فیبرک

چھوٹی سی بات تھی! ایک ٹیلی فون کال سے شروع ہوئی مگر ایک عجیب جہان کھول کر سامنے رکھ دیا۔ دماغ پر اب تک حیرت چھائی ہے!
پرانا فرنیچر خریدنے والا یہ کاروباری نوجوان چند دن پہلے گھر آیا تھا۔ بیگم سودا سلف خریدنے ساتھ والی مارکیٹ گئی تھیں اور ہدایت کر گئی تھیں کہ فرنیچر خریدنے والا آئے گا‘ فلاں چیزوں کا سیٹ لے جائے گا اور اتنی رقم دے گا! بہت پہلے عقل آ گئی تھی کہ پرانا فرنیچر ٹھکانے لگا کر نیا خریدنا اور ہر کچھ دن بعد کمروں اور بیٹھک (ڈرائنگ روم) کی سیٹنگ تبدیل کرنا خواتین کا وہ بنیادی حق ہے جسے ان سے کوئی نہیں چھین سکتا! ہر شادی شدہ شخص جس قدر جلد اس حقیقت کو قبول کر لے‘ اس کے حق میں بہتر ہے!
نوجوان آیا‘ متشرع شکل و صورت‘ باادب‘ تمیزدار‘ کوئی بھائو تائو نہ کیا۔ رقم دی‘ سامان اٹھایا اور چلا گیا۔ ہاں جاتے ہوئے فون نمبر دے گیا کہ جب بھی اس شعبے کا کوئی کام ہو تو وہ حاضر ہے۔ دوسرے تیسرے دن ہی کام پڑ گیا۔ گھر کے ایک کمرے میں‘ جسے میں لائبریری کہنے پر مصر ہوں اور گھر والے اسے سٹور سمجھتے ہیں‘ ایک بے حد پرانا صوفہ پڑا ہے جو خواتین کی انقلابی اور عقابی نظروں سے نہ جانے کس طرح بچا ہوا ہے۔ سوچا اس کا کپڑا (پوشش) تبدیل ہو جائے تو اس کی کثافت اور پرانے پن میں فرق پڑ جائے گا۔ نوجوان کو فون کیا اور کہانی ڈالی‘ کہنے لگا۔ انکل‘ تھوڑی دیر میں فون کرتا ہوں‘ ذرا انتظار کیجئے۔
کئی پہر گزر گئے‘ فون نہ آیا تو دوبارہ رابطہ کیا۔ بہت ہی آہستگی سے کہا کہ نوجوان! آپ نے وعدہ کیا تھا کہ ابھی فون کریں گے‘ میں انتظار کرتا رہا۔ متشرع نوجوان کا ردعمل عجیب تھا: ''انکل! ایسی بات نہیں! میں نے وعدہ نہیں کیا تھا۔ میں نے تو بات کی تھی‘‘۔ پھر خود ہی تشریح کی کہ وعدہ پورا نہ کرنے والا منافق ہوتا ہے‘ بات پوری کرنا ضروری نہیں ہوتا!
بات آئی گئی ہو گئی۔ معمولی سا واقعہ تھا مگر غور و فکر کی ایک دنیا کا دروازہ کھول گیا۔ معاشرے کا اصل فیبرک ایسے ہی معمولی واقعات سے سامنے آتا ہے۔ تار و پود کی اصلیت معلوم ہوتی ہے۔ آج کل ہمارے ہاں کاروبار چمکانے کا ایک نیا طریقہ نکلا ہے: ''جناب قمیض پاکستان کی بنی ہوئی ہے مگر فیبرک اطالوی ہے‘‘ ہمارے معاشرے کا فیبرک کس چیز سے بنا ہے؟ معاشرہ‘ مجموعی طور پر‘ کس رُخ کو جا رہا ہے؟ اصلاح کی کوئی بھی کوشش کامیاب کیوں نہیں ہو رہی؟ فکر والوں کے لیے ان سوالوں میں نشانیاں ہیں۔ منیر نیازی بھی کہاں یاد آ گیا ؎
کوئلیں کوکیں بہت دیوارِ گلشن کی طرف
چاند چمکا حوض کے شفاف پانی میں بہت
رات دن کے آنے جانے میں یہ سونا جاگنا
فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت
کیا وجہ ہے کہ بظاہر مذہبی نظر آنے والا شخص تاویل کا رسیا ہوتا ہے؟ اسے معلوم ہے وعدہ پورا نہ کرنا منافقت ہے؛ چنانچہ وہ تاویل کرتا ہے کہ وعدہ نہیں کیا تھا۔ بات کی تھی۔ ہر مذہبی شخص اپنی ذات میں ایک اتھارٹی ہے۔ وہ کوئی فرمان بھی جاری کر سکتا ہے! امریکہ میں رہنے والے ایک صاحب ہنس ہنس کر بتا رہے تھے کہ مبلغین حضرات کو کوئی کام سونپا جائے تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ وعدہ نہیں کر سکتے۔ چونکہ معلوم ہے کہ وعدہ خلافی جرم ہے‘ اس لیے وعدہ کیا ہی نہ جائے۔ دوسرے لفظوں میں کسی کے کام نہ آئیے: ''میں چند دن کے لیے شہر سے باہر جا رہا ہوں‘ میرے مکان کا خیال رکھیے گا‘‘... ''نہیں! جناب میں وعدہ نہیں کر سکتا!‘‘ وعدہ خلافی کا راستہ تو مسدود ہو گیا مگر کیا کسی کے کام نہ آنے پر کوئی مواخذہ نہیں ہو گا؟
معاشرہ افراد سے بنتا ہے۔ حکومت‘ ریاست‘ سیاست یہ سب بعد کے مرحلے ہیں۔ عام آدمی معاشرے کی بنیاد ہے بلکہ بنیادی اکائی ہے۔ تھوڑا غور کیجئے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ترقی یافتہ معاشروں کے عام آدمی میں‘ یعنی فرد میں چار بنیادی اوصاف ہیں‘ جن سے ہم محروم ہیں۔
اول: وہ جب ڈیوٹی پر ہوتا ہے‘ ذاتی کام کسی حوالے سے بھی نہیں کر سکتا۔ بجا کہ قانون سخت ہے مگر قانون کی اس سختی نے اسے اس طرح ڈھال دیا ہے کہ اب یہ دیانت داری اس کی فطرت بن گئی ہے۔ وہ دفتر یا کمپنی یا فیکٹری کے انٹرنیٹ سے ذاتی ای میل تک نہیں کر سکتا۔ ڈیوٹی کے دوران اخبار پڑھ سکتا ہے نہ مہمانوں کی پذیرائی کر سکتا ہے۔ آسٹریلیا کے صوبے نیو سائوتھ ویلز میں ایک وزیر صاحب اس ''جرم‘‘ میں برطرف کیے جا چکے ہیں کہ انہوں نے سرکاری لیٹر پیڈ پر کسی کی سفارش کرتے ہوئے ایک سرکاری عہدیدار کو ذاتی خط لکھا تھا!
دوم: اس بات کا تصور ہی محال ہے کہ ڈیوٹی پر چند منٹ بھی تاخیر سے پہنچا جائے۔ بڑے سے بڑا ڈاکٹر‘ وزیر‘ بیوروکریٹ‘ کمپنی کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر یا چھوٹے سے چھوٹا اہلکار‘ چوکیدار ریسپشن پر بیٹھنے والی بی بی‘ کائونٹر پر بیٹھنے والا کیشیئر‘ ٹرالیاں ڈھو کر سپر مارکیٹ کے اندر لانے والا ورکر‘ یا سکیورٹی کا بڑا سربراہ۔ جو کوئی بھی ہے‘ جس حیثیت کا بھی ہے‘ جس سطح کا بھی ہے‘ ایک منٹ تاخیر سے نہیں آتا ‘نہ ہی تاخیر سے آنے کا تصور موجود ہے۔
سوم: یہ تو دو وہ اوصاف تھے جو ڈیوٹی کے حوالے سے ہیں۔ تیسرا وصف ذاتی حوالے سے ہے۔ ذاتی زندگی میں جھوٹ بولنے کا کوئی تصور نہیں! جو پوچھیں گے‘ صاف بتا دے گا۔ ذاتی زندگی کے بارے میں کرید کرید کر سوال پوچھنے کا کلچر موجود ہی نہیں‘ یہ ایک الگ پہلو ہے۔ کوئی آپ سے آپ کی تنخواہ پوچھتا ہے‘ نہ عمر‘ نہ آپ کی خاندانی نجی زندگی کے بارے میں سوالات کہ جواب میں جھوٹ بولنا پڑے‘ مگر اس سے قطع نظر بھی جھوٹ معاشرے کے فیبرک میں نہیں پایا جاتا۔
چہارم: وعدہ خلافی کا وجود ہی نہیں! ان لوگوں نے یہ حدیث سنی‘ نہ ان کا اس پر ایمان ہے کہ منافق کی تین علامات ہیں: بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے‘ وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے اور امانت سونپی جائے تو خیانت کرتا ہے۔ مگر اس کے باوجود‘ وعدہ خلافی کا کوئی تصور نہیں! اگر کہا ہے کہ شام پانچ بجے آئے گا یا فون کرے گا یا ای میل کرے گا تو موت کے علاوہ شاید ہی کوئی اور شے رکاوٹ بنے۔ مال فلاں وقت سپلائی ہو گا‘ بالکل سپلائی ہو گا‘ ورنہ اطلاع آ جائے گی کہ فلاں وقت کے بجائے فلاں وقت سپلائی ہو گا۔ ڈاکٹر مقررہ وقت پر مریض کو نہیں دیکھ سکتا‘ تو مریض کو بروقت مطلع کیا جائے گا۔ ایئرلائن مسافروں سے رابطے میں رہتی ہے۔ ٹیلی فون وہاں ایک ایسا آلہ ہے جسے زندگی کو منظم‘ آرام دہ اور ہموار گزارنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور خوب کیا جا رہا ہے! یاد دہانی کے لیے نہیں! بلکہ یہ بتانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے کہ مطلوبہ کام ہو گیا ہے یا مطلوبہ اطلاع حاضر ہے!
یہ ہے معاشرے کا فیبرک‘ یہ ہے معاشرے کا تار و پود! یہ ہے وہ دھاگہ جس سے روزمرہ زندگی کی چادر بُنی جاتی ہے۔
ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک لحظہ کے لیے سوچیے ہم بائیس کروڑ ہیں‘ کیا بائیس کروڑ افراد پر بائیس کروڑ پولیس فورس کا تعین ممکن ہے؟ سیاست دانوں کو‘ لیڈروں کو‘ علماء اور واعظین کو‘ میڈیا کو کیا الزام دے سکتے ہیں؟ اور کیسے دے سکتے ہیں؟ انسان اور جانور میں بنیادی فرق کسی لیڈر‘ کسی استاد‘ کسی پیر‘ کسی عالم دین‘ کسی واعظ‘ کسی سیاست دان‘ کسی لکھاری کا محتاج نہیں! ان پڑھ بھی اور کچھ نہیں تو انسان تو ہے! کیا اسے معلوم نہیں کہ وعدہ پورا کرنا ہو گا‘ جھوٹ نہیں بولنا!!
میں اگر اپنے کیے ہوئے وعدے کا ذمہ ہی نہیں لیتا‘ میں اگر جھوٹ بولتا ہوں اور میرے اہل خانہ کے نزدیک یہ سب کچھ معمول کا حصہ ہے تو میں اس دھاگے کو کاٹ رہا ہوں جس سے معاشرے کی چادر بُنی جانی ہے! میں اس بخیے کو ادھیڑ رہا ہوں جس نے کپڑے کے ٹکڑوں کو جوڑ کر قمیض بنائی ہے۔ میں اپنے پیٹ پر پڑے ہوئے کپڑے کو خود تار تار کر رہا ہوں اور ننگا ہو رہا ہوں!
آپ اندازہ لگائیے‘ ہم میں سے ہر شخص اگر آج خدا اور رسولؐ کی اور اپنے ماں باپ کی عزت کی قسم اٹھا کر اپنے آپ سے وعدہ کرے کہ آج کے بعد وہ (1) اپنی ڈیوٹی پر بروقت پہنچے گا‘ 
(2) ڈیوٹی کے اوقات میں کوئی ذاتی کام نہیں کرے گا۔ (3) کسی صورت میں جھوٹ نہیں بولے گا اور (4) موت کے علاوہ کوئی شے اسے وعدہ پورا کرنے سے نہیں روکے گی‘ تو آپ اندازہ لگائیے‘ ہم ایک ہی جست میں کہاں سے کہاں پہنچ جائیں گے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں