بڑھیا سُوٹ کی انٹی لیے آئی تو بازارِ مصر کے امرا نے طعنہ دیا کہ کیا اس سے اس سراپا حُسن کو خریدو گی جس کا نام یوسف ہے؟ بڑھیا نے جواب دیا تھا کہ جانتی ہوں‘ اس انٹی سے خرید نہیں سکتی مگر کل خریداروں میں نام تو شامل ہو گا!
مصر کا بازار ہے نہ یوسف کی خریداری مگر منظر کچھ کچھ وہی ہے۔ آٹھ سالہ یوسف معین کی کل بچت پانچ ہزار روپے تھی۔ اس سے ٹینک کا ایک چھوٹا سا پرزہ تک نہیں خریدا جا سکتا۔ مگر اُس کے پاس تو یہی کچھ تھا ۔ اس نے یہی اپنی قومی فوج کے حضور پیش کر دیا کہ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے کچھ گولیاں تو اس میں آ جائیں گی۔
ہمارے وطن کی بھی کیا قسمت ہے ! ایک طرف لاہور کا یوسف معین اپنی آٹھ سالہ عمر کی کل کمائی وطن پر نثار کر رہا ہے اور دوسری طرف ایسے ابنائے حرص ہیں جو وطن کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ بھنبھوڑ رہے ہیں۔ جہازوں کے جہاز ڈالروں سے بھر کر‘ دساور‘ خفیہ کمین گاہوں میں بھیج رہے ہیں‘ وطن ڈھانچہ بن کر رہ گیا ہے۔ ماس کھایا جا رہا ہے‘ گوشت کا ایک ایک ریشہ تنور ہائے شکم میں منتقل ہو چکا ہے مگر شکم ہیں کہ بھرتے نہیں‘ گندے ‘ زرد‘ دانت بدستور نکلے ہوئے ہیں‘ تاہم ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ کھرے سے کھوٹا اور سفید سے سیاہ الگ کر دیا جائے گا ؎
دربارِ وطن میں جب اک دن سارے جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے ‘ کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
سعدی نے ایک ''عقل مند‘‘ کی حکایت بیان کی ہے ع
یکی برسرِ شاخ ‘بُن می بُرید
کہ ایک شخص ٹہنی پر بیٹھا‘ اسی ٹہنی کو کاٹ رہا تھا۔ آج جو لوگ اپنے ہی وطن کی محافظ فوج کو للکار رہے ہیں‘ یہ تو سوچیں کہ یہ فوج ان کی حفاظت نہ کرتی تو وہ کروڑوں اربوں کس طرح سمیٹتے۔چار دانگ عالم میں محلات کیسے خریدتے‘ شرق اوسط میں تعیش کے اڈے کیسے بناتے اور کراچی کو چراگاہ کی طرح کیسے استعمال کرتے؟ مجید امجد نے ''سپاہی‘‘ کے عنوان سے جو عظیم المرتبت نظم کہی ہے‘ ملک کے ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جسے ملک کی حرمت کا ذرا سا بھی احساس ہے:
تم اس وقت کیا تھے
تمہارے محلکوں تمہارے گھروں میں تو سب کچھ تھا
آسائشیں بھی‘ وسیلے بھی
اس کبریائی کی ہر تمکنت بھی!
