کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہے

اگر آپ مریخ سے نہیں اترے‘ اگر آپ کی ساری زندگی یورپ یا امریکہ میں نہیں گزری‘ اگر آپ یہیں کی پیدائش ہیں اور یہیں پلے بڑھے ہیں تو مجھے بتائیے کہ ایک شخص جو آٹھ سال مسلسل مملکت کا نائب سربراہ رہا ہو‘ جو چھتیس برس۔ جی ہاں۔ چھتیس یعنی تیس+ چھ سال‘ ایوانِ بالا (سینیٹ) کا رکن رہا ہو‘ کیا اپنے بیٹے کی بیماری کے سبب اپنا مکان فروخت کرنے پر مجبور ہوگا؟
ایسی مجبوری‘ ایسی بے بسی کا یہاں تصور بھی محال ہے! قائداعظم‘ لیاقت علی خان‘ عبدالرب نشتر‘ چودھری محمد علی جیسے حکمران گزر گئے۔ حکمرانی کی اس گزرگاہ پر اُن کے نقوشِ پا تک مٹ چکے!
مگر ایسا ہوا ہے! اسی سیارے پر‘ جسے ہم آپ زمین کہتے ہیں‘ ایسا ہوا ہے! جو بائیڈن‘ امریکی ریاست پنسلوانیا میں پیدا ہوا۔ سیاست میں آیا تو ریکارڈ قائم کر ڈالے۔ تیس برس کی عمر میں سینیٹ کا رکن منتخب ہوا۔ امریکہ کی یوری تاریخ میں وہ چھٹا کم عمر ترین سینیٹر تھا۔ ایک حادثے میں بیوی انتقال کر گئی تو بچوں کو بھی سنبھالا۔ وہ ہر روز ڈیڑھ گھنٹہ ٹرین میں سفر کر کے دارالحکومت پہنچتا اور ایوانِ بالا میں اپنے فرائض ادا کرتا۔
2009ء سے 2017ء تک جوبائیڈن صدر اوبامہ کے شانہ بشانہ امریکہ کا نائب صدر رہا۔ صرف یہی نہیں‘ وہ ایوانِ بالا میں خارجہ امور کی کمیٹی کا رکن رہا۔ بین الاقوامی منشیات کو کنٹرول کرنے والی انجمن کا صدر رہا۔ سینیٹ کی عدلیہ کمیٹی کا سربراہ رہا۔
جوبائیڈن کا بڑا بیٹا اپنی آبائی ریاست میں اٹارنی جنرل کے منصب پر فائز تھا۔ 2013 میں‘ جب اس کا باپ امریکہ کا نائب صدر تھا‘ اسے دماغ کا کینسر لاحق ہوا۔ یوں لگتا تھا کہ بیٹے کو استعفیٰ دینا پڑے گا۔ اگر ایسا ہوا تو وہ اور اس کے اہل خانہ کھائیں گے کہاں سے؟ تین عشروں سے زیادہ عرصہ سینیٹ کا رکن رہنے اور اُس وقت امریکہ کا نائب صدر ہونے کے باوجود جوبائیڈن کی مالی حالت ایسی نہ تھی کہ وہ بیمار بیٹے کے کنبے کی کفالت کر سکتا۔ اس کا واحد اثاثہ ایک مکان تھا۔ اس نے اور اس کی بیوی نے یہ مکان فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔
نائب صدر کے طور پر وہ صدر اوبامہ کو اپنے بیٹے کی صحت سے آگاہ رکھتا تھا اور صرف صدر ہی تھے جن سے وہ اپنے معاملات کے بارے میں بات چیت کرتا۔ صدر کو معلوم ہوا کہ وہ مکان فروخت کرنے لگا ہے تو انہوں نے منع کیا اور مالی مدد کی بھرپور پیش کش کی! یہ اور بات کہ مکان فروخت کرنے کی نوبت آئی نہ مدد لینے کی۔ اس کے بیٹے کا انتقال ہو گیا۔
یہ ہے شفافیت کی وہ سطح جس پر مغرب پہنچا ہوا ہے! ہم لاکھ انہیں کافر کہیں‘ شراب نوشی‘ زنا‘ قمار بازی اور جنسی اختلاط کے ان پر الزامات عائد کریں‘ ان کی تباہی کے لئے گڑگڑا کر دعائیں مانگیں‘ سچ یہ ہے کہ دیانت‘ امانت اور احتساب کے جس مقام پر وہ فائز ہیں‘ ہم اُس مقام کی طرف دیکھیں تو ہمارے سروں سے ٹوپیاں نیچے گر پڑیں : ؎
دیکھتے کیوں ہو شکیبؔ اتنی بلندی کی طرف
نہ اٹھایا کرو سر کو‘ کہ یہ دستار گرے
صرف پاکستان کیا‘ پورے عالمِ اسلام میں اس شفافیت کی مثال نہیں ملتی! موروثی بادشاہوں کا تو ذکر ہی کیا‘ ملائیشیا اور ترکی جیسے جمہوری ملکوں کے حوالے سے بھی داستاں در داستاں سلسلہ دُور تک پھیلا ہوا ہے! تفصیل کیا لکھی جائے۔ اپنے پیٹ سے چیتھڑا ہٹانے والی بات ہوگی!
