ہم میں سے اکثر نے کاٹھ کے اُس گھوڑے کا واقعہ سنا ہوا ہے جس کی وجہ سے ایک عالی شان شہر تباہی سے دوچار ہوا۔
یہ قبل مسیح کا قصہ ہے۔ دنیا کا بہترین ادب اسی واقعہ کی وجہ سے تخلیق ہوا۔ ہوا یوں کہ یونانیوں نے ٹرائے شہر پر حملہ کردیا۔ دس سال محاصرہ جاری رہا مگر شہر فتح نہ ہو سکا۔ آخرکار حملہ آور فوج نے ایک چال چلی۔ لکڑی کا ایک بہت بڑا گھوڑا بنایا۔ اس میں سپاہی چھپائے اور گھوڑا شہر سے باہر رکھ کر بظاہر پسپا ہو گئی۔ ساتھ ہی اپنا ایک آدمی جاسوس کے طور پر چھوڑ دیا۔ اُس نے اہلِ شہر کو قائل کیا کہ یونانی تھک ہار کر واپس چلے گئے ہیں اور یہ گھوڑا دیوتائوں کو خوش کرنے کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ شہر کی حکومت ایک ''سٹی کونسل‘‘ کے ہاتھ میں تھی۔ اس حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ اس مالِ غنیمت کو شہر کے اندر لے جائے گی اور یادگار کے طور پر رکھے گی!
کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے حکومت کو اس احمقانہ اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ ان میں ایک پادری تھا۔ اس کا نام تذکروں میں لائوکُون بتایا گیا ہے۔ وہ تنبیہ کرتا ہے کہ یہ کوئی سازش ہے جو یونانی اہلِ شہر کو نقصان پہنچانے کے لیے کر گئے ہیں،۔ وہ منت سماجت کرتا ہے کہ خدا کے لیے اس منحوس گھوڑے کو شہر کے اندر لانے کا خیال چھوڑ دو۔ پادری کی کسی نے نہ سنی۔ وہاں ایک شہزادی بھی تھی۔ اس کی پیش گوئیاں درست ثابت ہوتی تھیں اور مشہور تھا کہ وہ مستقبل میں جھانک سکتی تھی۔ ٹرائے کے لوگ جب ''فتح‘‘ کی خوشی میں مست تھے تو شہزادی نے انہیں خطرے سے آگاہ کیا۔ اس پر اس کا مذاق اڑایا گیا۔ اس پر پھبتیاں کسی گئیں۔ اس نے شہر کو تباہی سے بچانے کی ایک آخری کوشش کی اور کلہاڑا ہاتھ میں لے کر لکڑی کے گھوڑے کی طرف بڑھی تاکہ اسے کاٹ کر اس میں چھپے ہوئے یونانی سپاہیوں کو باہر نکالے۔ مگر لوگ اور سٹی کونسل درمیان میں حائل ہو گئی۔ نتیجہ تباہی تھا۔ گھوڑا اندر لایا گیا۔ فتح کا جشن دوچند ہو گیا۔ رات کو یونانی گھوڑے سے نکلے اور شہر کے دروازے کھول دیے۔ یونانی فوج اندر داخل ہو گئی۔ قتلِ عام ہوا۔ گلی کوچے لاشوں سے اٹ گئے۔ خون کی ندیاں بہنے لگیں۔
مسلم لیگ نون کی حکومت جس طرح ریاست کے امور چلا رہی ہے‘ اس سے لکڑی کے گھوڑے کی یاد تازہ ہو رہی ہے۔ یہ بات اب زبان زدِ خاص و عام ہے کہ بیوروکریسی کو محض اور محض ذاتی وفاداری کی کسوٹی پر پرکھا جا رہا ہے۔ بچے کو بھی معلوم ہے کہ غیر جانبدار بیوروکریسی ریاست کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے۔ ملک کا سارا نظام‘ کیا مقامی‘ کیا صوبائی‘ کیا وفاقی‘ بیوروکریسی ہی چلاتی ہے۔ خودمختار ادارے‘ کارپوریشنیں‘ سب سرکاری اہلکاروں کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ میڈیا میں لاہور گروپ اور ایک مخصوص برادری کے حوالے آئے دن پڑھنے اور سننے میں آ رہے ہیں۔ مگر اس سلسلے میں تازہ ترین خبر نے حافظ شیرازی کی غلط بخشیوں کو بھی مات کردیا ہے۔ حافظ شیرازی کی غلط بخشیوں کے بارے میں جن قارئین کو نہیں معلوم‘ ان کے لیے بتاتے چلیں کہ جب امیر تیمور نے حافظ کا مشہور شعر ؎
اگر آن ترکِ شیرازی بدست آرد دلِ ما را
بخالِ ہندئوش بخشم سمر قند و بخارا را
(اگر وہ شیرازی محبوب ہمارا دل تھام لے تو سمرقند اور بخارا کے شہر اس کے تِل پر قربان کردیں)
سنا‘ تو شاعر کو طلب کیا کہ سمرقند کو بساتے بساتے میں نے ایک عمر قربان کردی اور تم اسے محبوب کے تِل پر لُٹا رہے ہو۔ حافظ نے فوراً جواب دیا کہ جہاں پناہ! انہی غلط بخشیوں نے تو اس حال تک پہنچایا ہے!
