دیا سلائی سے بلب روشن کرنے کی کوشش

پانی کے سب برتن دھوئے جا رہے ہیں۔ اگر ہم گندے برتنوں میں پانی ڈالیں گے تو تندرست کیسے رہیں گے؟ اس لیے آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم اپنے گھڑے‘ صراحیاں‘ مٹکے‘ کولر‘ جگ‘ یہاں تک کہ دیگچیاں اور پتیلے بھی خوب مانجھ رہے ہیں۔
المیہ صرف یہ ہے کہ یہ سارے برتن ہم جس تالاب سے بھر رہے ہیں وہ تالاب نہیں‘ ایک جوہڑ ہے جس میں پانی غلیظ ہے۔ اس میں کبھی جانوروں کو نہلایا جاتا ہے‘ کبھی ٹرکوںاورسوزوکیوں کے گندگی میں لتھڑے پہیے دھوئے جاتے ہیں۔ گندی نالیوں کا پانی اسی جوہڑ میں گرتا ہے۔ کیا ہماری بے وقوفی کی کوئی حد ہے؟ اور کیا احمق کے علاوہ کوئی اور نام ہمارے لیے مناسب ہے؟ ہم ہرروز برتن مانجتے ہیں‘ انہیں جراثیم سے پاک کرتے ہیں اور پھر تعفن بھرے تالاب سے ان میں پانی بھرتے ہیں۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ گھر میں ایک ایک برتن کی صفائی پر گھنٹوں بحث ہوتی ہے‘ گھڑا اچھی طرح صاف نہیں ہوا‘ دوبارہ دھویا جائے صراحیاں کس نے دھونی ہیں؟ چمک نہیں رہیں! ایک ایک برتن کئی کئی بار دھویا جاتا ہے!
یہ سب کچھ کسی حویلی، کسی گھر میں نہیں ہو رہا‘ پاکستان میں ہو رہا ہے۔ ہمارے سامنے ہو رہا ہے‘ ایک ایک محکمے کی الگ الگ بات ہوتی ہے‘ سربراہوں کو بلا کر پوچھ گچھ ہوتی ہے ‘کبھی کوئی قائمہ کمیٹی کسی شعبے کے ہیڈ کو طلب کرتی ہے‘کبھی کسی ادارے کے سربراہ کو کسی برائی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے مگر وہ جو تالاب ہے، متعفن پانی سے لبریز ۔ وہ جو گورننس ہے اقربا پروری اور قبیلہ نوازی سے اٹی ہوئی‘ وہ جو انتظامیہ ہے سیاسی مداخلت میں گلے گلے تک ڈوبی ہوئی‘ وہ وہیں کی وہیں ہے۔
آپ اس ملک کی بدقسمتی پر غور کیجئے ‘ افریقہ کی کوئی بنانا ری پبلک بھی اتنی غیر یقینی صورتحال سے دوچار نہ ہو گی۔ وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ غیر تصدیق شدہ ووٹ جعلی نہیں‘ تحریک انصاف پوچھتی ہے کہ غیر تصدیق شدہ ترانوے ہزار ووٹوں کو کہیں گے کیا؟ ایک الزام یہ ہے کہ ایک حلقے سے چھ ہزار ووٹ جعلی نکلے۔ اللہ کے بندو! یہ تو سوچو کہ دنیا کیا کہہ رہی ہے!دنیا ہمارے وزیروں کو نہیں جانتی‘ نہ ہی ہمارے ملک کی پہچان کسی ایک یا دوسری سیاسی پارٹی سے ہے‘ دنیا صرف پاکستان کو جانتی ہے‘ دنیا یہی کہے گی اور کہہ رہی ہے کہ پاکستانی الیکشن نہیں کر ا سکتے‘ بائیس کروڑ انسانوں کے ملک میں چند افراد بھی ایسے نہیں میسر جو الیکشن کمیشن کو کامیابی سے چلا سکیں!