یہ سینکڑوں سال پہلے کی نہیں‘ چند برس پہلے کی بات ہے۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے دو مسلمان پروفیسروں شہزاد رحمن اور حسین عسکری نے ''اسلامی انڈیکس‘‘ کے نام سے دنیا کے مختلف ملکوں کو ایک کسوٹی پر پرکھا۔ اس کسوٹی میں بہت سے عوامل پیش نظر رکھے گئے۔ پہلا عامل اقتصادیات کا تھا کہ ایک ملک کے عوام کو معاشی مواقع کتنی آزادی سے ملتے ہیں؟ معاہدوں کی پاسداری ہوتی ہے یا نہیں! کیا روزگار کے مواقع انصاف پر مبنی ہیں؟ کیا تعلیم سب کیلئے آسان ہے؟ کیا بنیادی معاشی ضروریات پوری ہو رہی ہیں؟ کیا ریاست بے روزگاروں کی دستگیری کر رہی ہے؟
دوسرا عامل گورننس اور قانون کا تھا۔ کیا گورننس معیاری ہے یا نہیں؟ کیا عوام کو جلد انصاف مل رہا ہے؟
تیسرا عامل بنیادی اور سیاسی حقوق کا تھا۔ اس میں خواتین کے حقوق بھی شامل تھے۔ کیا سیاسی سرگرمیوں پر قدغن ہے یا آزادی؟ ملازمتوں میں عورتوں کا کتنا حصہ ہے؟ منتخب اداروں میں ان کی تعداد کیا ہے؟ حکومتی فرائض کی بجا آوری میں مختلف ریاستی اداروں کی مداخلت کتنی ہے؟
چوتھا عامل بین الاقوامی تعلقات کے ضمن میں تھا۔ ماحولیات کے حوالے سے ملک کہاں کھڑا ہے؟ پینے کا پانی کتنوں کو صاف میسر ہے؟ فضا کی کوالٹی کیسی ہے؟ انفارمیشن حاصل کرنے کے حقوق کس قدر ہیں۔ کن ملکوں میں کرپشن کا دور دورہ ہے؟ کہاں کہاں حکمران ظالم ہیں اور آمر! قانون کے سامنے کہاں برابری مفقود ہے؟ معاملات بات چیت سے طے ہوتے ہیں یا ڈنڈے سے؟
یاد رہے کہ کسوٹی کے یہ تمام اجزا قرآن و سنت سے لیے گئے تھے۔ ملکوں کو اس کسوٹی پر پرکھا گیا تو آپ کا کیا خیال ہے کون کون سے ممالک فہرست میں ٹاپ پر آئے؟ اور کون کون سے نیچے رہے؟
جناب! یہ آ ئرلینڈ تھا جو اول نمبر پر آیا‘ پہلا مسلمان ملک‘ ملائیشیا جو فہرست میں نظر آ سکا‘ 33ویں نمبر پر تھا۔ دوسرا کویت تھا جو 42ویں پوزیشن پر آیا۔ امریکہ کی پوزیشن پندرہویں تھی‘ فرانس کی سترہ تھی۔ پہلے دس میں ڈنمارک‘ نیوزی لینڈ‘ سنگاپور‘ فن لینڈ‘ ناروے‘ بیلجیئم اور برطانیہ شامل تھے۔ آئس لینڈ‘ فن لینڈ‘ کینیڈا اور آسٹریلیا بھی اُن ملکوں سے بازی لے گئے جہاں مسلمان حکومتیں ہیں۔ ٹاپ پر آنے والے ملکوں میں حکومتی اراکین ناجائز دولت نہیں اکٹھی کر سکتے۔ انہیں عدالتوں میں بنفسِ نفیس حاضر ہونا پڑتا ہے۔ سادہ رہائش گاہوں میں رہتے ہیں۔ ٹرینوں‘ بسوں اور سائیکلوں پر سفر کرتے ہیں۔ شاہانہ دعوتوں کا کوئی رواج نہیں! ایک ایک پائی کا حساب دینا ہوتا ہے۔ ہر تین چار برس بعد سربراہِ مملکت تبدیل ہوتا ہے۔ بنیادی ضرورتوں کی ذمہ داری ریاست پر ہے۔ جو قارئین اس انڈیکس کا تفصیل سے مطالعہ کرنا چاہتے ہیں وہ انٹرنیٹ پر جارج واشنگٹن یونیورسٹی اور حسین عسکری کے نام سے یا اسلامک انڈیکس کے حوالے سے تفصیل جان سکتے ہیں!
جوبائیڈن نے جب مکان بیچنے کا فیصلہ کیا تو اس وقت اس کی بیوی‘ اس کے بیٹے کی اصلی نہیں‘ بلکہ سوتیلی ماں تھی! مگر وہ اپنے شوہر کے فیصلے میں برابر کی شریک تھی۔ اس نے یہ سوچا نہ کہا کہ جائیداد سوتیلے بیٹے پر کیوں قربان کروں؟ میرے اپنے بچوں کا کیا بنے گا؟
ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا؟ معاشرے دعاؤں‘ کوسنوں‘ فتووں اور نفرتوں سے ترقی نہیں کرتے۔ نظام کی شفافیت سے کرتے ہیں! سنگاپور میں سیاہ فام انڈین تامل صدرِ مملکت رہا۔ آج کل ایک حجاب پوش خاتون صدر ہے! ایک سیاہ فام عورت کینیڈا کی گورنر جنرل رہی۔ ایک چینی خاتون بھی! آج کل ان کا وزیر دفاع سکھ ہے! سفید فام اکثریت کو خطرہ محسوس ہوا نہ ان کے مذہب کو دھچکا لگا۔ امریکہ میں ایک صدی پہلے تک جن سیاہ فاموں کو بسوں میں سفید فام کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی‘ انہی سیاہ فاموں کی اولاد میں سے اوبامہ آٹھ سال حکمران رہا!
کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہے! ہماری اسمبلیوں کی بہت سی نشستوں پر تو ابھی تک وہ خاندان قابض ہیں جو 1857ء میں دولت اور طاقت کے مالک بنے!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں