کیا ہو گیا ہے اس ملک کے دانشوروں، صحافیوں، ادیبوں اور اُن سب کو جو جہاز کی تباہی پر نوحہ کُناں ہیں؟
نظام نہ بدلا گیا تو چند دن میں، جو ہوا ہے ہیچ نظر آئے گا، اُس بربادی کے مقابلے میں جس کا ہم سامنا کر رہے ہوں گے!
جناب ہارون الرشید ماتم کناں ہیں کہ ایک بوتل شہد کی اور ایک پائو دودھ خالص نہیں مل سکتا! شہد اور دودھ کو چھوڑیے، جو مریض جاں بلب ہے اور جس کے لواحقین جانیں قربان کرنے کے لیے ہتھیلی پر لیے پھر رہے ہیں، اس کے لیے خالص دوا نہیں مل رہی۔ سابق وفاقی سیکرٹری سید بلال احمد نے ایک بار بتایا کہ کرپشن پر ریسرچ کی گئی تو معلوم ہوا، پھانسی پانے والے مجرم کے وابستگان سے رقم اینٹھی جاتی ہے۔ کس لیے؟ کہ اگر تم نے اتنی رقم نہ ادا کی تو گلے میں ڈالی جانے والی رسی اور پائوں کے نیچے والے تختے میں کچھ ایسا فاصلہ یا نسبت تناسب کا مسئلہ ہوتا ہے کہ جان تڑپتے‘ لٹکتے‘ جھولتے جسم سے تاخیر سے بھی نکل سکتی ہے۔ کون پتھر دل ہو گا جو یہ رقم نہ ادا کرے؟
اللہ کے بندو! جہاز میں جل کر جاں بحق ہونے والوں کا آخری وقت دردناک تھا۔ ناقابلِ تصوّر! مگر جو صورتِ حال اس ملک میں ہو چکی ہے، اس کے سیاق و سباق میں یہ کیوں نہ ہو؟ جہاں کوئی ایک ادارہ بھی قواعد کے مطابق نہ چل رہا ہو، وہاں صرف ایک ایئرلائن کیسے درست کام کر سکتی ہے؟ آپ کا کیا خیال ہے گھوٹکی کے جس ہسپتال میں پچاس افراد ایک خاندان کے ملازم رکھے گئے، اس ہسپتال میں مریض شفایاب ہو رہے ہوں گے؟ آج کی اطلاع ہے کہ پیپلز پارٹی کے جناب آصف زرداری نے سینئر رہنمائوں کا مشاورتی اجلاس دبئی میں طلب کیا ہے۔ وہاں تبادلۂ خیال کس موضوع پر ہو گا؟ پارٹی کے صدر کی واپسی اور استقبال پر! آج تک ایسے کتنے ہی اجلاس ہو چکے ہیں‘ لندن اور دبئی میں۔ کیا کسی دوسرے ملک میں بھی کوئی پارٹی اس طرح چل رہی ہے؟ اور کیا یہ سیاست دان اپنی کمائی سے ہوائی ٹکٹ خریدیں گے؟
ایک وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ پی آئی اے میں ہم نے بھرتیاں کم کیں۔ جیسے افسوس کا اظہار ہو رہا ہے کہ کاش، زیادہ کر لیتے۔ خود ایئرلائن کا ترجمان بتا رہا ہے کہ چودہ ہزار ملازمین ضرورت سے زائد بھرتی کیے گئے۔ پالپا (پائلٹوں کی ایسوسی ایشن) کہہ رہی ہے کہ...
''بہت حد تک درست ہے کہ کئی جہازوں کو دوسرے جہازوں کے پرزے لگا کر اڑا دیا جاتا ہے۔ جب وہ جہاز نیچے آتا ہے تو پھر اس کے پرزے نکال کر دوسرے جہاز میں لگا کر اس کو اڑایا جاتا ہے‘‘۔
کیا دنیا کی دوسری ایئرلائنیں اسی طرح چلائی جا رہی ہیں؟
تھانے آج بھی فروخت ہو رہے ہیں۔ پولیس کاریں اغوا کرنے والوں اور گم شدہ کاروں کے مالکان کو اغوا کرانے میں ملوث ہے۔ آخر علاقہ غیر میں بیٹھے ہوئے شخص کو کیسے معلوم ہو جاتا ہے کہ پنڈی یا لاہور یا فیصل آباد کے فلاں محلے کی فلاں گلی کے فلاں گھر میں رہنے والے کی کار چوری ہوئی ہے۔ وہ فون کرتا ہے کہ تم نے کار لینی ہے تو بنوں آ جائو۔ یہ سادہ لوح شخص بنوں پہنچتا ہے تو اغوا کر لیا جاتا ہے اور ساٹھ لاکھ دے کر واپس آتا ہے۔ اغوا کرنے والوں کے پاس کار تو تھی ہی نہیں۔ کس نے انہیں بتایا کہ اس کی کار چوری ہوئی ہے؟ کس نے فون نمبر دیا؟ باڑ کھیت کو کھا رہی ہے۔ چرواہے بھیڑیوں کے لیے مخبری کر رہے ہیں۔
گداگری انڈسٹری بن چکی ہے۔ کیا پولیس کو نہیں معلوم؟ بچے اغوا ہوتے ہیں تو پولیس کے افسر، ضمیر کا ٹینٹوا دبا کر، ایک ہی بات کہتے ہیں کہ ماں باپ کی سختی کی وجہ سے گھر سے بھاگ گئے ہیں۔ جی ہاں! آپ درست فرماتے ہیں۔ گھر سے بھاگ کر وہ سیدھے اُن بدمعاشوں کے پاس گئے جو یہ مافیا چلا رہے ہیں۔ پھر انہوں نے خوشامد کی کہ انکل! میرے بازو اور ٹانگیں توڑیے اور مجھ سے بھیک منگوائیے۔ کچھ تو خدا کا خوف کرو، تمہارے بھی بچے ہیں۔
ریٹائرمنٹ کے بعد، ایک اور بھرپور ملازمت پانے والا پولیس افسر خود بتاتا ہے کہ برسوں پہلے، فلاں انتہائی بااثر شخصیت نے بلا کر کہا تھا کہ ہم سے دوستی کرو گے؟ اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں! اس ناقابلِ یقین پیش کش کو کوئی فرشتہ ہی ٹھکرائے۔ باقی ملازمت سرکار کے کام میں نہیں ''دوستی‘‘ نبھانے میں گزری۔ پھر ایسے میں ملک کا وہی حال ہو گا جو ہو رہا ہے۔ اس میں کس راکٹ سائنس کی ضرورت ہے؟
کوئی نظام نہیں۔ کسی سسٹم کا وجود نہیں۔ ہر قاعدہ، ہر ضابطہ، ہر قانون ہر رُول توڑا جا رہا ہے۔ آمریت کی حد یہ ہے کہ وفاقی حکومت کا سربراہ، ایک ایک شہر کے میئر کی نامزدگی میں، ایک ایک مقامی کونسل کے چیئرمین کے انتخاب میں، خود حصہ لے رہا ہے۔ یہ جمہوریت ہے! اسے چاٹا جائے؟ یا پرزے پرزے کرکے نالی میں پھینکا جائے؟
اکثریت ناخواندہ ہے۔ غریب ہے۔ بھوکی ننگی ہے۔ بیروزگاری کی شرح آسمان کو چُھو رہی ہے۔ ایک ایک کنبے میں دس دس بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ ایک ایک کمرے میں چھ چھ افراد رہ رہے ہیں۔ پانی عنقا ہے۔ بجلی کم ہے۔ بہت کم! گیس لگوانے کے لیے آدھی عمر گروی رکھنا پڑتی ہے۔ عرضیاں لکھ لکھ کر، ممبروں کی سفارشیں حاصل کر کر کے، ایک اوسط گھرانے میں گیس کی فائل کئی برسوں میں اتنی موٹی ہو جاتی ہے کہ اٹھائی نہیں جاتی مگر گیس کا کنکشن پھر بھی نہیں ملتا۔ پھر وہ شخص کنکشن رشوت دے کر، چوری سے حاصل کرتا ہے۔ اور کیا کرے؟ اضطرار میں تو خنزیر کا گوشت بھی کھانا پڑ جاتا ہے۔
محکموں کے احوال لکھ لکھ کر صحافی تھک چکے۔ دانش وروں نے تجاویز کئی بار دیں۔ زمیں جنبد نہ جنبد گُل محمد! گویا ریت پر پیشاب کیا جا رہا ہے۔ تمام شعبے اقربا پروری کی نذر ہو رہے ہیں۔ ایک فیصلہ صدر پرویز مشرف نے مستحسن کیا تھا کہ نچلے گریڈوں کی بھرتیاں بھی فیڈرل پبلک سروسز کمیشن کرے گا۔ جمالی صاحب وزیر اعظم بنے تو یہ حکم واپس لے لیا گیا۔ پرویز مشرف
مصلحتاً خاموش رہے۔ جمالی صاحب کا یہ ''صدقہ جاریہ‘‘ آج بھی اس ملک کو گھن کی طرح کھائے جا رہا ہے! کسی سیاست دان‘ کسی وزیر، کسی ایم این اے، کسی ایم پی اے کے ہاتھ میں قرآن پاک دے کر پوچھیے کہ آج تک اس نے کتنی سفارشیں کیں؟ اگر ضمیر اس کا بالکل میت میں نہیں بدلا تو یہ تعداد سینکڑوں میں ہو گی۔ یوں کُل سفارشیں اربوں‘ کھربوں تک جا پہنچتی ہیں۔ ان میں سے کم ازکم ایک چوتھائی تو ضرور نشانے پر بیٹھتی ہوں گی۔ یہ تعداد لاکھوں سے کم کیا ہو گی! بھرتیاں، تبادلے، ترقیاں، تعیناتیاں، ٹھیکوں کی منظوری، فنڈز کی ترجیحات میں زبردستی کی تبدیلی، بیرونِ ملک تعیناتیوں میں جوڑ توڑ، فائلوں کا سال سال بھر پڑا رہنا، نئے سکولوں، نئی سڑکوں، نئی ڈسپنسریوں کے لیے خالص سیاسی اور شخصی بنیادوں پر فیصلے۔ سفیروں کی اکھاڑ پچھاڑ، غرض وفاقی سے لے کر گائوں کی کونسل تک کسی نظام‘ کسی ضابطے کا کوئی وجود نہیں۔
ملکوں کی ترقی کا ایک ہی راز ہے۔ ضابطوں کی کتاب اور جو کچھ عملاً ہو رہا ہے ان دونوں میں کم سے کم فرق۔ سنگا پور، سوئٹزرلینڈ کینیڈا، فِن لیڈ، ڈنمارک، نیوزی لینڈ جیسے ملکوں میں یہ فرق صفر کے برابر ہے۔ جو کچھ قانون قاعدہ کہتا ہے سو فیصد اُس پر عمل ہو رہا ہے۔ ہمارے جیسے ملکوں میں فرق نوے پچانوے کے برابر ہے۔ یعنی جو کچھ ہو رہا ہے ضابطوں، قاعدوں، قانون کے نوے پچانوے فیصد خلاف ہو رہا ہے۔
جب تک یہ فرق کم نہیں ہو گا، جہاز گرتے رہیں گے۔ ٹرینیں ٹکراتی رہیں گی۔ شاہراہوں پر لوگ مرتے رہیں گے۔ بے گناہ جیلوں میں گلتے سڑتے رہیں گے اور پھانسی پا جانے والوں بے قصور ثابت ہوتے رہیں گے۔