اس میں کیا شک ہے کہ جڑواں شہروں میں چلائی جانے والی میٹرو بس ریاست کے اثاثوں میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ تنصیب اور تعمیر جدید ترین انداز میں کی گئی ہے۔ سٹاپ (یا سٹیشن) خوبصورت بنائے گئے ہیں۔ اس سے پہلے جو کاوشیں یا تجربے‘ نجی شعبے نے یہاں کیے‘ ان کا مقابلہ میٹرو سے نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ معیار اور سکیل دونوں یکسر مختلف ہیں۔ آمدورفت کی سہولت کے علاوہ‘ اس جدید ترین ذریعے کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ عوام کی تربیت ہوگی۔ سوک سینس میں اضافہ ہوگا۔ خودکار دروازوں سے‘ وقت کی پابندی سے اور کئی جدید پہلوئوں سے تعارف ہوگا۔ کیا خبر یہ تعارف یہ تربیت‘ آئندہ کسی ایسے ذریعۂ آمدورفت میں کام آئے جو قسامِ ازل نے لکھ رکھا ہے اور ابھی ہمارے بخت میں در نہیں آیا!
ایک بہت اہم سوال جو اس علاقے کے عوام پوچھنا چاہتے ہیں یہ ہے کہ کیا یہ خوبصورت اور جدید ترین سہولت اُن لوگوں کو بھی مہیا کی جائے گی جو دارالحکومت میں آنے کے لیے صدر اور مری روڈ کا راستہ استعمال نہیں کرتے؟ اس وقت وفاقی دارالحکومت میں آنے کے لیے پانچ روٹ استعمال ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑا‘ جس پر سب سے زیادہ مسافر سفر کرتے ہیں‘ ایکسپریس روڈ کا روٹ ہے۔ ایکسپریس وے روات سے شروع ہوتی ہے اور فیض آباد فلائی اوور کے پاس جا کر‘ دوسری شاہراہوں سے مل جاتی ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اسلام آباد کا جسم ایکسپریس وے پر منتقل ہو چکا ہے اور پرانے اسلام آباد میں اب صرف سَر باقی رہ
گیا ہے۔ ایکسپریس وے کے دونوں طرف جس قدر لوگ آباد ہو چکے ہیں‘ غالباً پرانے (اور اصل) اسلام آباد میں اتنے نہیں۔ اس کی دو بڑی وجوہ ہیں۔ ان میں سے ایک دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کی ناکامی‘ نااہلی اور کرپشن ہے۔ عالم یہ ہے کہ پانی کا ہر گھر اپنا انتظام کر رہا ہے جس پر ایک وقت میں اڑھائی تین لاکھ روپے لگتے ہیں اور خدانخواستہ پانی نہ نکلے تو یہ خرچ دوبارہ کرنا پڑتا ہے۔ کوڑے کرکٹ کے جا بجا ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔ فوڈ پارک اور میلوڈی مارکیٹ میں‘ جو مرکزی جگہ ہے‘ جانا ہو تو غلاظت کے انبار دیکھ کر ابکائی آتی ہے۔ کورنگ دریا‘ جو راول جھیل میں گرتا ہے جس سے بیس لاکھ افراد پانی حاصل کرتے ہیں‘ آلودگی کا جہنم بن چکا ہے جس میں غلاظتیں بہہ رہی ہیں۔ سکیورٹی کا یہ عالم ہے کہ ہر سیکٹر کے لیے ڈاکوئوں کے الگ گروہ ہیں۔ گاڑیوں کی چوری کا گراف بھیانک بلندی کو چُھو رہا ہے۔ ہزاروں نجی پہریدار پولیس کی نااہلی کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ اس کے باوجود چیف کمشنر ہے یا ترقیاتی ادارے کا سربراہ‘ کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ ایئرکنڈیشنڈ دفتروں میں افسریاں ٹھاٹھ سے چل رہی ہیں۔ زمیں جنبد‘ نہ جنبد گل محمد۔ بھائی گل محمد کے اس ناقابل یقین جمود سے تنگ آ کر خاندان کے خاندان پرانے اسلام آباد کو چھوڑ کر بحریہ اور ڈی ایچ اے کا رُخ کر رہے ہیں اور زبانِ حال سے حافظ شیرازی کا یہ شعر پڑھ رہے ہیں ؎
ما آزمودہ ایم درین شہر بختِ خویش
بیرون کشید باید ازین ورطہ رختِ خویش
یا دوسرے لفظوں میں ؎
جبیں سے بخت آخر اڑ گیا یہ کہہ کے اظہارؔ
یہاں اب ختم میرا آب و دانہ ہو رہا ہے
بحریہ کے چھ فیز ایکسپریس وے پر ہیں۔ عسکری کالونی بھی یہیں ہے۔ یہاں کا معیارِ زندگی‘ سکیورٹی‘ صفائی‘ پانی کی بہم رسانی‘ مساجد کا نظم و نسق‘ سب کچھ یوں سمجھیے کہ اگر پرانے اسلام آباد میں دس ہے تو ان جدید آبادیوں میں ایک سو دس ہے۔ ایکسپریس وے پر ہی پی ڈبلیو ڈی‘ نیول اینکریج‘ کورنگ ٹائون‘ پاکستان ٹائون‘ پولیس فائونڈیشن‘ میڈیا ٹائون‘ گلبرگ اور کئی اور آبادیاں قائم ہیں۔ جہلم تک سے لوگ روزانہ دارالحکومت کا سفر کرتے ہیں اور ایکسپریس وے اُن کا روٹ ہے۔ سہالہ‘ کہوٹہ‘ ہمک‘ کاک‘ روات‘ مندرہ‘ گوجر خان‘ دینہ‘ منگلہ‘ میّہ کسوال‘ ڈومیلی اور بے شمار دوسری بستیوں کے رہنے والے ایکسپریس وے ہی کے راستے دارالحکومت آتے ہیں اور شام کو واپس جاتے ہیں۔ دوسرا بڑا روٹ وہی ہے جس پر میٹرو بس چلائی گئی ہے یعنی صدر اور مری روڈ۔ یہ ٹنچ بھاٹہ‘ دھیال‘ صدر اور مری روڈ کے دونوں کناروں پر آباد گنجان آبادیوں کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ تیسرا روٹ ترنول اور کشمیر ہائی وے ہے جو ایبٹ آباد‘ ہری پور‘ حسن ابدال‘ واہ‘ اٹک‘ فتح جنگ‘ ٹیکسلا اور سرائے خربوزہ کے مسافروں کے زیر استعمال ہے۔ یہ مسافر ترنول سے کشمیر ہائی وے پر چڑھتے ہیں۔ انہیں میٹرو بس اس لیے وارا نہیں کھاتی کہ جتنی دیر میں یہ صدر پہنچیں گے‘ اتنی دیر میں کشمیر ہائی وے کے ذریعے اسلام آباد پہنچ سکتے ہیں۔ چوتھا روٹ آئی جے پی روڈ ہے جو پیر ودھائی کے اڈے پر اترے ہوئے ہزاروں مسافروں کو اسلام آباد لاتا ہے۔ اس روٹ کو استعمال کرنے والے‘ فیض آباد پہنچ کر میٹرو پر سوار ہو سکتے ہیں۔ پانچواں بڑا روٹ بارہ کہو سے گزرنے والی شاہراہ ہے جس پر مری اور اسلام آباد کے درمیان کثیر تعداد میں آباد قریوں کے عوام دارالحکومت آتے جاتے ہیں۔
اب زمینی حقیقت یہ ہے کہ میٹرو بس پانچ روٹوں میں سے صرف ایک روٹ پر چل رہی ہے۔ جیسا کہ تفصیل بیان کی گئی ہے‘ گنجان ترین روٹ ایکسپریس وے ہے جسے میٹرو سے کوئی علاقہ نہیں۔ اس روٹ کی بے مائگی کا یہ عالم ہے کہ گھنٹوں نہیں بلکہ پہروں ٹریفک رکی رہتی ہے۔ اربابِ اختیار کی ''عقل مندی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ ایئرپورٹ چوک پر ایک انڈر پاس یا فلائی اوور تک نہیں بنایا گیا۔ اس چوک سے روات تک شاہراہ ازکار رفتہ ہے اور اذیت کا سبب ہے۔ ایکسپریس وے پر صرف دو انڈر پاس ہی بن جاتے تو لاکھوں عوام سکھ کا سانس لے سکتے تھے۔ اسی طرح بارہ کہو کے گنجان‘ بے ہنگم‘ بازار پر فلائی اوور کی شدید ضرورت ہے۔ جب وزیراعظم یا کوئی اور حکمران عازمِ مری ہوتا ہے تو ٹریفک روک دی جاتی ہے اور عوام شاہراہ کے کناروں پر عملی طور پر قید کر دیے جاتے ہیں‘ اس لیے حکمرانوں کو اُس تکلیف کا احساس نہیں جو مسافروں کو دن میں کئی بار پیش آتی ہے!
یہاں ایک بار پھر وضاحت کی جاتی ہے کہ میٹرو بس جس روٹ پر بھی چلائی گئی ہے‘ قابلِ ستائش ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اخراجات زیادہ اٹھتے ہیں۔ اس پہلو کو بھی یہاں زیر بحث نہیں لایا جا رہا کہ یہ الگ منطقہ ہے اور کالم میں تمام منطقوں کی گنجائش نہیں ہوتی۔
فرض کیجیے کل لاگت چالیس ارب روپے آئی ہے تو اس حساب سے پانچ روٹوں پر میٹرو چلائی جائے تو کم از کم لاگت دو سو ارب بنتی ہے۔ یوں آخری تجزیے میں ہم اپنے آپ کو بند گلی میں پاتے ہیں۔ اس الجھن کا حل کیا ہے؟ اس بارے میں ہم اپنی معروضات اگلی نشست میں پیش کریں گے۔