میں جب کسی کام کو کرنے کا بیڑا اٹھاتا ہوں تو اسے اپنے اوپر طاری کر لیتا ہوں‘ اٹھتے بیٹھتے‘ چلتے پھرتے‘ سفر میں یا قیام میں‘ تنہائی میں یا دوستوں کے درمیان‘ اسی دھن میں رہتا ہوں کہ کام جاری رکھوں اور اسے کسی منطقی انجام تک پہنچا کر دم لوں۔
بجٹ آیا تو میں نے اس کا تجزیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیا کم ہوا اور کیا زیادہ؟ امیر پر کیا اثر پڑا اور غریب کو کیا فائدہ ہوا؟ ٹیکس کن پر لگے اور کن پر نہیں لگے‘ فائدہ کتنا ہوا اور نقصان کا کیا تخمینہ ہے؟ میں نے ہر ایک سے پوچھنا شروع کیا اور ہر ایک نے میری معلومات میں اضافہ کیا۔ بعض نے تو مجھے اعدادو شمار یوں پلائے جیسے بچپن میں ہمدرد کی صافی پلائی جاتی تھی۔ بعض نے کاغذ پر لکیریں کھینچیں اور ان کا نام ڈایا گرام بتایا۔ بعض نے جی ڈی پی‘ پرکَیپی ٹا‘ ریٹ آف انویسٹمنٹ‘ ریٹ آف انٹرسٹ‘ مارک اپ‘ نیشنل انکم‘ گروتھ ریٹ اور اس قسم کی متعدد دوسری اصطلاحات سمجھائیں۔ ان اصطلاحات کے چکر میں بعض نے اس قدر الجھایا کہ بجٹ بہت پیچھے‘ دور کہیں‘ جھاڑیوں میں گم ہو گیا اور ہم اصطلاحات کے گھوڑوں پر سوار‘ کہیں اور نکل آئے۔
بہرطور‘ بجٹ مجھ پر طاری رہا۔ کل ایک کام کے سلسلے میں ایک گائوں جانا پڑا۔ میں مسلسل بجٹ کے بارے ہی میں سوچ رہا تھا۔ اور گاڑی چلائے جا رہا تھا۔ اچانک احساس ہوا کہ ایک خوبصورت جگہ سے گزر ہو رہا ہے۔ بادل گھِر کر آیا ہوا تھا۔ ہوا خوشگوار تھی۔ گاڑی روکی اور باہر نکل آیا۔ چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں کھیتوں کے درمیان‘ سڑک کے دونوں کنارے منظر کو دلکش بنائے ہوئے تھیں۔ کیکر اور شیشم کے درخت جھوم رہے تھے۔ ایک نسبتاً اونچی پہاڑی کے پیچھے سے دو تین بکریاں نمودار ہوئیں۔ پھر کچھ گائیں اور بھینسیں‘ پھر بھیڑوں کا ایک گلہ‘ ان سب کے پیچھے ایک کتا اور پھر ایک لڑکا‘ جس کے ہاتھ میں کلہاڑی تھی۔ سن تیرہ چودہ سال کا ہوگا۔ وہ مویشیوں کو ہانک رہا تھا۔ سڑک کے کنارے سبزہ زار تھا۔ جانور وہاں پہنچے تو گھاس کھانے لگ گئے۔ کم سن چرواہا پہاڑی پر بیٹھ گیا۔ میں بھی اس کے قریب جا بیٹھا‘ ہاتھ ملایا تو معلوم ہوا ہاتھ اس کے کھردرے تھے۔ بال الجھے ہوئے۔ اس گرمی میں اس نے ملیشیا کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔ مٹی کی بنی ہوئی بطخ سے اس نے پانی کے دو گھونٹ پیے اور مجھے پیش کی۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور پینے سے اجتناب کیا۔ گاڑی میں منرل واٹر کی بوتل پڑی تھی۔
''کیا تم سکول نہیں پڑھتے؟‘‘
''پڑھتا ہوں۔ آج نہیں گیا۔ ابا کو بخار ہے۔ ریوڑ باہر لانے کے لیے سکول سے چھٹی کرنا پڑی‘‘۔
''کس جماعت میں پڑھتے ہو؟‘‘
''ساتویں میں‘ ویسے ساتویں کا استاد نہیں ہے‘ ہمارے سکول میں جس ٹیچر کو بھی بھیجا جاتا ہے‘ وہ چند ہفتوں بعد چھٹی لے لیتا ہے یا تبادلہ کرا لیتا ہے‘‘۔
''کیا تمہیں معلوم ہے کہ نیا بجٹ آ چکا ہے؟‘‘
''ہاں! میں نے اس کا ذکر سنا ہے۔ سکول میں ایک ٹیچر دوسرے کو بتا رہا تھا کہ اس کی تنخواہ بڑھ جائے گی۔ مگر یہ بجٹ ہوتا کیا ہے؟‘‘
اس سوال کا جواب مشکل تھا! بہرطور میں نے اسے سمجھایا کہ یہ سالانہ آمدنی اور اخراجات کا تخمینہ ہوتا ہے جو حکومت عوام کے سامنے پیش کرتی ہے۔ اس میں ٹیکسوں کا ذکر ہوتا ہے اور حکومت اُن رقوم کی تفصیل بتاتی ہے جو وہ مختلف مدات میں خرچ کرتی ہے۔
میں نے دیکھا کہ جوں جوں میں بجٹ کے بارے میں اُسے سمجھا رہا تھا‘ اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ دیکھنے میں آ رہی تھی! اس کی آنکھوں میں ایسی چمک تھی جو کچھ کچھ غیرمعمولی سی لگ رہی تھی۔ وہ اٹھا‘ پانی کی بطخ اس نے پہاڑی سے نیچے پھینکی جو ایک کھیت میں جا گری۔ کلہاڑی کا تیز دھار والا لوہے کا سرا اُس نے پکڑا‘ اور دوسرا سرا زمین پر رکھ کر اُس پر ٹیک لگا کر یوں کھڑا ہو گیا جیسے یہ اس کا عصا ہو۔ تعجب اُس وقت ہوا جب وہ بولا تو اس کی آواز بھاری اور پہلے سے یکسر مختلف تھی جیسے اس کے اندر سے کوئی اور بول رہا تھا۔
''تو تم اتنے دور سے مجھے بجٹ پڑھانے آئے ہو۔ حالت تمہاری یہ ہے کہ تم وہ پانی نہیں پی سکتے جو میں اور میرے ماں باپ اور میرے بہن بھائی پیتے ہیں۔ کس بجٹ کی بات کرتے ہو تم؟ کیا تم کوئی ایسا بجٹ لا سکتے ہو جو میرے گائوں کے سکول کو ایک باعزت عمارت میں منتقل کر سکے؟ کیا تمہیں نہیں معلوم‘ اس میں ایک بھی برقی پنکھا نہیں ہے؟ ہم سب بچے زمین پر بیٹھتے ہیں۔ کیا کوئی بجٹ ہمیں میز کرسیاں دے سکتا ہے؟ ہم ایک گھڑے سے پانی پیتے ہیں جس میں جونکیں بھی ہوتی ہیں۔ ہمارے سکول میں اساتذہ کی تعداد کبھی پوری نہیں ہوئی۔
کیا کوئی بجٹ میرے گھر کے صحن کو اور میری گلیوں کو پختہ کر سکتا ہے؟ کیا کوئی بجٹ ایسا ہوگا کہ میری ماں کو چولہے میں پھونکیں نہ مارنی پڑیں‘ میرے باپ کو اپنے علاج کے لیے سوزوکیوں کے ساتھ لٹک کر شہر نہ جانا پڑے اور کوئی ڈاکٹر گائوں کے قریب ہی میسر ہو۔ کھاد اور بیج کو ہر سال مہنگا کرنے والے اُن پر ٹیکس کیوں نہیں لگاتے جو ایوانوں میں بیٹھے ہیں اور جن کے گوشواروں میں اُن جاگیروں‘ اُن محلات‘ اُن کارخانوں اور اُن گاڑیوں کا ذکر نہیں ہوتا جن کے وہ مالک ہیں۔ کیا کوئی بجٹ ایسا ہوگا جو ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم کے اخراجات کے لیے اتنی رقم مختص کرے جتنی یورپی حکومتیں اپنے صدور اور وزرائے اعظم کی رہائش گاہوں کے لیے مختص کرتی ہیں؟ کتنے بجٹ آئے‘ کتنے سال گزرے‘ کتنی بار خوابیدہ ارکان اسمبلی نے ہاتھ اٹھا کر بجٹ پاس کیے‘ میرے گائوں کی سڑک‘ میرے گائوں کے کچے گھر‘ میرے گائوں کے بچے‘ میرے گائوں کے بوڑھے‘
جس حال میں تھے‘ اسی حال میں رہے! کیا میرا گائوں پاکستان ہی کا حصہ ہے؟ یا صرف بڑے بڑے شہروں کے چمکتے دمکتے پوش سیکٹر‘ فیز اور بلاک ہی اس ملک کی شناخت ہیں؟ کیا تمہارے ایوانوں میں میری اور میرے گائوں کی نمائندگی وہی خاندان کرتے رہیں گے جو تقسیم سے پہلے انگریزوں کے بنائے ہوئے ایوانوں میں کرتے تھے؟ کیا شہروں میں اوور ہیڈ برج اور انڈر پاس بنانے والوں کو اور میٹرو چلانے والوں کو معلوم ہے کہ میرے گائوں کی حالت میری پیدائش سے لے کر اب تک ویسی ہی ہے جیسی میرے باپ کے پیدائش کے وقت تھی۔ میرے گھر میں گوشت اُس دن پکتا ہے جس دن گائوں میں کوئی بیمار گائے یا بھینس ذبح ہوتی ہے۔ اکثر پھلوں کی میں نے آج تک شکل ہی نہیں دیکھی۔ سنا ہے کچھ لوگ پھلوں کا رس نوش کرتے ہیں جو گتے کے ڈبوں میں بند ہوتا ہے۔ سنا ہے ہمارے حکمرانوں کے دسترخوانوں پر چالیس چالیس کھانے ہوتے ہیں۔ میں تو دوپہر کو پیاز اور لسی کے ساتھ اور شام کو دال یا سبزی کے ساتھ کھانا کھاتا ہوں۔ تم کس بجٹ کی بات کر رہے ہو؟ کیا میں بجٹ دیکھ سکتا ہوں؟ کیا میں اسے چھو سکتا ہوں؟ کیا میں اسے الٹ پلٹ سکتا ہوں؟ کیا میں اسے اوڑھ سکتا ہوں؟‘‘
پہاڑی کے پیچھے سے ڈھلتی عمر کا ایک کسان نمودار ہوا۔ اس نے کم سن چرواہے کو باتیں کرتے دیکھا تو جیسے اپنے آپ سے کہا... ''اوئے‘ حمیدے کے پتر پر آج پھر دورہ پڑا ہے‘ اُس کے اندر سے جن بول رہا ہے‘‘۔
میں سوچنے لگا کہ یہ جن اقتصادیات کے اُن ماہرین کے اندر سے کب بولے گا جو بجٹ کے تجزیے کرتے ہیں!