یہ لاہور سے ایک پرانے دوست کا فون تھا۔ کہنے لگا: آج کل تم فلاں صاحب کے ساتھ زیادہ ہی اُٹھ بیٹھ رہے ہو! پوچھا: تم کیوں حساب کتاب کر رہے ہو! کہنے لگا: حساب کتاب نہیں کر رہا‘ صرف متنبہ کرنا تھا کہ اگر وہ صاحب کچھ رقم بطور قرض مانگیں تو نہ دینا۔
یاد آیا کہ ''اُن‘‘ صاحب نے یہ فرمائش کی تھی، خوش بختی یا بد قسمتی سے اُس دن مطلوبہ رقم میسّر نہیں تھی ورنہ پیش کر دیتا۔ یوں بچ گئے۔
آپ کا کیا خیال ہے اُن صاحب نے یہ شہرت کتنی تگ و دو سے حاصل کی ہو گی؟ یقینا بہت زیادہ تگ و دو سے! ایک دو افراد سے قرض مانگ کر واپس نہ کیا جائے تو شہرت خراب نہیں ہوتی۔ وعدہ خلافی میں مشہور ہونے کے لیے ایسی حرکت بار بار کرنا پڑتی ہے۔ درجنوں دوستوں، رشتے داروں سے قرض لینا پڑتا ہے۔ پھر واپس نہیں کیا جاتا۔ تقاضوں پر تقاضے ہوں تب بھی اعصاب مضبوط رکھ کر بہانے بنانے پڑتے ہیں۔ جو قرض خواہ گریبان میں ہاتھ ڈالنے والے لگیں انہیں کچھ حصّہ واپس کر کے ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے۔ جو شرفا ہوں انہیں مسلسل جُل دیا جاتا ہے۔ تب کہیں جا کر ایسی شہرت بنتی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو متنبہ کرتے پھریں کہ یار فلاں رقم مانگے گا، نہ دینا۔ دو گے تو خوار ہو گے!
قرض لے کر قرض خواہ کو خراب و خستہ کرنے والوں کی دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم تو وہ ہے جو ماشاء اللہ واپس کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے۔ اس کی آگے پھر دو قسمیں ہیں۔ اے اور بی۔ اے میں وہ حضرات ہیں جو یہ کام چھوٹی اور مقامی سطح پر کرتے ہیں۔ رشتہ داروں، دوستوں سے دس دس ہزار، بیس بیس ہزار لے لیے۔ بعض سے پچاس ہزار یا لاکھ تک نکلوا لیے۔ پھر جُل دینا شروع کر دیا۔ فون نہیں اٹھاتے۔ قرض خواہ گھر تک پہنچ جائے تو پچھلے دروازے سے نکل کر غائب ہو جاتے ہیں۔ معاملات سنجیدہ ہو جائیں تو رہائش گاہ بدل لی۔ شہر بدلنے کی نوبت بھی آ سکتی ہے۔ یہ حضرات انسانی نفسیات کے ماہر ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگ نا امید ہو کر، آخر کار، دی ہوئی رقم بھول جاتے ہیں۔ انہیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ایسے شرفا قرض خواہوں میں کون کون سے ہیں، جو زیادہ سختی کے ساتھ واپسی کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان سے نمٹنے کا ہنر بھی وہ خوب جانتے ہیں۔ رسید وغیرہ عام طور پر ان معاملات میں ہوتی نہیں کہ کوئی عدالت جائے۔
''بی‘‘ میں وہ مضبوط اعصاب والے کاروباری حضرات آتے ہیں جو لے کر واپس نہ کرنے کا کام ''کارپوریٹ‘‘ سطح پر کرتے ہیں۔ یہ کسی نہ کسی پراجیکٹ کے لیے رقم لینا شروع کرتے ہیں۔ اعتبار ان کا پہلے سے احباب یا کلائنٹس کے حلقے میں مستحکم ہو چکا ہوتا ہے۔ رقم کروڑوں میں ہو چکتی ہے تو غائب ہو جاتے ہیں۔ ایک معروف شخص پنجاب سے دیارِ مغرب کو چلا گیا۔ ایک صاحب کا جڑواں شہروں میں بزنس تھا، جس کا تعلق اشتہار بازی کے فن سے تھا۔ وہ بھی بحیرۂ روم پار کر گئے۔ یہ پرانی بات ہے! ڈبل شاہ تو لیجنڈ ہی بن چکا ہے۔ کچھ حضرات نے مذہب کو ڈھال بنا کر بھی یہ کام کیا مگر پکڑے گئے۔ دوسری قسم وہ ہے جو واپس کرنے کا عزم رکھتے ہیں مگر ان کی نیچر ایسی ہے کہ وعدہ خلافی کو بُرا نہیں سمجھتے۔ اگر رقم تین ماہ کے لیے لی ہے تو ان کے خیال میں یہ وعدہ ''قرآن یا حدیث‘‘ نہیں کہ اس کی پابندی کی جائے۔ آپ یاد دہانی کراتے رہیں گے۔ وہ وعدہ کر کر کے توڑتے رہیں گے۔ پھر کل رقم کا نصف لوٹائیں گے اور باقی نصف کے لیے آپ کو تھوڑا سا اور پریشان کریں گے۔ کیا ایسے افراد کو ہم Casual (غیر سنجیدہ) کہہ سکتے ہیں؟ یا انہیں عہد شکن کہیں گے؟؟ بے ایمان یقینا نہیں کہہ سکتے اس لیے کہ ان کا ارادہ رقم ہڑپ کرنے کا ہرگز نہیں! اصل بات یہ ہے کہ ایسے مقروضوں سے بھی اجتناب ہی بہتر ہے۔
