3.78 ملین ہیکٹر تھا جو اَب 2025ء میں 3.09 ملین ہیکٹر ہو چکا ہے۔یعنی جنگلات کے رقبے میں 18 فیصد تک کمی آئی ہے۔ جنگلات کی تباہی نے بالائی علاقوں کے واٹر شیڈز کو سیلابی فیکٹریوں میں تبدیل کر دیا ہے۔
پاکستان میں نہ تو کوئی جامع نیشنل فلڈ پلان ہے‘ نہ ڈرینج ماسٹر پلان‘ نہ فلڈ الرٹ سسٹمز کا کوئی جدید نیٹ ورک۔ این ڈی ایم اے‘ پی ڈی ایم اے اور دیگر ادارے صرف تب متحرک ہوتے ہیں جب نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ پاکستان میں ماحولیاتی تحقیق پر جی ڈی پی کا صرف 0.2 فیصد خرچ کیا جاتا ہے جبکہ دنیا کا اوسط 2.3 فیصد ہے۔ وہ ریسرچ جو ہمارے پاس موجود ہے‘ اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے کروڑوں روپے دے کر اپنوں کو نوازنے والی کنسلٹنسی دی جاتی ہیں۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم امداد مانگنے کے لیے بھی کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ عالیشان ہوٹلوں میں قیام‘ وی آئی پی پروٹوکول‘ سیمینارز‘ کانفرنسز اور واپسی پر کسی نیشنل پلان کی عدم موجودگی۔
تاریخ گواہ ہے کہ قدرتی آفات انسانوں کا مقدر ضرور رہی ہیں‘ مگر باشعور‘ ذمہ دار اور جمہوری ریاستیں ان آفات سے سیکھتی ہیں‘ ان کا تجزیہ کرتی ہیں‘ نظام بناتی ہیں اور آئندہ نسلوں کو ایسے خطرات سے بچانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان ریاستوں کے فیصلے وقتی سیاست یا پوائنٹ سکورنگ پر نہیں بلکہ مستقل پالیسی سازی‘ قانون سازی اور سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان کا ماحولیاتی سفر پچھتاوؤں‘ تاخیری بیانات اور امداد کی فائلوں میں دفن وعدوں سے لبریز ہے۔
نیدرلینڈز سطحِ سمندر سے نیچے واقع ہے۔ 1953ء کے تباہ کن سیلاب کے بعد یہ جاگا‘ اس نے اپنے دریاؤں کو باقاعدہ راستہ دیا‘ Room for the River جیسا منصوبہ بنایا اور ڈیلٹا ورکس جیسے فلڈ پروف سسٹمز کے ذریعے اپنی ریاست کو بچایا۔ امریکہ نے 1970ء میں Clean Air Act نافذ کیا اور آج اس کا فضائی نظام دنیا کے بہترین ماحولیاتی ضابطوں کے تحت چلتا ہے۔ جنوبی کوریا نے بنجر پہاڑوں پر کروڑوں درخت لگا کر زمین کو زندہ کیا اور گرین کوریا کی بنیاد رکھی۔ بنگلہ دیش‘ جو پاکستان سے کہیں کم وسائل رکھتا ہے‘ کمیونٹی بیسڈ طوفان تیاری سسٹمز بنا چکا ہے جن کی بدولت Cyclone Amphan جیسے طوفان میں اموات کا تناسب 90 فیصد کم رہا۔ مگر پاکستان...؟ یہاں 2010ء کے بعد سے ہر قدرتی آفت کے بعد ایک ہی فلم دہرائی جاتی ہے۔ پہلے وارننگ کو نظر انداز کیا جاتا ہے‘ پھر تباہی آتی ہے‘ پھر بیانات جاری ہوتے ہیں‘ پھر امداد کے اعلانات ہوتے ہیں اور پھر طویل خاموشی چھا جاتی ہے۔ 2010ء کے سیلاب میں اقوام متحدہ نے دو ارب ڈالر سے زائد کی امداد کی اپیل کی‘ مگر ہمیں بمشکل 600 ملین ڈالر مل سکے۔ 2022ء کے بدترین سیلاب میں 1739 افراد جان کی بازی ہار گئے‘ سوا تین کروڑ سے زائد متاثر ہوئے اور معیشت کو 40 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ 2023ء میں جنیوا کانفرنس میں عالمی برادری نے پاکستان کو نو ارب ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کیا‘ لیکن اب تک موصول ہونے والی عملی امداد ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔ باقی؟ فائلوں میں دفن وعدے‘ حکمرانوں اور بیورو کریسی کی فائلوں میں الجھے اعلانات‘ اور آئی ایم ایف کی شرائط کی بھول بھلیاں۔
ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ اگر پاکستان نے ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ اصلاحات نہ کیں تو 2050ء تک معیشت کا 20 فیصد حصہ تباہ ہو جائے گا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک اور ایمنسٹی انٹرنیشنل پاکستان کو ان پانچ ممالک میں شامل کرتے ہیں جو موسمیاتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہماری ریاست اس وارننگ کو سُن رہی ہے؟ ہمیں ترقی یافتہ ممالک سے کچھ سیکھنا ہوگا‘ نیدرلینڈز نے دریاؤں کو راستہ دے کر شہری آبادیاں بچائیں۔ جنوبی کوریا نے شجرکاری سے اپنی زمین زندہ کی۔ چین نے Sponge Cities منصوبہ شروع کیا تاکہ بارش کا پانی زمین میں جذب ہو۔ بنگلہ دیش نے کمیونٹی پر مبنی وارننگ سسٹمز بنا کر Cyclone Death Rate کم کر دیا۔اور ہم...؟ ہم نے بلین ٹری سونامی کے دعوے کیے مگر آڈیٹر جنرل کی رپورٹ 2021ء کہتی ہے کہ اس منصوبے کا 40 فیصد حصہ غیر تصدیق شدہ ہے۔ ہم نے Living Indus Project کا اعلان کیا مگر اس کی فنڈنگ کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں۔ ہم نے نیشنل کلائمیٹ پالیسی 2012ء بنائی مگر شرم کا مقام ہے کہ 2025ء تک اس کا بجٹ ہی متعین نہیں کیا جا سکا۔ سوال صرف یہ نہیں کہ ہمیں بیرونی امداد کب ملے گی‘ سوال یہ ہے کہ ہم کب سنجیدہ ہوں گے؟ کب ماحولیاتی خطرات کو قومی سلامتی کا اہم ترین مسئلہ تسلیم کریں گے؟ کب ماہرین کی تحقیقات کو پالیسی کا حصہ بنایا جائے گا؟ فی الحال تو صرف ماتم ہی ہے۔ ماتم ان بچوں کا‘ جو سیلابی پانیوں میں بہہ گئے۔ ان ماؤں کا‘ جنہوں نے اپنے جگر گوشوں کو دفن کر کے آنکھوں میں قیامتیں سمو لیں۔ ان کسانوں کا‘ جن کی ساری محنت مٹی میں مل گئی۔ اور اُس ریاست کا‘ جس سے عوام کو صرف سیاست ملی۔ کیا واقعی ہم آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ‘ خودمختار اور ماحول دوست پاکستان دے پائیں گے؟ یا پھر یہ قوم یونہی بارشوں میں بہتی لاشوں‘ اجڑے کھیتوں اور حکمرانوں کے جھوٹے بیانات کا بوجھ ڈھوتی رہے گی؟ فیصلہ ریاست نے نہیں قوم نے کرنا ہے۔