ایک مدت بعد آیا تھا۔ ایک عزیز کی قبر تلاش کر رہا تھا، مگر یہاں تو دنیا ہی اور تھی!
لڑکپن میں‘ میں اسی قصبے میں رہتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کم و بیش ہر قبرستان میں ایک جھونپڑا یا جھونپڑا نما کمرہ بنا ہوتا تھا۔ اس میں قبرستان کا انچارج رہا کرتا۔ اسے راکھا کہا کرتے۔ وہ خود رَو گھاس کاٹتا، درختوں کی کانٹ چھانٹ کرتا اور ضرورت پڑنے پر رہنمائی بھی کرتا کہ کس کی قبر کہاں ہے۔ اب معاشرتی سیٹ اپ بدل چکا ہے۔ کوئی نہیں پسند کرتا کہ زندگی قبرستان میںگزارے اور لوگوں کے دیے ہوئے عطیات پر گزر بسر کرے؛ چنانچہ دوسرے قبرستانوں کی طرح اس گورستان کی حالت بھی ابتر تھی۔ گھٹنوں گھٹنوں گھاس تھی۔ گھاس بھی ایسی خاردار کہ کپڑوں پر گول گول کانٹے چھوڑ جاتی۔ کئی کتبوں پر حروف مٹ چکے تھے۔ کچھ قبریں جیسے دھنس رہی تھیں۔ بہت سی زمین کی سطح کے برابر ہو گئی تھیں۔ سنگِ مرمر کے ٹکڑے ٹوٹے ہوئے تھے۔ بعض قبریں گھاس میں مکمل طور پر چھپ گئی تھیں۔ گھاس میں سرسراتے حشرات الارض ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ میں شلوار کے پائنچے اوپر کیے، اس جنگل میں وہ قبر تلاش کر رہا تھا‘ جس پر فاتحہ پڑھنا چاہتا تھا۔ اچانک ایک جگہ جانی پہچانی لگی۔ لڑکپن یاد آ گیا۔ سنگِ مرمر سے لدی ہوئی ایک قبر‘ جس کی تعمیر کے دوران ہم لڑکے بالے کھیلتے کھیلتے ادھرآ نکلتے اور کھڑے ہو کر ٹھک ٹھک دیکھتے رہتے اور سنتے رہتے۔ سنگِ مرمر کے تختے جگہ جگہ سے اکھڑ چکے تھے۔ چھت والی کنوپی کی جگہ ایک قابل رحم چیتھڑا رہ گیا تھا۔ قبر کے اوپر اور اردگرد کیڑے مکوڑوں کا راج تھا۔ ایک عجیب گدلی سی بُوباس بکھری تھی۔ سنگِ مرمرکے دو اُکھڑے ہوئے تختے آدھے گڑے ہوئے اور آدھے اُٹھے ہوئے تھے۔ درمیان میں ایک غار نما بڑا سا سوراخ تھا۔ چیونٹیوں کی ایک طویل قطار اس میں سے باہر نکل رہی تھی۔ قطار کے ایک طرف، غار نما سوراخ کے بالکل ساتھ گول سی چیز نے حرکت کی تو غور سے دیکھا۔ یہ بچھو تھا‘ جیسے کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔ عشرے گزر چکے تھے مگر سب کچھ آنکھوں کے سامنے پھرنے لگا۔ یہ قبر چودھری خیرات کی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ قصبے کی گلیوں سے وہ گزرتا تو اس کے پیچھے کم از کم آٹھ دس افراد کا گروہ ہوتا۔ یہ سب لوگ اس قدر تیز چل رہے ہوتے کہ اینٹوں سے بنی گلیاں دھمک کی آواز نکالتیں۔ چودھری صاحب کے چہرے پر چیچک کے داغ تھے۔ پگڑی باندھتے۔ سفید داڑھی تھی۔ ہاتھ میں چھڑی ہوتی۔ ان کے عہدِ شباب کے بارے میں مشہور تھا کہ کوسوں دور، کسی قصبے یا بستی میں رات کے وقت اپنے ٹارگٹ کو قتل کرتے اور صبح اپنی حویلی میں سوئے ہوئے پائے جاتے۔ دم ان کے آگے کوئی نہ مار سکتا۔ گھوڑے پر ہوتے تو کم از کم چھ بندوقچی آگے پیچھے بھاگ رہے ہوتے۔ اترتے تو ایک آگے بڑھ کر رکاب تھامتا۔ کسی مزارع سے ناراض ہوتے تو رسی پورے جسم کے گرد لپیٹ کر کمرے میں چھوڑ دیتے۔ کبھی یاد آ جاتا تو کھولنے کا حکم دیتے۔
مگر آہ! پھر سب کچھ بدل گیا۔ ان کے بیٹے نے زمینوں پر قبضہ کیا اور باپ کو چھوٹی حویلی میں مقفّل کر دیا۔ ایک نوکر ڈیوٹی پر ہوتا۔ وہی ان کے سوشل لائف تھی۔ کئی سال یوں ہی کاٹے۔ پھر فالج ہو گیا۔ بات نہ کر پاتے۔ رینگ رینگ کر بیت الخلا تک جاتے۔ نوکر اکثر ادھر ادھر ہو جاتا۔ لوگ باگ زیادہ تر یہ کہا کرتے کہ بے گناہ مقتولوں کی بددعا ہے جو چودھری صاحب کو اس قابلِ رحم کس مپرسی میں رکھ رہی ہے۔ ہاں، دم نکلا تو فرزندِ نیک اختر نے مقبرہ نما قبر بنوائی اور سارے شہر میں کھانا تقسیم کیا۔
بچھو دیکھا اور کپکپی طاری ہوگئی۔ صادقین یاد آ گیا اور بے تحاشا یاد آ گیا۔ بہت کم لوگوںکو معلوم ہے کہ صادقین شاعر تھا۔ کمال کا شاعر۔ یہ کالم نگار ان چند خوش بخت افراد میں سے ہے جن کے پاس ان کی رباعیات کا مجموعہ موجود ہے۔ ستمبر 1971ء کا مطبوعہ یہ نسخہ کراچی سے شائع ہوا۔ اس کی کتابت صادقین نے خود کی۔ ساتھ معرکہ آرا تصاویر بنائیں‘ جو اب یقینا نوادرات میں شامل ہیں۔
اک بار میں ساحری بھی کرکے دیکھوں
کیا فرق ہے شاعری بھی کرکے دیکھوں
تصویروں میں اشعار کہے ہیں میں نے
شعروں میں مصوری بھی کرکے دیکھوں
قبر پر دکھائی دینے والے بچھو کا صادقین سے کیا تعلق؟ بہت گہرا! ایک مختصر باب ان رباعیات میں اس نے چودھری خیراتوں کے انجام پر باندھا ہے۔ وہ منظر دکھائے ہیں کہ جسم کپکپانے لگتا ہے اور روح ہول میں ڈوب جاتی ہے۔
شہزادی جو کل کرتی چھنا چھن نکلی
شاہوں میں رقابت ہوئی ان بن نکلی
آج اس کی ہی کھوپڑی میں انڈے دے کر
اک آنکھ کے دائرے سے ناگن نکلی
پھر کہا ہے:؎
آہٹ ہوئی، کھوپڑی میں چوہے جاگے
کیا دیکھ کے ہم آج کھنڈر سے بھاگے
اس شوخ کا ڈھانچہ تھا کہ کل جوڑ کے ہاتھ
فرعون بھی جھک رہا تھا جس کے آگے
تصویر میں کوا اس جگہ ٹھونگیں مار رہا ہے جہاں کبھی آنکھیں تھیں۔ کھوپڑی میں سے سانپ نکل رہا ہے۔ کھوپڑی کے نیچے ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے!
ہم آئے دن چودھری خیراتوں کا انجام دیکھتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ تکبر اس دنیا میں بدترین صفت ہے جسے خالق کائنات نے بھی واضح طور پر ناپسند فرمایا ہے... ''اور زمین پر اتراتا ہوا نہ چل۔ نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے نہ لمبائی میں پہاڑوں تک پہنچ سکتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک بات تیرے رب کے ہاں ناپسند ہے‘‘۔
شاہ جہاں شکار کو نکلتا تو ایک لاکھ افراد ساتھ ہوتے۔ رستے میں آنے والے راہگیر مار ہی دیے جاتے۔ پھر وہ دن بھی آیا جب کمرے کی‘ جو قید خانہ تھا‘ کھڑکی سے صرف تاج محل کو دیکھ سکتا تھا‘ جسے تعمیر کرانے میں دہائیاں لگ گئیں‘ اور اس زمانے کے کروڑوں خرچ ہوئے! رومانیہ کے آمر چی شسکو کا انجام کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔ قید خانے میں بیوی کے ساتھ چوہوں کی طرح دیوار سے چمٹ رہا تھا کہ گولیوں نے بھون دیا۔
خلقِ خدا کو حشرات الارض سمجھنے والا صدام حسین ایک بل نما تہہ خانے میں چھپا تھا۔
ایک وقت ایسا بھی تھا کہ حسنی مبارک بل گیٹس سے زیادہ امیر تھا۔ بل گیٹس 53 ارب ڈالر کا مالک تھا جبکہ مصری صدر کے پاس ستر ارب ڈالر تھے پھر وقت نے گھمن گھیری کھائی۔ حسنی مبارک کو خلقِ خدا نے لوہے کے پنجرے میں بند دیکھا۔
اور قذافی! اس کی دولت کا اندازہ دو سو ارب ڈالر لگایا گیا۔ اس کا بیٹا ہانی بالی اپنے نوکروںکو زندہ جلا دیتا۔ دوسرا بیٹا معتصم ایک ماہ میں تقریباً بائیس لاکھ ڈالر پارٹیوں پر خرچ کرتا۔ سعدی قذافی ٹورنٹو اور میکسیکو میں کروڑوں ڈالر ملکیت کے گھروں کا مالک تھا۔ خود قذافی کی باڈی گارڈ اَن چُھوئی دوشیزائیں تھیں۔ اسے یوکرائن کی عورتوں کا خبط تھا۔ اس کی ذاتی ''نرس‘‘ اکثر یوکرائن ہی کی ہوتی! پھر قذافی اپنے آبائی شہر کی گلیوں میں گھسیٹ گھسیٹ کر مارا گیا۔ ان آمروں کی عبرتناک ہلاکت کا ذمہ دار مغربی قوتوںکو سمجھا جاتا ہے مگر یہ بات بھلا دی جاتی ہے کہ امریکہ کا صدر ہو یا برطانیہ کا وزیر اعظم یا فرانس اور جرمنی کے سربراہ‘ ملکی خزانوں کو لوٹنا تو درکنار، ایک معقول حد سے آگے سرکاری کاموں پر بھی نہیںخرچ سکتے! دولت جمع کرنا تکبر کی انتہا ہے۔ تکبر یہ صرف نہیںکہ اکڑ کر چلا جائے۔
یہ تین دن پہلے کا واقعہ ہے۔ پاکستان کی ایک انتہائی اہم شخصیت کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ اپنے ہیلی کاپٹر سے اس وقت تک باہر نہیں نکلی جب تک کہ زمین پر سرخ قالین نہ بچھایا گیا۔ قالین بچھا تو وہ باہر نکلے۔ قدم قالین پر رکھ کر چلے اورگاڑی میں سوار ہوئے۔
ہم میں سے کچھ نہ جانے کیوں اس زعم میں ہوتے ہیں کہ زمین کو پھاڑ ڈالیں گے اور کوہساروں کی طرح سربفلک ہو جائیں گے۔ خدا کی مخلوق کیڑے مکوڑوں سے زیادہ کچھ نہیں دکھائی دیتی۔ بس چلتا تو قدموں تلے سرخ قالین کے بجائے رعایا کی پلکیںہوتیں اور جانا وہاں ہے جہاں رہنا راکھا بھی پسند نہیںکرتا۔ حافظ شیرازی یاد آ گیا ؎
عاقبتِ منزلِ ما وادیٔ خاموشان است
حالیہ غلغلہ در گنبدِ افلاک انداز
اس وقت افلاک کے گنبد میں خوب غلغلہ برپا کرو! آخر جائو گے تو اسی وادیٔ خاموشاں میں!!