میرے سامنے اخبار ہے۔ اخبار میں ایک تصویر ہے۔ یہ تصویر مشرق وسطیٰ کے ایک ملک کی ایک حکومتی تقریب کی ہے۔ اس اعلیٰ سطح کی تقریب میں سب سے آگے بلاول زرداری اور ان کی بہن بختاور زرداری تشریف فرما ہیں۔ ان کے دائیں طرف اور ان کے بائیں طرف اور ان کے عقب میں اُس ملک کے اعلیٰ ترین پولیس افسران بیٹھے ہیں۔ تصویر یہ نہیں بتا سکتی کہ دائیں بائیں اور پیچھے بیٹھے ہوئے یہ اعلیٰ پولیس افسران بہن بھائی کی حفاظت کے لیے چوکس بیٹھے ہیں یا اس تقریب کے مہمان ہیں!
گناہ تو ہمارے بے شمار ہیں مگر یہ نہیں معلوم کہ دوسرے ملکوں کی اعلیٰ سطح کی تقاریب میں اگر ہماری نمائندگی اب ان شہزادوں اور شہزادیوں نے کرنی ہے تو یہ کس گناہ کی پاداش ہے۔ اور اگر ایسی تقاریب میں یہ ملک کے نمائندوں کی حیثیت سے نہیں بیٹھے تو کس حیثیت سے بیٹھے ہیں!
ہم ملکی حیثیت سے کس سطح پر گر چکے ہیں، اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ پورا ملک اس معمّے کو حل کرنے کی کوشش میں لگا ہے کہ زرداری صاحب نے کمانڈر ان چیف کی توسیع کے حق میں بیان دیا ہے یا نہیں! سیاسی جماعتوں کی غلامی کی انتہا دیکھیے! پہلے ایم کیو ایم اپنے قائد کے ارشادات عالیہ کی تشریح‘ توضیح اور توجیہہ میں لگی رہتی تھی۔ اگر الطاف بھائی دن کو رات کہتے تھے تو ایم کیو ایم کے رہنما‘ لوگوں کو دکھاتے تھے کہ وہ رہے ستارے اور وہ رہا چاند! پھر چند گھنٹوں بعد الطاف بھائی اپنے بیان سے لاتعلقی کا اظہار فرماتے تھے تو فاروق ستار بھائی سے لے کر وسیم بھائی تک سب ثابت کرنے لگ جاتے تھے کہ یہ تو دن ہے اور دوپہر ہے اور وہ سورج ہے اور وہ بادلوں کے ٹکڑے حرکت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اب ہم نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ جناب زرداری کا مستقر بھی بیرون ملک چلا گیا ہے۔ یہ مستقر دبئی کے جزیرے سے اوقیانوس کے ساحلوں تک
پھیلا ہوا ہے۔ گزشتہ شام ہر ٹی وی چینل پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کو ساتھ لیے یہ معمہ حل کرنے کی کوشش میں لگا تھا کہ بیان دیا گیا ہے یا نہیں! بیان کس نے دیا؟پھر صوبائی اسمبلی میں قرار داد بھی پیش کر دی گئی! اینکر حضرات کی پھرتیاں اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی آئیں بائیں شائیں دیکھنے کے قابل تھی! کیا ہم! اور ہماری سیاسی جماعتیں! یہ سیاسی جماعتیں سچ پوچھیے تو ہاریوں، مزارعوں اور غلاموں پر مشتمل ہیں۔ یہ دست بستہ حلقہ بگوش اور پابہ زنجیر رہنما مجبور ہیں کہ اپنے آقائوں کے ہر فرمان پر آمنا و صدقنا کہیں۔ زرداری صاحب کمانڈر ان چیف کی توسیع کی بات کریں تو اسمبلیوں میں قرار دادیں پیش کر کے زرداری صاحب کے بیان کو چار چاند لگائیں۔ جیسے ہی تردید آئے، یہ دست بستہ ملازم بڑا سا یو ٹرن لیں اور ایک سو اسی ڈگری پر رُخ پھیر کر مغرب کو مشرق اور جنوب کو شمال ثابت کرنے کے لیے دلائل کی نئی پوٹلی کھول لیں۔ فاعتبرو یا اولی الابصار! عبرت پکڑنے کے لیے اور کون سا موقع ہو گا۔