اس لیے کہ اداروں میں کام کرنے والی افرادی قوت نامزدگی کا شاخسانہ ہے۔ نامزدگی میرٹ کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ آپ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی مثال لے لیجیے۔ یہ ادارہ وفاق میں ہے اور افسروں کی بھرتی کرتا ہے۔ اس کا اہم ترین فنکشن مقابلے کا امتحان منعقد کرنا ہے۔ یہ ایک سال پر محیط طویل کارروائی ہوتی ہے۔ آٹھ دس ہزار امیدوار اس امتحان میں شریک ہوتے ہیں۔ درجن کے لگ بھگ تحریری پرچے ہوتے ہیں۔ پھر مرحلہ وارزبانی امتحان ہوتا ہے جس میں نفسیاتی پہلو بھی دیکھے جاتے ہیں۔ اس جانکاہ طویل دورانیے کے بعد ڈیڑھ یا دو سو بیوروکریٹ چنے جاتے ہیں۔ ایک تازہ خبر کے مطابق حکومت نے مقابلے کے اس وفاقی امتحان(سی ایس ایس) کے ضمن میں بعض اہم نصابی تبدیلو ں کی منظوری دی ہے۔ ان تبدیلوں کا مقصد یہ بتایا جا رہا ہے کہ امیدوار کو اسلامی حکومتوں میں ہونے والے تجربات‘ پالیسیوں اور انتظامی فیصلوں سے آگاہی ہو۔ اس کے علاوہ ایک عبوری سکریننگ ٹیسٹ بھی متعارف کرایا جا رہا ہے جسے پاس کرنے کے بعد ہی امیدوار مقابلے کے امتحان میں بیٹھ سکتا ہے۔
لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ارکان(جو کمیشن چلا رہے ہیں) کسی سسٹم کسی نظام کے تحت نہیں‘ بلکہ محض اور محض نامزدگیوں کے تحت تعینات ہوتے ہیں۔ ریٹائرڈ ہونے والے نوکر شاہی کے وہ افراد جو صدر‘ وزیر اعظم یا کسی اور بااثر شخصیت تک رسائی رکھتے ہیں‘ انہیں آنکھ بند کرکے فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں ممبر لگا دیا جاتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تین سال کی یوں مزید ''ملازمت‘‘ ہاتھ آ جاتی ہے!
یہاں حکومت سے دو سوال پوچھے جانے چاہئیں۔ اول۔ ریٹائر ہونے والے بہت سے افسروں میں سے جن چند کو اس کمیشن میں تعینات کیا جاتا ہے ان کے ''انتخاب‘‘ کی بنیاد کیا ہے اور ریٹائر ہونے والے جو بیوروکریٹ اس لاٹری سے محروم رہ جاتے ہیں انہیں کس بنیاد پر محروم رکھا جاتا ہے؟ دوم‘ کیا یہ پاکستان کے آئین میں لکھا ہوا ہے کہ صرف ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہی ان مناصب پر لگائے جائیں؟ آخر نجی شعبے سے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ارکان کیوں نہیں منتخب ہو سکتے؟ کیا عقل و دانش سے بھری ہوئی گٹھڑیاں صرف اُن افراد کے سروں پر ہوتی ہیں جو ریٹائر ہوتے وقت شاہی خاندانوں کے نزدیک ہوتے ہیں۔ معاف فرمائیے گا۔ یہ ملک اگر تھوڑا بہت چل رہا ہے تو نجی شعبے کی وجہ سے! ڈاک کے محکمے کی مثال لے لیجئے۔ یو ایم ایس (ارجنٹ میل سروس) چوتھے دن بھی نہیں پہنچتی۔ اس کے مقابلے میں نجی شعبے کی کورئیر سروس‘ آپ کا پیکٹ یا خط وصول کرنے ایک گھنٹے کے اندر اندر آپ کی دہلیز پر پہنچتی ہے اور ٹھیک دوسرے دن آپ کا خط یا پیکٹ منزل مقصود پر وصول کرایا جاتا ہے اور پھر ایس ایم ایس کے ذریعے آپ کو وصول کرنے والے کا نام بھی بتا دیا جاتا ہے۔ آپ نے لاہور سے پنڈی یا پشاور یا ملتان جانا ہے تو ٹرین کا اعتبار ہے نہ جہاز کا‘ صرف نجی شعبے کی بس ہے جو آپ کو ٹھیک مقررہ وقت پر پہنچا سکتی ہے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور دوسرے ادارے ریٹائرڈ اہلکاروں کے قبرستان بنا دیئے گئے ہیں۔ یہی حال الیکشن کمیشن کا ہے۔ یہی حال وفاقی محتسب کا ہے جہاں ستر پچھتر کیا‘ اسی اسی سال کے افراد کانوں میں سماعت کے آلے لگائے ''فرائض‘‘ سرانجام دے رہے ہیں۔ اقبال نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا ؎
شیخ مکتب کے طریقوں سے کشادِ دل کہاں
کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ
بھلا برقی قمقمے دیا سلائی سے بھی کبھی روشن ہوئے ہیں؟ نجی شعبے کے جو افراد کمپنیاں اور کارخانے چلا رہے ہیں درآمدات اور برآمدات کا سلسلہ سنبھالے ہوئے ہیں‘ بینک چلا رہے ہیں‘ نجی شعبے کی یونیورسٹیوں میں بیٹھے ہیں‘ ان کے رویے متوازن اور نقطہ ہائے نظر جدید ہیں۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن ہو یا الیکشن کمیشن یا محتسب کا ادارہ یا دوسرے ادارے‘ نجی شعبے کے حوالے نہیں کئے جا سکتے تو نجی شعبے سے کسبِ کمال کرنے والے تو لے کر آئیے کہ نامزد کئے جانے والے ریٹائرڈ اہلکار الیکشن تک تو کرا نہیں سکے اور کیا تیر ماریں گے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں