دہلی سے کابل تک کھلا پیغام

پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر تازہ ترین کشیدگی محض ایک سرحدی جھڑپ نہیں بلکہ برسوں سے جمے ہوئے اُس پورے بیانیے کی کھلی تصویریں ہیں جس میں افغان سرزمین پر پلنے والے دہشت گرد گروہ بھارتی سرپرستی اور فنڈنگ کے سہارے پاکستان کے خلاف لانچ پیڈ بناتے رہے اور پاکستان مسلسل بین الاقوامی فورمز‘ دو طرفہ بات چیت اور انٹیلی جنس شیئرنگ میں اس پر انگلی اٹھاتا رہا۔ فرق یہ ہے کہ اس بار اسلام آباد نے وہ پیغام عملی شکل میں دیا ہے جو پہلے صرف سفارتی کاغذوں اور وارننگز میں تھا۔ پیغام یہ ہے کہ اگر پہل دوسری جانب سے ہو گی تو انجام کا فیصلہ پاکستان خود کرے گا کہ کب اور کہاں جواب دینا ہے‘ کتنی شدت سے دینا ہے اور یہ سلسلہ کب تک جاری رکھنا ہے۔ انگور اڈا سے چترال‘ باجوڑ سے کرم اور بارام چاہ تک جن مقامات پر بلااشتعال فائرنگ‘ کوَر فائر اور دراندازی کی کوششوں کی اطلاعات آئیں وہاں جواب محض دفاعی نہ تھا‘ وہ ایک مربوط‘ ہمہ جہت اور مسلسل آپریشنل ردعمل تھا جس نے یہ واضح کر دیا کہ ریاست پاکستان کے پاس اب تاخیر‘ مصلحت یا مبہم پیغام کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔ یہ چنگاری اُس وقت بھڑکی جب افغان جانب کی پوسٹوں سے مختلف سیکٹرز پر بیک وقت فائر کھولا گیا۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق اس فائرنگ کا مقصد کوَر فائر مہیا کر کے خوارج اور داعش کی تشکیلوں کو سرحد پار کرانا تھا تاکہ وہ پاکستانی حدود میں داخل ہو کر کارروائیاں کر سکیں۔ پاکستان نے فوری طور پر escalatory dominance دکھاتے ہوئے مؤثر اور سخت ردعمل دیا۔ آرٹلری‘ ٹینکوں‘ فضائی اثاثوں اور ڈرونز کا استعمال کر کے ان ٹھکانوں‘ کوَر فائر پوزیشنز اور لانچ پیڈز کو نشانہ بنایا گیا جن سے کئی برسوں سے پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی ہوتی رہی۔ ان میں منوجبا کیمپ‘ درانی کیمپ‘ غزنالی ہیڈ کوارٹر‘ برابچا کی بٹالین اور ژوب سیکٹر کی پوسٹیں شامل ہیں۔ جنوبی وزیرستان اور چترال کے سامنے افغان پوسٹیں مکمل طور پر مسمار کر دی گئیں جبکہ کئی مقامات پر طالبان لاشیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ پاکستانی فورسز نے ان پوسٹوں پر قبضہ کرکے وہاں پاکستان کا پرچم لہرا دیا‘ جو اس بات کا مظہر ہے کہ اب صرف جواب نہیں دیا جا رہا ‘خطرے کی جڑ پر وار کیا جا رہا ہے۔ یہ ٹھکانے عرصہ دراز سے پاکستان کے خلاف استعمال ہوتے رہے۔ بارام چاہ‘ نوشکی‘ کرم‘ باجوڑ‘ دیر اور انگور اڈا کے کوریڈور وہ مقامات ہیں جہاں سے دہشت گردوں کو داخل کرایا جاتا رہا۔ انہیں کوَر فائر ملتا رہا اور جہاں سے واپس جا کر وہی عناصر دوبارہ منظم ہوتے رہے۔ پاکستان نے متعدد بار افغان حکومت کو ان لانچ پیڈز‘ اسلحہ ڈمپوں اور ٹریننگ کیمپوں کے بارے میں شواہد دیے لیکن کوئی عملی اقدام نہ ہوا۔ اب جب پاکستان نے ان مراکز کو براہِ راست نشانہ بنایا ہے تو یہ دراصل برسوں کے ضبط کے بعد دفاعی اور اخلاقی حق کے استعمال کی علامت ہے۔
یہ جنگ افغان عوام یا حکومت کے خلاف نہیں بلکہ اُن دہشت گرد گروہوں کے خلاف ہے جنہیں بھارتی سرپرستی میں پناہ اور وسائل فراہم کیے گئے۔ افغان عبوری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے ایسی کارروائیوں کو روکے۔ ایک طرف وہ عالمی سطح پر امن اور ہمسائیگی کے بیانات دیتی ہے اور دوسری جانب ان عناصر کو نظر انداز کرتی ہے جو پاکستان میں خونریزی کے ذمہ دار ہیں۔ اسلام آباد نے ہمیشہ یہی کہا کہ اگر افغان حکومت اپنی سرزمین کو دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دے تو پاکستان تعاون کیلئے تیار ہے۔ لیکن اگر دشمن پہل کرے گا تو انجام کا فیصلہ پاکستان خود کرے گا ‘ یہی فارمولا اب عملی صورت میں دکھائی دے رہا ہے۔ نئی دہلی کی حکمتِ عملی ہمیشہ یہ رہی کہ پاکستان کو مغربی سرحد پر مسلسل دباؤ میں رکھا جائے تاکہ سفارتی اور داخلی توجہ تقسیم رہے۔ افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے بھارت نے کئی بار ایسی تنظیموں کو سہارا دیا جو پاکستان کے اندر حملوں میں ملوث پائی گئیں۔ پاکستان نے بارہا عالمی فورمز پر ڈوزیئرز پیش کیے‘ شواہد دیے مگر جب دنیا نے خاموشی اختیار کی تو پاکستان نے اب اپنی حکمتِ عملی بدل دی۔ اب سفارتکاری کے ساتھ ساتھ کارروائی بھی جواب کا حصہ بن چکی ہے۔ یہ ردعمل بھارت اور اس کے اتحادیوں کیلئے ایک غیر متوقع جھٹکا ہے۔ پاکستان نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ مغربی محاذ پر بھی مکمل کنٹرول رکھتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ افغان سرزمین تاریخی طور پر پاکستان مخالف نیٹ ورکس کیلئے soft rear area کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ کبھی سوویت دور کے بعد کی خانہ جنگی کے بہانے کبھی مذہبی لبادے میں اور کبھی قومیت کے نام پر‘ لیکن اب جو کچھ ہورہا ہے وہ مختلف ہے۔ پاکستان نے پہلی بار نہ صرف فائر کا جواب دیا بلکہ دشمن پر کاری ضرب بھی لگائی۔
پاکستان کی عسکری قیادت کیلئے یہ دفاع کا نہیں فیصلے کا وقت ہے۔ ایسے میں خیبر پختونخوا کی سیاست نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے۔ نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے اسمبلی فورم پر یہ کہہ کر ایک نئی بحث چھیڑ دی کہ ہمارے ہوتے ہوئے کوئی ملٹری آپریشن نہیں ہو گا۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاک فوج مغربی سرحد پر دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائیاں کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بیان بنیادی طور پر کس موقف یا بیانیے کی حمایت کر رہا ہے؟ اگر یہ محض عوامی تسلی کے لیے ہے تو قابلِ فہم ہے لیکن اگر یہ کسی پالیسی مؤقف کی نمائندگی کرتا ہے تو یہ نہ صرف ریاستی پالیسی کے تضاد کی علامت ہے بلکہ دہشت گرد عناصر کیلئے غیر ارادی اخلاقی سہارا بھی بن سکتا ہے۔ ایسے حساس وقت میں صوبائی قیادت کا یہ کہنا کہ آپریشن نہیں ہوگا‘ دراصل انہی قوتوں کو حوصلہ دیتا ہے جو امن دشمنی کو پالیسی بنائے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی بیانات اور قومی سلامتی کی حکمتِ عملی میں ہم آہنگی پیدا کی جائے تاکہ دشمن کو غلط سگنل نہ ملے۔ پاکستان اس وقت ایک فیصلہ کن مرحلے میں ہے جہاں ذاتی سیاست نہیں ریاستی وحدت اور قومی مفاد اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ قبائلی عوام کا ردعمل بھی اب بالکل واضح ہے۔ وہ افغان حمایت یافتہ دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ یہ اعلان صرف جوشِ جذبات نہیں بلکہ ان قربانیوں کی یاد دہانی ہے جو قبائلی پٹی نے دہشت گردی کے خلاف دی ہیں۔ جب عوام خود دہشت گردی کے خلاف مورچہ بند ہو جائیں تو دشمن کیلئے یہ سب سے بڑا اخلاقی اور نفسیاتی دھچکا ہوتا ہے۔
پاکستان کی یہ کارروائیاں افغان عوام یا حکومت کے خلاف نہیں بلکہ ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف ہیں جو بھارت کی پشت پناہی سے پاکستان کے خلاف سرگرم رہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق تمام حملے انہی علاقوں پر کیے گئے جہاں سے پاکستان پر براہِ راست فائر کیا جا رہا تھا۔ شہری آبادی کو مکمل طور پر محفوظ رکھا گیا اور اہداف خالصتاً دہشت گرد ٹھکانے تھے۔ پاکستان نے ایک بار پھر عالمی برادری کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کا حق استعمال کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلام آباد کی حکمتِ عملی واضح ہے کہ اگر کابل اپنے وعدے پورے کرے‘ سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو اور جو گروہ پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں ان کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کرے تو پاکستان تعاون کیلئے پہلے سے زیادہ تیار ہے۔ وقتی جنگ بندی‘ ہاٹ لائنز کا استعمال‘ مشترکہ انویسٹی گیشن کمیشن اور بین الاقوامی نگران میکانزم جیسے اقدامات کسی بڑے تصادم کو روک سکتے ہیں مگر یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب بھارت کی ایما پر چلنے والی پراکسی سرگرمیوں کو روکا جائے۔ افغان سرزمین پر بنے وہ تمام ٹھکانے جن کی طرف پاکستان برسوں سے اشارہ کرتا رہا اُن کے خلاف فیصلہ کن کارروائی اب حقیقت ہے اور بھارت کیلئے یہ دوٹوک پیغام ہے کہ اگر پہل تم کرو گے تو انجام ہم طے کریں گے اور یہ انجام امن کے حق میں ہوگا‘ دہشت گردی کے حق میں نہیں۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ رائونڈ ٹو بہت جلد آئے گا‘ جو پہلے سے کہیں زیادہ سخت ہو سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں