لال بہادر شاستری یوپی سے 1952ء میں راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہوئے۔ مرکزی کابینہ میں انہیں ریلوے اور ٹرانسپورٹ کا وزیر مقرر کیا گیا۔ ستمبر1956ء میں ٹرین کا ایک حادثہ رونما ہوا۔ بہت سے افراد ہلاک ہوگئے۔ شاستری نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ پنڈت نہرو وزیراعظم تھے۔ انہوں نے استعفیٰ منظور نہ کیا۔ کچھ ماہ بعد تامل ناڈومیں ریلوے کو ایک اور حادثے کا سامنا کرنا پڑا۔ اموات ہوئیں۔ شاستری نے ''اخلاقی اور آئینی‘‘ ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پھر استعفیٰ دیا۔ اب کے وزیراعظم نے استعفیٰ قبول کرلیا اور پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ شاستری حادثے کے براہ راست ذمہ دار نہیں مگر ان کا استعفیٰ وہ اس لیے قبول کر رہے ہیں کہ اس سے آئین کی بالادستی کی مثال قائم ہوگی۔
1999ء میں انڈین ریلوے کو ایک اور حادثہ پیش آیا۔ ٹرین آسام سے آ رہی تھی۔ مغربی بنگال میں ایک دوسری ٹرین سے ٹکر ہوگئی۔ دو سو سے زیادہ مسافر موت کے گھاٹ اتر گئے۔ ریلوے کے وزیر نتیش کمار نے استعفیٰ دے دیا۔ پریس کانفرنس میں اس نے کسی لگی لپٹی بغیر ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا: ''میں نے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو استعفیٰ بھیج دیا ہے۔ میں اخلاقی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ یہ انڈین ریلوے کی مکمل ناکامی ہے۔ کوئی عذر قابل قبول نہیں۔ دو ٹرینیں دو الگ الگ روٹ پر چل رہی تھیں۔ آخر وہ دونوں ایک پٹڑی پر کیسے منتقل کر دی گئیں؟ جوکچھ میں نے جائے حادثہ پر دیکھا اور پھر جائے حادثہ پر میں نے جو تفتیش کی، اس سے واضح ہو رہا ہے کہ ریلوے کی ناکامی ہے۔ استعفیٰ واپس لینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا‘‘۔
اس کے ایک سال بعد یعنی 2000ء میں ایک اور حادثہ رونما ہوا۔ اب کے حادثہ پنجاب میں پیش آیا۔ چوالیس مسافر ہلاک ہوئے۔ مغربی بنگال کی آتش مزاج خاتون ممتابنرجی ریلوے کی وزیر تھیں۔ ان پر الزام لگا کہ وہ جائے حادثہ پر تاخیر سے پہنچیں۔ بنرجی نے استعفیٰ دے دیا۔ ''میںاس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مستعفی ہوں جائوں‘‘۔ انہوںنے وزیراعظم واجپائی کو استعفیٰ بھیج دیا۔ استعفیٰ میں انہوںنے لکھا: ''اگرچہ ریلوے وزیر کا ریلوے کی روزمرہ سرگرمیوں سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا، مگر ریلوے میں کام کرنے والے سولہ لاکھ ملازمین ایک خاندان کی طرح ہیں۔ میں اس خاندان کی سربراہ ہوں۔ میں ذمہ داری سے بچنا نہیں چاہتی‘‘۔