ایک عقل مند اور سرد و گرم چشیدہ دوست کی تھیوری یہ ہے کہ تیس چالیس برس کی عملی زندگی میں آپ کو زیادہ سے زیادہ تین یا چار ایسے افراد ملتے ہیں جنہیں آپ آنکھیں بند کر کے قرض دے سکیں۔ وہ آپ کو مقررہ وقت پر گھر آ کر واپس کریں گے۔ مگر اس سے زیادہ تعداد کی، بقول ان کے، امید نہیں ر کھنی چاہیے۔ انسان سے زیادہ پیچیدہ مخلوق شاید ہی کوئی اور ہو۔ تہہ در تہہ ایک پرت کے نیچے ایک اور پرت! عزیز ترین احباب کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب لین دین ہو اور مالی معاملات درمیان میں پڑیں۔ ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والے بھائی بہن‘ جائیداد کے بٹوارے میں خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔ سالہا سال مقدمے چلتے ہیں۔ شکلیں دیکھنا ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ قریبی اعزہ کا بھی اصل روپ اس وقت سامنے آتا ہے‘ جب ان سے ادھار مانگا جائے یا ادھار دیا جائے۔ بعض اوقات دو اور دو چار کی طرح معلوم ہوتا ہے کہ یہ ''قرض‘‘ واپس نہیں ملے گا مگر علائق دینے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں بجائے اس کے کہ تعلقات آلودہ کئے جائیں‘ اسے قرض کے بجائے صدقہ سمجھ کر دل ہی دل میں معاف کر دیا جائے تو بہت سی تلخیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ قرض دیتے یا لیتے ہوئے وقت کا تعین لازماً ہونا چاہیے۔ کہ اتنے عرصہ بعد واپسی ہو گی۔ یہ جو تین چار افراد پوری زندگی میں آپ کو قابلِ اعتبار ملتے ہیں یہ وقت مقررہ پر رقم نہ لوٹا سکیں تو بنفس نفیس اس دن، یا اُس سے پہلے، آ کر وضاحت کریں گے اور نئے وقت کے لیے نئی اجازت لیں گے۔ اصول یہ ہے کہ کسی سے مانگو تو وقت معینہ پر واپس کرو، اور کسی کو دو اور وہ عہد شکنی کا مرتکب ہو تو آئندہ اسے نہ دو!
یہ تو روپے پیسے کی بات ہو گئی۔ کیا ہم باقی امور میں بھی صحت مند شہرت کے مالک ہیں؟ کسی سے کوئی کتاب لی، مہمان آئے اور پڑوسیوں سے پلنگ یا بستر لیے، زیادہ کھانا پکانے کے لیے بڑا برتن مانگنا پڑا۔ وزن کرنے والی مشین لینا پڑی۔ جب ہم چھوٹے تھے تو ایک دوسرے کے گھروں سے استری مانگنے کا رواج تھا۔ اگر دینے والے کو اپنی شے واپس لینے کے لیے یاد دہانی کرانا پڑی تو یہ نوبت آنی نہیں چاہیے تھی۔ سورہ الماعون میں تنبیہہ کی گئی ہے کہ اڑوس پڑوس کے لوگوں کو یا رشتہ داروں کو چھوٹی موٹی شے کی ضرورت ہو تو دینا ہو گی۔ معاشرہ ایک دوسرے سے پیوست ہونے کا نام ہے۔ دوسروں سے بے نیازی نہیں برتی جا سکتی۔ سب کو کسی نہ کسی موقع پر کچھ نہ کچھ مانگنا پڑتا ہے۔ جس طرح ایسے مواقع پر کام آنا فرض ہے، اسی طرح، استعمال کے بعد اشیا کی واپسی بھی لازم ہے۔ ہم میں سے کچھ ملا نصرالدین بن جاتے ہیں۔ اس نے ہمسائے سے صراحی مانگی۔ واپس کی تو ٹوٹی ہوئی حالت میں تھی، جھگڑا ہو گیا۔ ملّا نے کہا: اول تو میں نے جب صراحی واپس کی تو بالکل ٹھیک حالت میں تھی۔ دوم جب ملی تو اسی وقت شکستہ تھی۔ سوم یہ کہ میں نے کبھی لی ہی نہیں!
یہ سب کچھ گھر سے سیکھا جاتا ہے۔ نسلوں تک اس کی تاثیر منتقل ہوتی ہے۔ اگر بچے دیکھ رہے ہیں کہ باپ یا ماں نے کسی سے کوئی شے مانگی اور پھر وہ یہیں پڑی رہی یہاں تک کہ شے کا مالک آیا اور آ کر خود واپس لے گیا تو یہ رویہ ان کی تربیت کا حصہ بن جائے گا۔ ہم میں سے کچھ کی کھال موٹی ہے۔ احساس سے عاری ہیں۔ عزتِ نفس بھی مجروح ہو جائے تو پروا نہیں! یہ ایک ناقابلِ رشک صورتِ حال ہے۔ غالباً گائوں کی ثقافت اس لحاظ سے بہتر تھی کہ شادی یا موت پر چار پائیاں، بستر، تکیے، حُقّے، برتن، دیگیں، سب مل کر مہیا کرتے تھے۔ تقریب ختم ہوتے ہی اشیا مالکوں کو واپس بھجوا دی جاتی تھیں۔ کسی کو یاد دہانی کرانا پڑتی تھی نہ خود آنا پڑتا تھا۔
اب یاد دہانیوں کا زمانہ ہے۔ یہاں تک کہ حکمرانوں کو بھی یاد دہانی کرانا پڑتی ہے کہ یہ وعدے کیے تھے، اب خدارا پورے کیجیے۔