برف گِری اور قافلے رواں ہو گئے۔
جانے کہاں کہاں سے سواریاں بھری ہوئی آئیں، دارالحکومت کی ڈیوڑھی کو چھوتی شمال مشرق کو نکل گئیں۔
پھر معلوم ہوا کہ وزیراعظم بھی برفباری کا نظارہ کرنے اپنی پسندیدہ بلندی پر پہنچ گئے۔ پھر ایک اور خبر آئی۔ صدر مملکت کا رُخ بھی اُسی طرف ہے۔ ؎
اُسی جانب رواں ہیں قافلے عشّاق کے سب
کہ اب اک مہ لقا کا رُخ بخارا کی طرف ہے
پہاڑ کی طرف رغبت انسان کی گھٹی میں پڑی ہے۔ شاید اس لیے کہ آدمِ ثانی کی کشتی پہاڑ پر رکی تھی۔ پہاڑ کی محبت، کشتی میں سوار اُن افراد کے اندر رچ بس گئی جن کی ذریت نے دنیا میں بکھرنا اور آباد ہونا تھا۔
قریب کے زمانے میں مغلوں کے لیے کشمیر کے خوبصورت دیدہ زیب پہاڑوں کی کشش انوکھی نہ تھی! بہت اہتمام سے جاتے۔ ایک لاکھ کے لگ بھگ لاؤ لشکر ہمراہ ہوتا۔ پورا شہر جیسے دہلی سے چلتا اور کشمیر پہنچ جاتا۔ مغلوں کے وہاں ایک قاعدہ کلیہ سا بن گیا تھا۔ شمال کو، یعنی کشمیر کو جانا ہوتا تو تختِ رواں پر جاتے۔ تختِ رواں کیا تھا؟ چھوٹا سا چوبی محل، جسے کہار
کاندھوں پر اُٹھاتے۔ جنوب کی طرف رتھ میں، مشرق کی طرف، یعنی آسام‘ بنگال کے جنگلوں کی طرف، ہاتھی پر اور مغرب کی طرف سفر کرنا ہوتا تو گھوڑے پر! اکبرِ اعظم اپنے دورِ اقتدار میں تین بار کشمیر گیا۔ ساتھ جرنیل، امرا اور عمائدین کی کثیر تعداد ہوتی۔ بہت سوں نے باقاعدگی سے گرما وہاں گزارنا شروع کر دیا۔ جہانگیر کے زمانے میں تانتا بندھ گیا۔ بادشاہ دس سے زیادہ مرتبہ کشمیر گیا۔ یہاں تک کہ کشمیر سے واپسی پر، لاہور میں رُکا اور پھر وہیں مقبرہ بنا۔ شاہ جہان کے زمانے میں کشمیر آنا جانا، ہندوستان کے لوگوں کا، اتنا ہی عام ہو گیا تھا، جیسے ہمارے وقتوں میں مری! اورنگ زیب کو ایک بار ہی موقع ملا۔ (پچیس سال تو وہ یوں بھی دکن میں رہا۔) فرانسیسی ڈاکٹر برنیئر کشمیر کے سفر پر ہمراہ تھا۔ بھمبر تک ہاتھی آتے تھے۔ آگے نہیں جا سکتے تھے۔ شاہی قافلے کا سامان قلی سروں پر اُٹھا کر لے جاتے تھے۔ برنیئر کے بقول بادشاہ کا سامان پانچ ہزار قلی اُٹھاتے تھے!
انگریزوں نے برصغیر سے بہت کچھ لیا مگر دیا بھی بہت کچھ۔ شملہ اور مری انگریزوں کی دریافت تھے۔ شملہ، ہمالیہ کے گھنے جنگلوں میں گُم‘ موجود تو ہمیشہ سے تھا۔ یہ علاقہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے نیپال سے چھینا۔ اس کا موسم اور آب و ہوا برطانیہ جیسی تھی۔ رفتہ رفتہ اکا دکا گھر بننے لگا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ انگریز تعطیلات کے دوران آکر وقت یہاں گزارنے لگے۔ پہلی اہم تاریخی میٹنگ 1832ء میں ہوئی جب گورنر جنرل ولیم بنٹنک نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ایلچیوں کے ساتھ یہاں ملاقات کی۔ گورنر جنرل نے چرچل کو لکھا کہ ''شملہ لدھیانہ سے صرف چار دن کی مسافت پر ہے، راستہ آسان ہے اور ہندوستان کے سلگتے ہوئے میدانوں سے اُٹھ کر یہاں پناہ لی جا سکتی ہے۔‘‘
پھر وہ وقت بھی آیا کہ شملہ کے بھاگ جاگ اُٹھے۔ 1863ء میں اُس وقت کے وائسرائے نے اعلان کیا کہ آیندہ برطانوی ہند کا گرمائی دارالحکومت شملہ ہو گا۔ کلکتہ سے شملہ کا فاصلہ ایک ہزار میل تھا۔ کاریں تھیں نہ جہاز۔ مگر گرمیوں میں دارالحکومت منتقل ہوتا اور سرما میں واپس کلکتہ چلا جاتا۔ پھر پنجاب نے بھی گرمیوں میں صوبائی دارالحکومت یہیں بنا لیا۔ میمیں آتیں اور صاحب بھی۔ شملہ ''اپر کلاس سوسائٹی‘‘ کا مرکز بن گیا۔ آرٹ گیلریاں اور ناچ گھر بھی بن گئے۔ پھر انگریز رخصت ہو گئے۔ بھارتی پنجاب کے حصے بخرے ہو گئے۔ اب شملہ ہما چل پردیش کا دارالحکومت ہے۔ اور اُس زمانے کے زخم چاٹ رہا ہے جب وائسرائے اور سفید فام کمانڈر ان چیف اُس کا دم بھرتے تھے۔
مری کو بھی کوئی مغل بادشاہ، کوئی سکھ مہاراجہ، کوئی افغان حملہ آور دریافت نہ کر سکا۔ یہ جنگلات کی ترائیوں میں گم رہی یہاں تک کہ ایبٹ آباد کو بسانے والے میجر ایبٹ نے آج سے ایک سو ستر سال پہلے اسے صحت افزا مقام کے طور پر دریافت کیا۔ انگریزی حکومت نے بنیادی طور پر اسے سینی ٹوریم کے لیے مختص کر دیا، جہاں ٹی بی کے گورے مریض ٹھہرائے جاتے۔ 1853ء میں سنی بنک پر قصبے کی بنیاد رکھی گئی۔ چار سال بعد گرجا تعمیر کیا گیا۔ پھر جی پی او بنا جو شہر کا مرکز بن گیا۔ تقسیم تک مقامی آبادی کے لیے مال روڈ پر جانا منع تھا۔ 1873ء میں پنجاب حکومت نے مری کو گرمائی دارالحکومت قرار دیا۔ مگر یہ بادشاہت مری کو صرف دو سال نصیب ہوئی۔ 1875ء میں پنجاب حکومت شملہ کی محبت میں گرفتار ہو گئی۔ آسانی یہ تھی کہ وائسرائے بھی گرمیوں میں شملہ موجود رہتا تھا۔ برطانوی ہند کی فوج کے دستے بھی بھاری تعداد میں مری آموجود ہوئے۔ انگریز جو ضلع گزٹ (Gazetteer) چھوڑ گئے، اس کے مطابق راولپنڈی سے مری تک کا سفر ٹانگے کے ذریعے پانچ گھنٹوں کا تھا! دلچسپ اور عبرت ناک حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اس قبیل کے ضلعی گزٹ لکھے جانے کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ وہ تو بھلا ہو انگریز ڈپٹی کمشنروں کا کہ ہر ضلع کی کچھ نہ کچھ تاریخ لکھ گئے۔
سوال یہ ہے کہ آج مری کہاں کھڑی ہے؟ اس کی حالت وہی ہے کہ ع
ہر چند کہ ہے مگر نہیں ہے
کہنے کو یہ ضلع راولپنڈی کی ایک تحصیل ہے‘ مگر حقیقت میں اس کی شان، تحصیل سے کہیں اوپر ہے۔ غیر ملکی سرکاری مہمان گرمیوں میں یہاں لائے جاتے ہیں۔ کانفرنسیس یہاں ہوتی ہیں۔ شریف خاندان کی مری سے خاص دلچسپی ہے۔ شاہی خاندان کے ہرشہزادے کا اپنا الگ محل مری میں ضرور موجود ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ پہاڑوں اور جنگلوں کی اِس وادی میں شاہی خاندان کے کس رکن کا کون سا محل کہاں ہے۔ سرکاری قیام گاہیں ان کے علاوہ ہیں! گرما کے موسم میں بیسیوں مرتبہ مکمل پروٹوکول کے ساتھ آمد اور پھر رفت کے بجائے اگر مری کو وفاق کا گرمائی ہیڈکوارٹر قرار دے دیا جائے تو خزانے پر بوجھ کم ہو جائے گا۔ وفاقی رہائش گاہوں اور دفاتر پر ائرکنڈیشننگ کا خرچ ہی اس قدر زیادہ ہے کہ سال میں ایک بار حکومت کا مری منتقل ہونا اور پھر جاڑے میں واپس جانا کم خرچ ہو گا!
کم از کم یہ تو ضرور ہونا چاہیے کہ مری اور دیگر گلیات کو ایک الگ صوبہ قرار دیا جائے۔ سوچیے! آخر نتھیاگلی اور ایوبیہ کے رہنے والوں کو سرکار سے اپنے کام نکلوانے کے لیے پشاور کیوں جانا پڑے؟ سرحد پار، بھارت نے بے شمار نئے صوبے بنا ڈالے۔ جھاڑ کھنڈ سے لے کر تلنگانہ تک!! بھارتی پنجاب اب تین حصوں میں منقسم ہو چکا ہے۔ مگر پاکستان میں عجیب و غریب صورتِ احوال ہے۔ نئے صوبے تو کیا بنتے، ایک صوبے کا نام تبدیل ہونے میں ساٹھ ستر سال لگ گئے۔ اندازہ لگائیے، تربت سے کوئٹہ کا فاصلہ تقریباً ایک ہزار کلومیٹر ہے۔ بہاولپور لاہور سے پانچ سو کلومیٹر سے زیادہ دور ہے۔ اور زبان، خوراک اور مزاج میں سے کچھ بھی ہم آہنگ نہیں! نتھیا گلی کہنے کو تو پشاور سے پونے تین سو کلومیٹر دور ہے مگر گھنٹوں کا نہیں، پہروں کا سفر ہے۔ اگر گلیات پر مشتمل الگ صوبہ بنا کر مری کو اس کا صدر مقام بنا دیا جائے تو کسی کی انا مجروح ہو گی؟ اگر ہو گی تو پھاہا رکھنے کے کئی طریقے ہیں مگر اُن عورتوں، مردوں اور بوڑھوں کا کیا قصور ہے جو اپنے کام نکلوانے کے لیے برف پوش پہاڑوں سے نیچے اُتر کر، ہزارہ کو پار کر کے، پنجاب میں داخل ہوتے ہیں۔ پھر مغرب کا رُخ کرتے ہیں اور تقریباً دن رات ایک کر کے پشاور پہنچتے ہیں!
مری کی سیاہ بختی دیکھیے کہ ہر برفباری میں ہمارے اخبار یہ فقرہ ضرور لکھتے ہیں کہ ''ملکۂ کوہسار نے سفید چادر اوڑھ لی‘‘۔ مگر اس ملکہ کو ستر سال میں ریلوے لِنک نہیں نصیب ہو سکا! بہر طور یہ شہر ہمارے وزیراعظم کا پسندیدہ مقام ہے! تو جناب وزیراعظم! کیا موسمِ گرما میں وفاقی دارالحکومت مری منتقل ہو جایا کرے گا؟