بین الاقوامی تجارت کے عالمی ادارے ''ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن‘‘ (WTO) کا ہیڈکوارٹر سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ہے۔ یہ ادارہ تمام ممبر ملکوں کی مشاورت سے بین الاقوامی تجارت کے اصول‘ قواعد اور قوانین وضع کرتا ہے۔ جب ان قوانین کو وضع کرنے کے لیے غورو خوض اور مذاکرات ہو رہے ہوتے ہیں تو ممبر ملکوں کے نمائندے اپنے اپنے ملک کا نکتۂ نظر پیش کرتے ہیں۔ یہ ایک مشکل اور تکنیکی کام ہوتا ہے۔ اگر نمائندہ عالمی تجارت کے اسرار و رموز سے ناواقف ہے اور اس میدان میں وسیع اور طویل تجربہ نہیں رکھتا تو وہ اپنے ملک کا نکتۂ نظر تو پیش کرنا دور کی بات ہے‘ بسااوقات اجلاس کی کارروائی پوری طرح سمجھ تک نہیں سکتا۔ اس لیے عقل مند اور مخلص حکومتیں یہاں ایسے نمائندے بھیجتی ہیں جو عالمی تجارت کی باریکیوں‘ ڈبلیو ٹی او کے تمام قوانین‘ ان کے پس منظر اور مضمرات سے اچھی طرح آگاہ ہوں!
ڈبلیو ٹی او میں متعین پاکستان کا سفیر اگست 2014ء میں ریٹائر ہو گیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس کے جانشین کا چنائو وقت پر ہو جاتا اور اگست یا زیادہ سے زیادہ ستمبر میں وہ جنیوا پہنچ جاتا مگر پانچ ماہ میں یہ کام نہ ہو سکا! اب جو خبرِ وحشت اثر آئی ہے یہ ہے کہ ایک منظورِ نظر افسر کو جس کا عالمی تجارت سے کیا‘ تجارت کے کسی بھی محکمے سے کوئی تعلق نہیں‘ اس حساس منصب کے لیے ''منتخب‘‘ کیا گیا ہے۔ ماڈل ٹائون میں چودہ افراد کی ہلاکت کے حوالے سے اس افسر کا نام پیش منظر پر آیا! یہ ''مشہور‘‘ ہوئے اور صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ کے ساتھ‘ انہیں بھی سامنے سے ہٹا دیا گیا۔ یہ اُس وقت وزیراعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری تھے!
متعلقہ وفاقی سیکرٹری نے اس انتخاب کی مخالفت کی ہے۔ دوسری ستم ظریفی یہ ہوئی کہ نائب سفیر‘ منتخب کیے جانے والے سفیر سے سینئر ہیں! اس منصب پر گریڈ اکیس یا بائیس کا اہلکار تعینات کیا جاتا ہے مگر جس اہلکار کو چنا گیا ہے وہ بیس گریڈ کے افسر ہیں! اس وقت صورتِ احوال یہ ہے کہ پاکستان کو عالمی تجارت میں خسارے کا سامنا ہے۔ برآمدات کم ہیں۔ درآمدات کا بِل روز بروز زیادہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف بھارت ایسے اہلکاروں کو بیرون ملک بھیج رہا ہے جو پیشہ ورانہ امور کے ماہر ہیں۔
حکومت کو‘ خاص طور پر وزیراعظم میاں نوازشریف کو اس قسم کی بے سروپا تعیناتیوں سے کئی قسم کے نقصانات پہنچ رہے ہیں۔ وزیراعظم غور کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہزاروں سرکاری اہلکار‘ اس قبیل کے فیصلوں سے بددل اور مایوس ہوتے ہیں۔ ان کے دل نفرت اور حقارت سے بھر جاتے ہیں۔ ردعمل میں وہ استعدادِ کار کھو بیٹھتے ہیں! جس ریاست کے اہلکار اس حقیقت کے قائل ہو جائیں کہ میرٹ عنقا ہے اور ذاتی وفاداری اہم ہے‘ وہ یا تو بددل ہو کر محنت کرنا چھوڑ دیتے ہیں یا کانِ نمک میں نمک ہو جاتے ہیں۔ یوں حکومت کے زوال کا عمل تیز تر ہو جاتا ہے! ملکی حوالے سے ایسی تعیناتی ملک دشمنی کے مترادف ہے! آپ ملک کا مفاد ایک طرف رکھ کر ایک ذاتی وفادار کو نواز رہے ہیں! یہ کیسی حب الوطنی ہے؟
کیا کوئی پادری‘ کوئی شہزادی‘ شور مچا سکتی ہے کہ لکڑی کے گھوڑے کو شہر کے اندر نہ لے جائو؟ وزیراعظم کو ان غیر دانشمندانہ فیصلوں سے کون منع کر سکتا ہے؟ کابینہ کے ارکان؟ وہ تو آمنا و صدقنا کے علاوہ کچھ کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ وزیراعظم کے بعد ملک کے طاقتور ترین شخص ان کے بھائی ہیں مگر منتخب کیے جانے والے صاحب انہی کے تو خدمت گار تھے! ؎
دیکھا جو کھا کے تیر‘ کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی