گھر والے پریشان تھے اور ہکا بکا ! میں نے دو تبادلوں کا فوری حکم دیا تھا۔باورچی کو باغ میں تعینات کر دیا کہ باغبانی کے فرائض سرانجام دے۔مالی روتا ہوا آیا کہ اس کا آخر قصور کیا ہے۔ اسے تسلی دی اور ہدایت کی کہ باورچی خانہ سنبھال لے۔ آج سے وہ کھانا پکائے گا۔ بیوی نے احتجاج کیا۔ میں خاموش سنتا رہا۔مگر فیصلہ نہ بدلا۔ بچوں نے ان تبدیلیوں کی وجہ پوچھی۔ انہیں کہا کہ منہ بند رکھیں اور گھر کے معاملات میں ٹانگ نہ اڑائیں۔ گھر میرا ہے۔ ان کا نہیں۔
باغبان نے کھانا کیا پکانا تھا۔ پلاؤ بنانے کی کوشش کرتا تو کھچڑی ٹائپ شے بن جاتی‘ دال تک نہ بنا پاتا۔ تنگ آکر بیوی نے خود پکا نا شروع کیا۔ ایک دن کہنے لگی کہ باورچی ( یعنی باغبان ) کو فارغ کر دینا چاہیے۔ میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور الفاظ چبا چبا کر کہا کہ ایسا سوچنا بھی مت! نہ جانے میری آنکھوں میں اس نیک بخت نے کیا دیکھا کہ سہم گئی۔ اس دن کے بعد اس نے باورچی کی نااہلی کا کبھی تذکرہ نہ کیا۔ مہمان زیادہ آجاتے تو کھانا بازار سے منگوا لیتی۔ باغ کی جو حالت ہوئی‘ نا قابلِ بیان تھی۔ہر طرف جھاڑ جھنکاڑتھے۔ باغ کے درمیان چلنے والی نہر‘ جس کا پانی شیشے کی طرح صا ف ہوتا تھا‘ کثافت سے بھر گئی۔ درخت ٹنڈ منڈ ہو گئے۔ طوطے‘ بلبلیں اور مینائیں ہجرت کر کے دوسرے چمنستانوں کو سدھار گئیں۔ شاخوں پر زاغ و زغن نظر آنے لگے۔ سبزہ زرد ہو گیا۔ روشیں کوڑا دان بن گئیں۔ پودے سوکھ گئے۔ پھول غائب ہو گئے۔ پہلے جس باغ میں کنبوں کے کنبے سیر کے لیے آتے تھے‘ وہاں آنکھیں آدم زاد کو دیکھنے کے لیے ترس گئیں۔ باورچی کو باغبانی کی الف بے نہیں معلوم تھی۔ مگر میری آمریت کے سامنے سب بے بس تھے۔ محلے والوں نے باغ کی ویرانی کا پوچھا تو میں نے انہیں اپنے کام سے کام رکھنے کی ہدایت کی۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرا اپنا باغ ہے۔ میں اسے باغ رہنے دوں یا جہنم بنا دوں‘ تمہیں کیا ؟
خاندان کی دو فیکٹریاں بھی میری تحویل میں تھیں۔ ایک میں جوتے بنتے تھے دوسری ملبوسات تیار کرتی تھی۔ کاروبار اچھا چل رہا تھا۔ مقامی منڈی تو تھی ہی‘ مال برآمد بھی کیا جاتا تھا۔ دونوں فیکٹریوں میں سے جوتے بنانے والی فیکٹری بڑی تھی۔ خاندان کی آمدنی کا زیادہ دارومدار اسی پر تھا۔ اس کا ایم ڈی ایک فعّال‘ تجربہ کار اور انتھک جنٹلمین تھا۔ ایک صبح فیکٹری میں اپنے دفتر پہنچ کر میں نے اس کی برطرفی کا حکم جاری کیا۔ اور اس کی جگہ طالب کو ایم ڈی مقرر کر دیا۔ یہ طالب کون تھا؟ طالب اسی فیکٹری میں ایک معمولی اسسٹنٹ فورمین تھا۔ آدھے درجن ورکروں کا انچارج! کئی سال پہلے ایک مزدور کی حیثیت میں نوکری شروع کی تھی۔ ذہانت سے عاری! کئی عشروں کے بعد مشکل سے اسسٹنٹ فورمین کی سیٹ تک پہنچ پایا تھا۔ اسے ایم ڈی لگایا تو کیا فیکٹری والے‘ کیا خاندان والے‘ کیا میرا حلقۂ احباب‘ سب حیرت زدہ رہ گئے۔ طالب کو خود بھی یقین نہ آیا۔ وہ متذبذب تھا مگر میں نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور اسے یہ خبر دے کر ششدر کر دیا کہ وہ ایک ذہین و فطین لائق شخص ہے۔ لوگ مجھ سے پوچھ پوچھ کر تھک گئے کہ آخر طالب کو میں نے کیوں چُنا؟ سب کو معلوم تھا کہ میں اسے ذاتی طور پر جانتا ہی نہیں تھا‘ تو پھر کس کے کہنے پر اسے اتنی بڑی فیکٹری کا سربراہ لگا یا ؟ مگر میں نے کسی کو اس انتخاب کی وجہ نہ بتائی۔ یہ ایک راز تھا جو صرف مجھے ہی معلوم تھا۔ اس ضمن میں فضا اس قدر پُر اسرار ہو گئی کہ لوگ پہروں بیٹھ کر سوچتے رہتے اور اس انتخاب کی وجہ جاننے کی خاطر آپس میں بحث کرتے رہتے مگر اندازوں سے آگے کوئی نہ بڑھ پاتا۔