سبھی کچھ تمہارے تصرف میں تھا
زندگی کا ہر اک آسرا بھی
کڑے بام و در بھی
خزانے بھی ‘زر بھی
چمن بھی‘ ثمر بھی
مگر تم خود اس وقت کیا تھے
تمہاری نگاہوں میں دنیا دھوئیں کا بھنور تھی
جب اڑتی ہلاکت کے شہپر تمہارے سروں پر سے گزرے
اگر اس مقدس زمیں پر مرا خوں نہ بہتا
اگر دشمنوں کے گرانڈیل ٹینکوں کے نیچے
مری کڑ کڑاتی ہوئی ہڈیاں خندقوں میں نہ ہوتیں
تو دوزخ کے شعلے تمہارے معطر گھروندوں کی دہلیز پر تھے
تمہارے ہر اک بیش قیمت اثاثے کی قیمت
اسی سرخ مٹی سے ہے جس میں میرا لہو رچ گیا ہے
اپنے لیڈر کی ہاں میں ہاں ملانے والوں میں کیا کوئی ایسا بھلے مانس نہیں جو ضمیر رکھتا ہو اور ضمیر کی آواز سن کر‘ دبے لفظوں ہی میں سہی‘ اتنا تو پوچھے کہ حضور! کراچی کا شہر‘ جو عالم میں انتخاب تھا‘ اب سارے کا سارا ''انڈر ورلڈ‘‘ میں بدل چکا ہے‘ آخر ذمہ دار کون ہے؟ الیس منکم رجل رشید‘ کیا ان میں کوئی رجلِ رشید نہیں؟ مگر جہاں باڑھ کھیت کو کھا رہی ہو‘ وہاں باڑھ سے کیا شکوہ کہ کھیت کی حفاظت نہیں کر رہی؟ جو حکومت کررہے ہیں‘ وہی شہر کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں جیسے ٹوکا گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے۔ جس سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی(SBCA) کے نام پر وفاق کی مداخلت کا ماتم کیا جا رہا ہے‘ کیا ملک کے ہر اخبار بین کو اور ہر ٹیلی ویژن دیکھنے والے کو نہیں معلوم کہ وہ کس کی جاگیر بنا ہوا ہے؟ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی یہ شکایت ریکارڈ پر ہے کہ اس ادارے کا سربراہ کراچی میں سب سے بڑا لینڈ مافیا چلا رہا ہے کہ اس نے گزشتہ آٹھ برس میں ایک مغربی ملک کے سینکڑوں سفر کیے ہیں اور جنوبی افریقہ سمیت بیرون ملک کئی مقامات پر جائیدادیں خریدی ہیں! اگر گلگت بلتستان سمیت ہر صوبے میں سوائے ایک کے‘ پارٹی کا صفایا ہوا ہے تو کیا جرائم چھپانے سے صورت حال بہتر ہو جائے گی؟ سچ سب کو معلوم ہو چکا ہے۔ کراچی کو کون کون بھون کر‘ تکے کبابوں کی طرح کھا رہا ہے‘ سب جان چکے ہیں ۔ ابراہام لنکن نے کہا تھا ۔
You Can Fool All the People Some of the Time, and Some of the People All the Time, But You Cannot Fool All the People All the Time.
تم کچھ وقت تک سب لوگوں کو بے وقوف بنا سکتے ہو‘ اور کچھ لوگوں کو ہمیشہ بے وقوف بنا سکتے ہو مگر یہ ممکن نہیں کہ سب لوگوں کو ہمیشہ بے وقوف بناتے رہو!
جب بھی قانون حرکت میں آتا ہے‘ عساکر کی زمینوں اور پلاٹوں کے بارے میں پریس کانفرنسیں شروع ہو جاتی ہیں؎
این گناہسیت کہ درشہر شما نیز کنند
یہ 2006ء کاواقعہ ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس تھا ۔ کرنل(ر) غلام رسول ساہی کمیٹی کی صدارت کر رہے تھے۔ لیاقت بلوچ اور آسیہ عظیم کمیٹی کے ارکان میں شامل تھے۔ مقدمہ یہ تھا کہ 1993-94ء میں اس وقت کی خاتون وزیر اعظم نے فوجی افسروں کو ایک درجن سے زیادہ قیمتی رہائشی پلاٹ الاٹ کئے تھے۔ یہ الاٹ منٹ غیر قانونی تھی۔ فیض یاب ہونے والوں میں زیادہ تعداد ان جرنیلوں کی تھی جن کی خوشی مطلوب و مقصود تھی! قومی خزانے کو ڈیڑھ کروڑ کا نقصان ہوا۔ (یہ بائیس سال پہلے کا نقصان ہے! آج کے حساب سے پانچ سو مربع گز کا پلاٹ دارالحکومت میں تین چار کروڑ کا ہے اور ان غیر قانونی پلاٹوں میں سے کچھ ایک ہزار گز سے بھی بڑے سائز کے تھے!)
کمیٹی نے ترقیاتی ادارے کو حکم دیا کہ ایف آئی اے سے انکوائری کرائی جائے۔1997ء میں میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے تو ان الاٹ منٹوں کو منسوخ کرنے کا حکم دیا۔ پھر جیسا کہ پاکستان میں ہوتا ہے‘ معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔
ان غلط بخشیوں پر کوئی پریس کانفرنس ہوتی ہے نہ احتجاج۔ مگر دوسروں پر اعتراض کرنے والے خود ہمیشہ وہی کچھ کرتے ہیں ؎
آپ کو کون تماشائی سمجھتا ہے یہاں
آپ تو آگ لگاتے ہیں چلے جاتے ہیں
ایسا بھی تاریخ میں کم ہی ہوا ہو گا کہ ایک جماعت پوری کی پوری لوٹ مار کی علامت بن گئی ہو۔ مسلمہ‘ غیر متنازعہ علامت۔ مگر اس شہرت پر نادم ہونے کے بجائے فخر کیا جا رہا ہو!