اپنے شعبے میںواقع ہونے والے حادثات کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کسی وزیر کا استعفیٰ دینا ترقی یافتہ ملکوں میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں، مگر ان معاملات میں پاکستان کا فرانس ، جاپان یا کینیڈا جیسے ملکوں کے ساتھ موازنہ کرنا ایک غیر منطقی فعل ہوگا۔ تاہم اس پر ضرور تاسف کا اظہار کرناچاہیے کہ انڈیا اس معاملے میں ہم سے بہت آگے ہے۔ بھارت کے ساتھ موازنہ کرنا اس لیے درست ہے کہ اگر کرکٹ کے شعبے میں وہ ہم سے ایک انچ بھی آگے بڑھ جائے تو پورے پاکستان میں صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ حالت یہ ہے کہ میچ دیکھتے ہوئے پاکستان کی محبت میں اور انڈیا سے شکست کھانے کے غم میں لوگوں کودل کے دورے پڑے اور وہ دنیا ہی سے کوچ کر گئے، مگر کھیل کے علاوہ دوسرے شعبوں میں ہماری غیرت معجون کھا کر سو جاتی ہے۔ جمہوری تسلسل ہی کو لے لیجئے، بھارت اس معاملے میں ہم سے کئی فرسنگ نہیں، کئی ہزار کوس آگے ہے۔ کئی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں وہاں چل رہی ہیں، پنجاب کے سکھوں کے ساتھ مرکزی حکومت نے براہ راست ٹکر لی۔ اندرا گاندھی اس قضیے کی بھینٹ چڑھ گئیں مگر کبھی ایسا نہ ہوا کہ کسی نے آ کر وہاں ''عزیز ہم وطنوں‘‘ کو خطاب کیا ہو یا کار سیاست میں مداخلت کی ہو۔ اس حوالے سے اصغر خان کا کیس اور جرنیلوں کا اس میں ملوث ہونا، پھر سپریم کورٹ کے واضح احکام کے
باوجود مجرموں کوسزا نہ دینا یا نہ دے سکنا، یہ سب ہماری زنبیل میں وہ سامان ہے جو رسوائی کا باعث ہے۔ انڈیا فخر سے سینہ تان کر دنیا کو بتاتا ہے کہ اس کے ہاں جمہوری تسلسل رہا ہے جبکہ بقول اس کے اسے یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ پاکستان میںکن طاقتوں کے ساتھ معاملات پر بات چیت کرے۔ جتنی دلسوزی ہم کرکٹ کے حوالے سے دیکھتے ہیں، اس سے آدھی شرم تو ہمیں اس حوالے سے ضرور آنی چاہیے۔
ریلوے بھی ایسا ہی شعبہ ہے۔ تقسیم کے بعد بھارت کی ریلوے نے دن دونی رات چوگنی ترقی کی، جبکہ ہم اپنی ریلوے پر شب خون مارتے رہے۔ ریلوے کی زمینیں ہڑپ کرلی گئیں۔ پہریدار ادارے منہ دیکھتے رہ گئے۔ پٹڑیاں تک بیچ کھائی گئیں۔ لسانی اور صوبائی حوالوں سے بھرتی میں میرٹ کو قتل کیا گیا۔ ظلم عظیم ریلوے پر اس وقت ہوا جب ماضی میں ریلوے کو اسی وزیر کے حوالے کر دیا گیا جو این ایل سی کا بھی انچارج تھا۔ ریلوے کے کارگو کے حصے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا بھی اس لیے کہ ایک نیم عسکری تنظیم نقل و حمل کے میدان میں ریلوے کی حریف بن گئی۔
اس حقیقت کا اعتراف نہ کرنا ناانصافی ہوگی کہ خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کا قلمدان سنبھالا تو حالات بہت دگرگوں تھے۔ اس قدر دگرگوں کہ ریلوے کا کفن تیار کرایا جا رہا تھا۔ غسال بلوائے جا رہے تھے۔ قبر کھودی جا رہی تھی۔ شامیانے لگ گئے تھے۔ کرسیاں لگائی جا رہی تھیں۔ جانور ذبح کیے جا رہے تھے، دیگیں تک منگوا لی گئی تھیں۔ ہر شخص اس تدفین کا اور چاول کھانے کا منتظر تھا مگر آج حالات مختلف ہیں۔ ریلوے کو خواجہ نے موت کے منہ سے نکالا اور اس کی اکھڑتی سانسیں بحال کردیں۔
یہ کالم نگار گنتی کے ان چند لوگوں میں سے ہے جو ہر حال میں، ہر ممکن حد تک ریل کے سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ راولپنڈی سے لاہور آمدورفت کے لیے ریل سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں۔ یہ سفر جہاز پر یا بائی روڈ کرنا ایسے ہی لگتا ہے جیسے اپنے محلے کی عبادت گاہ چھوڑ کر، کسی دوسرے محلے کا رخ کرلیا جائے۔ اس کالم نگار نے دو یا تین بار خواجہ صاحب کی توجہ اس امر کی جانب بھی مبذول کرنے کی کوشش کی کہ لاہور اور راولپنڈی ریلوے اسٹیشنوں پر برقی سیڑھیاں (Escalator) نصب کرائے جائیں تاکہ مسافر سیڑھیاں چڑھنے اور اترنے کی ناقابل بیان اذیت سے بچ سکیں۔ مگر وزیر ریلوے کی توجہ حاصل کرنے میں یہ کوشش یکسر ناکام ثابت ہوئی۔ بچے بوڑھے اور عورتیں لاہور ریلوے اسٹیشن کی ازکار رفتہ، بے ہودہ حد تک تکلیف دہ سیڑھیوں پر مسلسل چڑھ اور اتر رہے ہیں۔ اسی طرح خواجہ صاحب ریلوے کو حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین کے ان مفت خور جتھوں سے بھی نہیں بچا پا رہے جو ٹکٹ خریدنے والے مسافروں کا حق غصب کر رہے ہیں اور کیے جا رہے ہیں۔
سخت محنت اور جزوی کامیابی کے باوجود خواجہ سعد رفیق ریلوے کو پے درپے حادثات سے بچانے والا نظام نافذ کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔ حادثات مسلسل ہو رہے ہیں، دو دن پہلے کراچی میں، ایک مقام پر کھڑی ہوئی ٹرین سے دوسری ٹرین آ کر ٹکرائی۔ سندھ کے حکام کا کہنا ہے کہ غلط سگنل دیا گیا۔ ریلوے کا بیان ہے کہ سگنل درست تھا مگر اس پر عمل نہ کیا گیا۔ دو درجن کے قریب مسافر ہلاک ہوئے۔ ستمبر میں ملتان میں حادثہ پیش آیا۔ چار افراد جاں بحق ہوئے اور بہت سے زخمی۔ گزشتہ سال کے اواخر میں بلوچستان میں حادثہ رونما ہوا۔ بیس مسافر جان ہار گئے۔ پھر گزشتہ سال کے وسط میںگوجرانوالہ کے قریب پل ٹوٹنے سے ٹرین کو حادثہ پیش آیا۔ تقریباً دو درجن افراد اپنے پیاروں کو روتا چھوڑ کر ریلوے پر قربان ہوگئے۔
خواجہ سعد رفیق بہادر انسان ہیں۔ جری اور بے خوف! اس وقت وہ اس شیر دلاور کی طرح ہیں جس کی دھاڑ سے اور پے درپے حملوں سے پی ٹی آئی کی صفوں کی صفیں الٹ رہی ہیں۔ حادثہ کراچی میں ہوتا تو اتفاق سے اس وقت وزیر ریلوے کا مستقر اسلام آباد تھا۔ جہاں ریلوے اسٹیشن برائے نام ہے۔ مگر وہ اس میدان سے دور نہیں رہنا چاہتے تھے، جہاں گھسمان کارن پڑ رہا تھا۔ یہ بہادر وزیر اگر اپنی اخلاقی اور آئینی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے حادثے کے حوالے سے ، بلکہ پے درپے پیش آنے والے کئی حادثوں اور متعدد اموات کے حوالے سے استعفیٰ پیش کردے تو ہم بھی بھارت کے مقابلے میں سینہ تان کر دعویٰ کرسکتے ہیں کہ اصول پسندی صرف تمہارے ریلوے وزیروں کا خاصہ نہیں! ایسی کم از کم ایک چنگاری ہماری خاکستر میں بھی ہے۔ مستعفی ہو کر خواجہ صاحب شیخ رشید صاحب کو بھی آئینہ دکھائیں گے جنہوں نے اپنے عہد وزارت میں ایک حادثے کے بعد مستعفی ہونے کی فرمائش میں مبینہ طور پر یہ کہا تھا کہ ریلوے وزیر ڈرائیور تھوڑا ہی ہوتا ہے۔