طالب ایم ڈی بن گیا۔ حد درجہ نالائق تھا۔ ذہانت اوسط درجے سے کم تھی۔ آئی کیو صفر تھا۔ میٹنگ میں بات نہ کر سکتا۔ فائل پر کچھ لکھنے کی صلاحیت سے عاری تھا۔ فیصلہ سازی کی اس میں سکت تک نہ تھی۔ اپنی نالائقی چھپانے کے لیے آئے دن پرسنل سٹاف تبدیل کرتا رہتا۔ کبھی اپنا پرسنل سیکرٹری بدل دیتا۔ کبھی ایڈمنسٹریشن کے منیجر کا تبادلہ کر دیتا۔ کبھی ڈائریکٹر مالیات کو ہٹا دیتا۔ عملی طور پر فیکٹری کا انتظام میرے ہی ہاتھ میں آ گیا۔ فیصلے میں خود کرتا۔ تاہم میں طالب کی خوب تعریف بھی کرتا جسے سُن کر سب دل میں ہنستے۔ خاندان والوں نے اور مخلص دوستوں نے بہت سمجھایا کہ اس نااہل شخص کو چلتا کرو مگر میں نے کسی کی نہ سنی۔ فیکٹری کی پیداوار کم ہونے لگی۔ منافع سکڑنے لگا۔ تاہم میں سب کو یقین دلاتا رہتا کہ انتظار کرو اور تلقین کرتا کہ طالب کی صلاحیتوں پر بھروسا کرو۔
گاؤں میں بھی ہماری زمین اور مکانات تھے۔وہاں ایک منیجر تھا جو زمین کے معاملات کی دیکھ بھال کرتا تھا۔اسے نوکری سے نکال کر میں نے طارق نامی ایک شخص کو منیجر مقرر کیا۔یہ بھی بس نکما ہی تھا اور نکھٹو ! گاؤں کے لوگوں نے کچھ عرصہ بعد مجھے اس کی کارستانیوں سے آگاہ بھی کیا مگر میں نے طارق کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا۔بالآخر میری پالیسیوں کے نتائج نکلنا شروع ہوئے۔ میری آمریت سے زچ ہو کر بیوی بچے مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ دونوں فیکٹریاں بند ہو گئیں۔ طالب کی فیملی بہت امیر ہو چکی تھی۔ اب یہ لوگ مجھے سلام تک نہ کرتے۔ گاؤں والے مکان بوسیدہ ہو کر گرنا شروع ہو گئے۔ طارق کی کارکردگی صفر نکلی۔ اس نے زرعی پیداوار میں سے تھوڑا سا حصہ ہمیں دے دلا کر باقی سے اپنے بھڑولے بھر لیے۔ خاندان والوں نے ایک میٹنگ بلا کر مجھے یوں سمجھیے معزول کر دیا اور تمام معاملات میرے ہاتھ سے لے لیے۔مگر جو اِن کے ہاتھ آیا وہ بربادی تھی اور کھنڈر! فیکٹریوں‘ کھیتوں اور گھروں کو دوبارہ بحال کرنا آسان نہ تھا۔ میرے اپنے رہائشی یونٹ کا بھی برا حال تھا۔ باغ بان‘ جو پیشے سے باورچی تھا‘ بھاگ گیا تھا۔ شہر والے‘ یہاں تک کہ میونسپل کمیٹی والے بھی‘ کوڑا اُس ویرانے میں ڈمپ کرتے تھے جو کبھی باغ تھا اور سیرگاہ!
آج میں اس راز سے پردہ اٹھا دینا چاتا ہوں کہ یہ سب کام‘ یہ عجیب و غریب تعیناتیاں میں کیوں کرتا رہا۔ اصل میں یہ سارے فیصلے میرے ڈرائیور کی تجاویز اور ہدایات کا نتیجہ تھے۔ یہ اسی کا مشورہ تھاکہ فیکٹری کا ایم ڈی فلاں کو لگایا جائے۔ طالب‘ ڈرائیور ہی کی دریافت تھا۔احتجاج کے باوجود میں اسے ہٹا نہیں سکتا تھا۔ طارق کی تعیناتی کے پیچھے بھی یہی ہدایات تھیں۔ حالات بگڑنا تو پہلے دن ہی سے شروع ہو گئے تھے مگر ڈرائیور ہر بار یہی کہتا کہ یہ بگاڑ عارضی ہے اور یہ کہ زبردست کامیابی اسی بگاڑ کے اندر سے نکلے گی۔ مگر افسوس ایسا نہ ہوا۔ سب کچھ تباہ ہو گیا۔ جس دن خاندان نے مجھ سے معاملات کا چارج واپس لیا‘ اُسی دن ڈرائیور بھی غائب ہو گیا۔ گویا یہی اس کا مشن تھا۔
توبہ! کیسا ڈراؤنا خواب تھا یہ ! ہڑبڑا کر اٹھا‘ کلمہ پڑھا پھر آیت الکرسی ! یہ خوابوں کی دنیا بھی عجیب و غریب ہے۔ کہاں میں کہاں دو دو فیکٹریاں! کہاں باغ! اور کہاں باورچی کی عیاشی! یہاں تو ساری زندگی اہلیہ نے خود کھانا پکایا۔ بزرگ ہمیشہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ سونے سے پہلے چاروں قُل پڑھ لیا کرو اور دائیں کروٹ سویا کرو۔ ورنہ بے ہنگم خواب آئیں گے۔میرے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے !