خواجہ سعد رفیق محنت کر رہے ہیں۔ وقت کی کوئی قید نہیں! پاکستان ریلوے کے مالیات کے سربراہ جناب غلام مصطفی کو‘ کہ دیرینہ دوست ہیں‘ شام آٹھ بجے فون کیا۔ معلوم ہوا کہ مصروف ہیں اس لئے کہ وزیرریلوے ایک بین الاقوامی ادارے کے ساتھ ابھی تک میٹنگ میں ہیں اور یہ بھی وہیں ہیں!
اس میں کیا شک ہے کہ خواجہ سعد رفیق رات دن ریلوے کی حیات نو کے لیے کام کر رہے ہیں‘ وہ ڈوبی ہوئی ریلوے کو پانی کی سطح پر لے آئے ہیں۔ موت کے منہ سے ادارے کو واپس کھینچ لائے ہیں۔ مگر نچلی سطح کی نوکرشاہی ریلوے کی جڑوں میں بیٹھی ہوئی ہے۔ اس کا کیا کریں گے؟ ریلوے ملازمین کا مائنڈ سیٹ کیسے درست کریں گے؟ کلرک شاپس کا کیا علاج ہوگا؟
ریلوے پر سب سے بڑا بوجھ اس کے اپنے ملازمین کا ہے۔ یہ ملازمین اور ان کے خاندان ریلوے کو اس دیمک کی طرح کھا رہے ہیں جو دیوار کو اندر اندر ہی سے کھا جاتی ہے۔ بے شک دیوار پر رنگ و روغن کرتے رہیں۔ اندر سے کھوکھلی ہو جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے پی آئی اے کے ساتھ ہوا۔ وہ سفر نہیں بھولتا جو پاکستان کی قومی ایئرلائن کے طیارے میں بنکاک تک کیا۔ بزنس کلاس‘ ایئرلائن کے اپنے ملازمین سے بھری تھی۔ دو تین ان میں جاننے والے تھے‘ معلوم ہوا کہ بنکاک میں کوئی تربیتی کورس ہے۔ لاکھوں روپے کرایہ دینے والے اکانومی میں بیٹھے تھے۔ پوری دنیا میں نشستیں اپ گریڈ ہو جاتی ہیں مگر یہاں فوقیت‘ اپنے ملازمین کو‘ جو دراصل طفیلی ہیں یعنی مفت خورے‘ دی جاتی ہے۔ شور اتنا کر رہے تھے‘ شاید چُہلوں کا تھا‘ جیسے کوئی پارٹی ہو رہی ہو! نتیجہ وہ مالی دیوالیہ پن ہے جس میں ایئرلائن مبتلا ہے!
پاکستان ریلوے کو اسی پر قیاس کر لیجئے۔ اگرچہ باہر سے بھی مصیبتیں نازل ہوئیں۔ جنرل ضیاء الحق نے ریلوے کو این ایل سی کے جبڑوں میں دھکیل دیا۔ جو جرنیل این ایل سی کا انچارج تھا وہی ریلوے کا وزیر بنا دیا گیا۔ گویا بلی دودھ کی رکھوالی بن گئی۔ این ایل سی کا کام شاہراہوں کے ذریعہ کارگو یعنی سامان کی نقل و حرکت تھا۔ این ایل سی سے پہلے کارگو کا سب سے بڑا ذریعہ پاکستان ریلوے تھی۔ ریلوے اسی طرح کامیابی سے کارگو ڈھوتی رہتی تو این ایل سی کا چراغ کیسے جلتا؟ چنانچہ لازم تھا کہ ریلوے کو کارگو سے بے دخل کیا جائے؛ جنانچہ بے دخل کیا گیا۔ ریلوے کا این ایل سی نے وہی حال کیا جو جون ایلیا کے عشق کا ہوا ؎
اس کی امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجئے‘ عمر گزار دی گئی!
اس کے وصال کے لیے‘ اپنے کمال کے لیے
حالتِ دل کہ تھی خراب‘ اور خراب کی گئی
جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں بھی اس قسم کی مصیبتیں ریلوے پر باہر سے نازل ہوتی رہیں۔ ملائیشیا کے حوالے سے گالف کلب کا سکینڈل اسی عہدِ ہمایونی میں پیش آیا۔
مگر اصل افتاد ریلوے پر اس کے ملازمین کا بوجھ ہے۔ انگریزوں کے زمانے سے ایک روایت چلی آ رہی تھی کہ ریلوے کا افسر دورے پر جائے تو فیملی بھی ساتھ مفت سفر کر سکتی ہے۔ یہ روایت ختم ہو جانی چاہیے تھی مگر فیملی ''پاس‘‘ کی صورت میں بدستور زندہ ہے۔ آپ ریلوے کی اپرکلاسوں کے ڈبوں میں کسی دن سروے کرکے دیکھ لیجئے۔ ملازمین اور ان کے اہل خانہ کی بھاری تعداد سفر کر رہی ہوگی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان پاسوں کی تعداد ذرا سی کم ہو جاتی ہے مگر پھر بھی سال میں کئی سفر مفت کے ہوتے ہیں۔ صرف ایک مثال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ریلوے کی نوکر شاہی ریلوے کے بزنس کو کس طرح لات مار رہی ہے۔ اس وقت راولپنڈی اور لاہور کے درمیان چوبیس گھنٹوں کے دوران دس ریل کاریں چل رہی ہیں۔ صبح سات بجے‘ شام چار بجے‘ شام چھ بجے‘ رات گیارہ بجے اور پھر رات ایک بجے۔ راولپنڈی اور لاہور سے روانگی کے اوقات یکساں ہیں‘ ہر ریل کار میں ایک ڈبہ نسبتاً بہتر نشستوں پر مشتمل ہوتا ہے جسے پارلر کہتے ہیں۔ پارلر میں صرف درمیانی آٹھ نشستوں کے ساتھ میز کی سہولت ہے اور موبائل فون یا لیپ ٹاپ کو چارج کرنے کے لیے پلگ کی گنجائش بھی ہے۔ یہ آٹھ بہتر نسل کی نشستیں ریلوے کے ملازمین کے لیے عملی طور پر مخصوص ہو گئی ہیں۔ آپ اگر دس دن پہلے بھی نشستیں محفوظ کرانے کے لیے جائیں گے اور یہ نشستیں یا ان میں سے کوئی ایک نشست مانگیں گے تو نہیں دی جائیں گی۔ جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو ایم این ایز کے لیے مخصوص ہیں۔ ایم این اے کوئی بھی پنڈی سے لاہور یا لاہور سے پنڈی ریل سے نہیں جاتا۔ یہ نشستیں یا تو خالی جاتی ہیں یا ان پر ریلوے کے ملازمین‘ ان کے اہلخانہ اور ان کے احباب سفر کرتے ہیں۔ ان 80 نشستوں سے فی نشست نو سو دس روپے کے حساب سے ایک دن رات کے تقریباً 73 ہزار روپے اور ایک مہینے کے اکیس لاکھ چوراسی ہزار روپے بنتے ہیں۔ سال کے حساب سے یہ آمدنی دو کروڑ باسٹھ لاکھ روپے بنتی ہے۔ بجائے اس کے کہ ریلوے ان نشستوں کو پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر کمرشل طریقے سے بیچے‘ یہ نشستیں خودغرضی اور اقربا پروری کی نذر ہو رہی ہیں‘ یہاں تک کہ ریٹائرڈ کلرک بھی ان کے استحقاق سے حظ اٹھا رہے ہیں‘ جبکہ کروڑوں روپے کا ریونیو دینے والے عام مسافروں سے سردمہری کا کلرک شاہی سلوک کیا جا رہا ہے۔ اگر کوئی اور ملک ہوتا تو ریلوے کے ملازمین کے لیے اس قسم کی نشستوں پر پابندی عائد ہوتی کیونکہ ریلوے کے ملازمین ریلوے کی آمدنی بڑھانے کا نہیں گھٹانے کا سبب بن رہے ہیں۔ ریلوے ان نشستوں کے لیے دوسری نشستوں کی نسبت زیادہ کرایہ بھی مانگ سکتی ہے۔ اسی طرح اعلیٰ کوالٹی کی انتظارگاہیں بھی‘ جنہیں وی آئی پی انتظار گاہ کہا جاتا ہے‘ صرف ریلوے کے افسروں کے لیے کھولی جاتی ہیں۔ انہیں بھی کمرشل طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اگر سو روپے فی گھنٹہ کا نرخ رکھیں تو جو یہ فیس دے‘ انتظار گاہ استعمال کرے۔ پوری دنیا میں یہ کمرشل سرگرمیاں اسی حساب اور اسی انداز سے سرانجام پاتی ہیں۔
رچرڈ اور ہیری سن کے زمانے کے افسرانہ اور نسلی امتیاز والے سیلون ابھی تک چل رہے ہیں۔ ایک افسر کا سیلون ٹرین کے ساتھ لگنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک پورا ڈبہ نکال دیا جائے۔ اس ڈبے میں بیٹھنے والے مسافروں کے کرائے کا حساب لگا لیجیے۔ ایک مہینے میں اور ایک سال میں کتنے سیلون کتنے کروڑ روپوں کا نقصان کر رہے ہیں؟ اس پر ریلوے نے شاید ہی کوئی سٹڈی کی یا کرائی ہو!
خواجہ سعد رفیق بے شک چوبیس گھنٹوں کے بجائے چھتیس گھنٹے کام کریں‘ جب تک کچھوے کے اوپر سے بھاری بھر کم زرہ نما کھال نہیں کھینچی جائے گی‘ مالی تیزرفتاری محال ہوگی! ریلوے کی کلرک شاہی اور اہلکاروں کے مافیا کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ وزیر محنت کر رہا ہے‘ قوم کا یہ ادارہ بچانا چاہتا ہے اور گراف کو اوپر لے جانا چاہتا ہے۔ ان کے ذہن چھوٹے ہیں اور تنگ ہیں! ان کی کامیابی کا احساس (Sense of Achievement) اتنا ہی ہے کہ ان کے رشتہ دار یا دوست اور ان کے اہلخانہ بہترین نشستوں پر سفر کریں۔ ہو سکے تو یہ سفر مفت ہو۔ ساتھ پروٹوکول بھی ملے اور مفت کھانا پینا بھی۔ مگر یہ مائنڈ سیٹ وہ دیمک ہے جو ریلوے کی اٹھان کے آگے سدراہ بنا ہوا ہے۔
ایک طرف آمدنی کے مواقع ضائع کیے جا رہے ہیں‘ لاکھوں نشستیں ملازمین اور ریٹائرڈ ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ کی نذر ہو رہی ہیں‘ دوسری طرف لاہور ریلوے سٹیشن پر سینکڑوں سال پرانی سیڑھیاں اب بھی جوں کی توں قائم ہیں‘ بوڑھے اور لاچار مسافر سامان اٹھائے ان سیڑھیوں پر کراہتے‘ ہانپتے اور ریلوے کو کوستے ہیں‘ یہاں برقی سیڑھیاں (Escalators) ہونی چاہئیں اور کئی سال پہلے لگ جانی چاہیے تھیں‘ راولپنڈی ریلوے سٹیشن پر بھی جبری مشقت کا یہی عالم ہے۔ آن لائن بکنگ کی سہولت بھی ناپید ہے!
ایک صاحب کمرے میں بیٹھے سُوپ پینے کی مشقت کر رہے تھے۔ سُوپ تھا کہ ختم ہونے میں آ ہی نہیں رہا تھا! اس لیے کہ چھت ٹپک رہی تھی اور قطرہ قطرہ پانی مسلسل سُوپ کے پیالے میں گر رہا تھا۔ خواجہ سعد رفیق خون پینے والی جونکوں سے نجات کا بندوبست کریں‘ چھت کی مرمت ضروری ہے۔ ورنہ سُوپ پینے کی مشقت جاری رہے گی!!