آہ! یہ پارٹیاں، یہ سیاسی رہنما، یہ سفید سروں والے چہروں پر جھریاں رکھنے والے عمر رسیدہ سیاست دان کس قدر مجبور ہیں۔ افسوس! ان کی زندگیاں، ان کی سرگرمیاں، ان کے شب و روز بلاولوں، بختاوروں، حمزہ شہبازوں اور دیگر شہزادیوں کے اردگرد گھومتے ہیں۔ ان کی اپنی کوئی رائے نہیں۔ ان کا اپنا کوئی سیاسی فلسفہ نہیں۔ ان کے ذہنوں میں قوم کی ترقی کا کوئی پروگرام نہیں۔ یہ سب اپنے آقائوں کی آوازوں کی گونج ہیں۔ یہ بھونپو ہیں۔ یہ اصل نہیں، عکس ہیں، یہ جینوئن نہیں، یہ وہ سیکنڈ ہینڈ پرزے ہیں جو کباڑیوں کی دکانوں میں پڑے ہوئے جعلی پرزوں سے بھی زیادہ
بے وقعت ہیں۔ کیا آپ نے ان میں سے کسی کو زرعی اصلاحات پر، تعلیمی نظام پر، ٹیکس کا نیٹ بڑھانے پر، سرکاری سکولوں کی حالتِ زار پر، ناخواندگی پر، بولتے یا کوئی پروگرام پیش کرتے دیکھا ہے؟ ان کی زندگیوں کا مقصد یہ ہے اور صرف یہ ہے کہ جب حکم پہنچے تو دبئی کا ٹکٹ دوسروں سے پہلے لیں اور بریف کیس اٹھائے، مجسم اٹیچی کیس ہو کر، خدمت میں حاضری دیں۔ اور صرف دبئی کیوں، یہ قافلے تو ہر سمت رواں رہتے ہیں۔ پشاور، ڈی آئی خان، رائے ونڈ، لاہور، گجرات اور اب اس سنہری فہرست میں بنی گالا کا نام بھی آنے لگا ہے۔ ہاں! اگر بنی گالا والوں نے پارٹی میں الیکشن حقیقی بنیادوں پر کرا لیے اور پارٹی میں دست بستہ حلقہ بگوشوں کے بجائے دماغ اور زبان رکھنے والے کارکنوں کو ان کا جائز مقام دیا تو یہ اس ملک کی جماعتی سیاست میں ایک نئی کھڑکی ہو گی جو ذہنی پختگی کی طرف کھلے گی۔ ورنہ یہ جماعت بھی ماتحتوں کا ایک گروہ ہی ثابت ہو گی۔
کیا ہم! کیا ہمارے وژن! کیا ہمارے حکمران اور کیا ہماری پالیسیاں۔ دنیا کے سر اٹھا کر چلنے والے ملکوں کے حکمران، عوام اور میڈیا کن موضوعات پر بحث کر رہے ہیں! یہ کہ ان کی ترقی کی شرح میں اضافہ کس طرح ہو؟ زرعی پیداوار بڑھانے کے نئے ماڈل کون کون سے ہیں؟ کن نئی ادویات پر ریسرچ ہو رہی ہے؟ عوام کو ریلیف دینے کے لیے کون کون سے ٹیکس کم کیے جائیں؟ بچوں کو سکولوں میں ریاست کی طرف سے مزید کون کون سی سہولیات دی جا سکتی ہیں؟ معمر شہریوں کو مزید الائونس کون کون سے دیئے جائیں۔ ریٹائرڈ بزرگوں کے لیے ماڈل بستیاں کہاں کہاں بنانی ہیں؟ یونیورسٹیوں کو تحقیق کے لیے مزید فنڈز کتنے دیئے جائیں؟ اس کے مقابلے میں ہمارا میڈیا، ہمارے عوام اور ہمارے حکمران کن سوچوں میں غلطاں ہیں! یہ کہ نیب کے پر کیسے کاٹے جائیں؟ مردم شماری سے لے کر دہشت گردی کے خاتمے تک ہر اُس کام میں فوج کو کیسے کھینچ کر لایا جائے جو سول اتھارٹی کے کرنے کا ہے؟ بجلی کی قیمت مزید کیسے بڑھائی جائے؟ پرویز مشرف صاحب کی صحت کا تازہ ترین بلیٹن کیا ہے؟ ووٹر فہرستوں پر خواتین کی تصویریں چھاپنی ہیں یا نہیں؟ واپڈا میں کی گئی بھرتیاں کالعدم کرنی ہیں یا نہیں؟ کیبل آپریٹرز کی ہڑتال کتنے گھنٹوں پر مشتمل ہو؟ ایان علی نے عدالت میں آتے وقت کون سا لباس زیبِ تن کر رکھا تھا؟ ڈاکٹر عاصم نے واسکٹ کس رنگ کی پہن رکھی تھی؟ وفاقی دارالحکومت کا نومنتخب میئر، صوبے کے وزیر اعلیٰ کو ملا ہے یا نہیں؟ اور معذوروں کو سپلائی ہونے والے ناقص یونیفارموں اور جوتوں سے کتنی ''آمدنی‘‘ ہوئی ہے؟ یہ ہے ہماری سطح، اور معیار اور یہ ہیں وہ سرگرمیاں جن میں پوری قوم مصروف ہے۔
ہماری ترقی کا اندازہ کوئی اس سے لگائے کہ 69 برس پہلے انگریز سرکار ہمارے لیے لاہور اور راولپنڈی میں ریلوے سٹیشن بنا گئی تھی جن میں ایک پلیٹ فارم سے دوسرے، تیسرے یا چوتھے پلیٹ فارم پر جانے کے لیے سیڑھیاں بھی شامل تھیں۔ آج جب گئے گزرے ملکوں میں بھی برقی سیڑھیاں (Escalators) عام ہیں، ہمارے ریلوے سٹیشنوں پر یہ پرانی، ٹوٹی پھوٹی، گڑھوں سے اٹی ہوئی، تھکا دینے والی سیڑھیاں مسافروں کا منہ چڑا رہی ہیں۔ کوئی بھاگ کر پٹڑی عبور کر رہا ہے اور کوئی عمر رسیدہ عورت کسی کی منت کر رہی ہے کہ یہ صندوق سیڑھیوں سے پار کرا دو۔ حکمران ریلوے سے سفر ہی نہیں کرتے، رہے ریلوے کے حکام تو ان کے وہ سیلون اب بھی دادِ حکمرانی دے رہے ہیں جن میں کبھی لارڈ کرزن اور رچرڈ ولسن اکڑ کر بیٹھا کرتے تھے اور رعایا(Natives) نزدیک نہیں پھٹک سکتی تھی۔
Gulliver`s Travels بہت مشہور کتاب ہے۔ ہم میں سے اکثر نے یہ پڑھی ہو گی یا اس سے متعارف ہوں گے۔ اس کے مصنف کا نام Jonathan Swift تھا۔ اُس زمانے کے برطانیہ کی سیاسی پارٹیاں چھوٹے چھوٹے مذہبی معاملات پر بحث مباحثہ میں پڑی رہتی تھیں، سوفٹ نے اپنی کتاب میں اس پر طنز کیا تھا اور مسئلہ یہ پیش کیا تھا کہ انڈا کس طرف سے توڑا جائے؟ بڑے کنارے سے؟ یا چھوٹے کنارے سے؟ اس کتاب کو شائع ہوئے تقریباً تین سو سال گزر چکے ہیں۔ ان تین صدیوں میں برطانیہ کہاں سے کہاں جا پہنچا۔ آج لندن میں بسنے کی آرزو کرنے والے لوگ کروڑوں میں ہیں۔ ہم نے ان تین صدیوں میں یہ ترقی کی ہے کہ اس وقت مغلوں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔ تیس چالیس برس سکھوں کے دربار میں دست بستہ رہے۔ پھر ہم عید کے دن طرے اونچے کیے انگریز ڈپٹی کمشنروں کے بنگلوں پر حاضر ہوتے تھے اور لان میں کھڑے ہو جاتے تھے۔ اندر سے ڈپٹی کمشنر کا ملازم آ کر خوش خبری دیتا تھا کہ صاحب نے آپ کی عید مبارک قبول کر لی ہے۔ اس پر ہم ایک دوسرے کو گلے مل کر مبارکبادیں دیتے تھے۔ آج ہم بلاول ہائوس اور جاتی امرا میں حاضر ہوتے ہیں۔ ؎
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں سے
رعیّت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے