کچھ یورپی ممالک ایسے ہیں جہاں عوامی مقامات پر برقع اوڑھنے پر پابندی ہے۔ اگر متحدہ عرب امارات کے شہری ان جگہوں پر جائیں تو انہیں سختی سے ہدایت کی جاتی ہے کہ اس پابندی پر عمل کریں تاکہ قانونی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے نہ ہی جرمانہ عائد ہو سکے۔ یورپی ممالک میں سکیورٹی کے حوالے سے جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں‘ ان کے پیش نظر وہاں سفر کرنے والوں کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ سکیورٹی کے حوالے سے یہ تبدیلیاں اس لیے بھی رونما ہوئی ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں صورتحال ابتر ہوئی ہے اور پھر جو مہاجرین یورپ پہنچے ہیں‘ وہ بھی ایک سبب ہے۔یہ ہدایات امارات کی وزارت خارجہ کے ایک سینئر افسر احمد الزہیری نے چار دن پہلے جاری کی ہیں۔
وزارت خارجہ کے افسر نے کچھ اور تفصیلات اپنے عوام کے گوش گزار کیں‘ مثلاً یہ کہ فرانس‘ بیلجیم‘ ڈنمارک اور نیدرلینڈ نے برقع پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ اسی طرح ہسپانیہ کے شہر بارسلونا میں چہرہ چھپانے پر پابندی ہے۔ جرمنی اور اٹلی کے کچھ حصوں میں بھی ایسا ہی ہے۔ یکم جولائی 2016ء کو یعنی ایک ہفتہ پیشتر سوئزرلینڈ نے اس علاقے میں جو اٹلی کے ساتھ لگتا ہے چہرہ چھپانے کو ممنوع قرار دے دیا۔ خلاف ورزی کرنے والے کو ایک ہزار فرانک جرمانہ دینے کے ساتھ ساتھ سوئزرلینڈ چھوڑنا بھی پڑے گا۔ سوئزرلینڈ کے اس حصے میں جھیل کے کنارے آباد شہر لوکارنو میں سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔
تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ ان ہدایات کے فوری اجرا کا سبب‘ محض برقع پر پابندی نہیں‘ بلکہ ایک افسوسناک واقعہ ہے جو 29 جون کو امریکہ میں پیش آیا۔ شام چھ بجے کا وقت تھا۔ ریاست اوہائیو کے شہر ایون (AVON) کے ہوٹل کی لابی میں ایک شخص عربی لباس پہنے سر پر عربی رومال‘ کالی سی رسّی کے ساتھ اوڑھے‘ موبائل فون پر عربی میں کسی سے بات کر رہا تھا۔ ہوٹل کی خاتون کلرک نے اسے دیکھا اور کسی کو فون کیا کہ داعش کا ایک دہشت گرد ہوٹل میں پایا گیا ہے۔ چند منٹ گزرے اور پولیس خودکار رائفلوں سے مسلح ہو کر پہنچ گئی۔ ٹخنوں تک لمبا کرتہ دیکھ کر اور عربی زبان میں گفتگو سن کر پولیس والے بدحواس ہو گئے۔ اس سے پہلے کہ اُن کے خیال میں دھماکہ ہوتا اور ہوٹل ہوا میں تحلیل ہو جاتا‘ انہوں نے چیخ کر عرب ''دہشت گرد‘‘ کو وارننگ دی کہ وہ زمین پر لیٹ جائے۔ ساتھ ہی بہت سے سپاہیوں نے اسے زمین پر پھینکا اور ہتھکڑی لگا دی۔ اصل میں خاتون کلرک نے خوف زدہ ہو کر ٹیلی فون اپنی بہن اور والد کو کیا تھا۔ جنہوں نے پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس والے اسے تھانے لے گئے۔ سر سے پائوں تک تلاشی لی۔ جیبوں سے فون‘ بٹوہ اور دیگر کاغذات نکال کر چیک کئے۔ عرب مسافر کا نام احمد منہالی تھا۔ وہ متحدہ عرب امارات کا شہری تھا اور علاج کے لیے امریکہ آیا ہوا تھا۔ بہرطور جب وہ بے ضرر نکلا تو پولیس کے اعلیٰ افسر نے اور شہر کے میئر نے اس سے معافی مانگی۔
متحدہ عرب امارات نے سفارتی احتجاج تو کیا مگر ساتھ ہی اپنے شہریوں کو ہدایت کی کہ بیرون ملک اپنا مخصوص لباس پہننے سے گریز کریں خاص طور پر عوامی مقامات مثلاً ہوٹلوں بازاروں شاہراہوں اور ہسپتالوں میں۔
یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ایک مسلمان ملک نے شہریوں کو دوسرے ملکوں میں اپنا لباس نہ پہننے کی ہدایت کی ہے۔ مسلمانوں کے ثقافتی اور مغربی پس منظر میں یہ واقعہ غیر معمولی ہے‘ کیا اس پر ہم غور کرنے کے لیے تیار ہیں؟ ایک ردعمل تو یہ ہو سکتا ہے‘ جس کا زیادہ امکان بھی ہے کہ ہم میز پر مکہ مار کر نعرہ لگائیں کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اپنے ''مذہبی ‘‘حق سے محروم نہیں کر سکتی! یہ ''مذہبی‘‘ حق کیا ہے؟ ہمارا لباس!۔ کچھ سال پہلے جب فرانس نے نقاب پر پابندی لگائی تو پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی پارٹی کی خاتون رہنما نے اخبارات میں پرجوش مضمون لکھا کہ مسلمانوں کو ان کے مذہبی شعائر سے کوئی نہیں روک سکتا! خواہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے وغیرہ وغیرہ۔ لہو گرمانے اور دلوں میں ولولہ پیدا کرنے والی اس تحریر میں نقاب پوش خاتون لیڈر نے اس معاملے کو بالکل نہ چھیڑا کہ پچاس ساٹھ مسلمان ملکوں کو ٹھکرا کر فرانس جانے کی ضرورت ہی کیا ہے! ایک لطیفہ نما واقعہ امریکہ میں پیش آیا جہاں ٹیکسی چلانے والے پاکستانی نے ٹیکسی ڈرائیوروں کا مخصوص یونیفارم پہننے سے انکار کر دیا اور شلوار قمیض پہننے پر اصرار کرتے ہوئے دلیل یہ دی کہ یہ اس کا ''مذہبی‘‘ لباس تھا۔ اس دلیل کو امریکی جج نے بھی تسلیم کر لیا اور یوں ڈرائیور نے مقدمہ جیت لیا۔ جج صاحب نے یہ نہ پوچھا کہ دنیا کے کتنے مسلمان یہ لباس زیب تن کرتے ہیں اور جو نہیں پہنتے اُن کے اسلام کی کیا پوزیشن ہے؟
یو اے ای کے اس حکومتی اقدام سے ہم کم از کم تین نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔ اوّل : اس بات پر سارے پچپن مسلمان ملکوں کو منہ سر پیٹ کر باقاعدہ ماتم کرنا چاہیے کہ بھائی احمد منہالی کو علاج کرانے کے لیے ایک کافر ملک میں جانا پڑا۔ پچپن ساٹھ ملکوں میں ایک ملک بھی اس قابل نہیں کہ علاج کے لیے وہاں کا رُخ کیا جا سکے۔ مہاتیر محمد جیسے ایک آدھ غیرت مند رہنما کو چھوڑ کر‘ مسلمان ملکوں کے اکثر سربراہان حکومت اور والیان ریاست ان کافر ملکوں ہی کو مرکز علاج و شفا سمجھتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم تو کئی ہفتوں مہینوں سے لندن میں مقیم ہیں اور واپسی کے لیے کافر ڈاکٹروں کے اشارہ ابرو کا انتظار کر رہے ہیں۔
دوم : متحدہ عرب امارات کی ان ہدایات سے یہ امر واضح ہو گیا ہے کہ لباس کا مسئلہ کفر و اسلام کا مسئلہ نہیں ہے! یو اے ای حکومت نے اپنے شہریوں کو یہ نہیں کہا کہ پبلک مقامات پر نماز نہ پڑھیں۔ صرف یہ کہا ہے کہ اپنے لباس سے گریز کریں اور جہاں چہرہ ڈھانپنے پر پابندی ہے وہاں اصرار کرنے کے بجائے پابندی پر عمل پیرا ہوں۔ یو اے ای ایسا ملک ہے جہاں اکثریت عرب لباس پہنتی ہے اور نقاب اور عبایا کے بغیر شاید ہی کوئی مقامی خاتون باہر نکلتی ہو۔ ان ہدایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک متحدہ عرب امارات کا تعلق ہے چہرے کو ڈھانپنا ایسا مسئلہ نہیں جس پر اصرار کیا جائے۔ حکومت نے یہ ہدایت نہیں کی کہ نقاب اوڑھنے والی خواتین ان ملکوں یا شہروں میں جانے سے گریز کریں بلکہ یہ کہا ہے کہ وہاں جا کر اس پابندی پر عمل کریں! تادم تحریر متحدہ عرب امارات کے کسی عالم‘ کسی تنظیم نے اس ہدایت کی مذمت کی ہے نہ مخالفت نہ احتجاج! تیسرا سبق یہ ہے کہ چست اور مستعد حکومتیں اپنے شہریوں کی حفاظت کا حد درجہ اہتمام کرتی ہیں! حکومت کے پاس ایک آپشن تو یہ تھا کہ احمد منہالی کو مشکل پیش آئی ہے تو حکومت کی بلا سے۔ اس میں خود اتنی سمجھ بوجھ ہونی چاہیے تھی کہ احتیاط کرتا! مگر یو اے ای نے اس سنگدل آپشن کو یکسر رد کر دیا۔ اس نے ہدایات جاری کیں۔ ایسی ہدایات جو نقاب اور لباس جیسے حساس اور ذاتی معاملات میں دخل اندازی کر رہی ہیں۔ مگر حکومت نے ایسا کیا اور اس کے علماء نے اور عوام نے حکومت کا ساتھ دیا! گویا‘ امریکہ یورپ اور جاپان کا تو ذکر ہی کیا‘ یو اے ای بھی پالیسیوں میں اور معقولیت میں اور توازن میں ہم سے آگے نکل گیا ہے۔ وہی یو اے ای جسے ہم چند عشرے پہلے چرواہا ہونے کا طعنہ دیتے تھے!!
ہماری حکومتوں کا رویہ اپنے شہریوں کے ساتھ کس قدر ''ہمدردانہ‘‘ رہا ہے؟ اس کا سراغ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے۔ ان سے کسی نے کہا کہ اکثر پاکستانی باہر جانا چاہتے ہیں۔ کہنے لگے ''تو جائیں‘ روکا کس نے ہے؟‘‘ یو اے ای کا سربراہ ہوتا تو کہتا کہ یہ افسوسناک ہے ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے ملک کے حالات بہتر ہو جائیں اور لوگ ہجرت کا نہ سوچیں!
جنرل مشرف کا یہ ریمارک بھی تاریخ میں محفوظ ہے کہ پاکستانی عورتیں خود آبروریزی کراتی ہیں تاکہ ویزے لیں اور ڈالر وصول کریں!