امریکہ میں ایک کینسر ہسپتال کے بانی‘ پاکستانی نژادڈاکڑ نے کرسمس پر مریضوں کو تحفہ دیا۔ اس نے دو سو مریضوں کی واجب الادا فیس‘ ساڑھے چھ لاکھ ڈالر معاف کر دی۔
ہمارے عالم فاضل دوست جناب اسلم ملک نے اس خبر پر لطیف مگر دردناک تبصرہ کرتے ہوئے غنی کشمیری کا شہرہ آفاق شعر چسپاں کیا ہے؎
غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعان را تماشا کُن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کُند چشمِ زلیخا را
کہ کنعان کے بزرگ ( حضرت یعقوب) کا دن تو تاریکی میں ڈوبا ہے مگر ان کا نورِ نظر زلیخا کی آنکھوں کو روشن کررہا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہ ڈاکٹر جو ترقی یافتہ ملکوں میں بے مثال کارکردگی دکھا رہے ہیں ‘ ہمارے لخت ہائے جگر ہیں‘ ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں سے پڑھ کر گئے ہیں۔ہر ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کاش یہ اپنے ملک کو فائدہ پہنچاتے ! مریض یہاں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں اور پاکستانی ڈاکٹر امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ شکوہ جائز ہے ؟ ہماری سب سے بڑی دلیل اس حوالے سے یہ ہے کہ قوم ایک ڈاکٹر تیار کرنے پر زرِ کثیر اور بہت سے وسائل خرچ کرتی ہے مگر جب ڈاکٹر قوم کی خدمت کرنے کے قابل ہوتا ہے تو ملک چھوڑ جاتا ہے۔ یہ دلیل بظاہر قوی نظر آتی ہے مگر معاملے کے تین پہلو اس دلیل کو منہدم کر دیتے ہیں۔ پہلا یہ کہ یہ گلہ صرف ڈاکٹروں سے کیوں ؟ بزنس مین ‘ انجینئر ‘ پروفیسر‘ سبھی کی تعلیم و تربیت پر قوم کے وسائل خرچ ہوتے ہیں۔ وہ بھی تو باہر سدھار جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان کے علمائے دین سے امریکہ اور یورپ بھرا پڑا ہے۔ یہ حضرات جن مدارس سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں وہ بھی عوام کے مہیا کردہ وسائل سے چلتے ہیں۔ دوسرا پہلو یہ کہ آپ نے ایک مرد یا عورت کو ڈاکٹر بنایا تو اسے ساری زندگی کیلئے یرغمال کیسے بنا سکتے ہیں ؟ کیا اس نے کسی معاہدے پر انگوٹھا لگایا تھا کہ وہ ساری زندگی ملک ہی میں گزارے گا خواہ اس کے ساتھ مسلسل نا انصافیاں ہوتی رہیں ؟ تیسرا پہلو بہت دلچسپ ہے۔ یہ جو سینکڑوں ہزاروں ڈاکٹر سی ایس ایس کر کے اسسٹنٹ کمشنر‘ ٹیکس افسر‘ کسٹم افسر‘ ایس پی‘ اکاؤنٹنٹ جنرل بن جاتے ہیں ‘ فارن سروس میں چلے جاتے ہیں اور یوں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے میڈیکل پروفیشن ترک کر دیتے ہیں ‘ ان کی شکایت کوئی کیوں نہیں کرتا ؟
کوئی مانے یانہ مانے‘ ہماری سول سروس کا استعماری ڈھانچہ ڈاکٹروں کو میڈیکل پروفیشن سے نکال باہر کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہے۔ اس کالم نگار نے ایک ڈاکٹر سے پوچھا کہ آپ ڈاکٹر بننے کے بعد مقابلے کے امتحان میں بیٹھ گئے اور افسر بن گئے ؟ آخر کیوں ؟ اس نے جو سبب بتایا وہ غور کرنے کے قابل ہے بشرطیکہ ہم غور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ وہ فیصل آباد کے ایک سرکاری ہسپتال میں بطور ڈاکٹر تعینات تھا ( یہ پینتیس چالیس سال پہلے کی بات ہے ) کیا کیا خواب تھے‘ مزید پڑھنے کے‘ سپیشلائز کرنے کے۔ پھر ایک دن ڈپٹی کمشنر نے اسے اپنے گھر طلب کیا۔ اُس کی والدہ بیمار تھی۔ جس تحکمانہ لہجے کے ساتھ اس نے ڈاکٹر سے بات کی اور جس طرح اس کی عزتِ نفس کو روندا‘ وہ ڈاکٹر ہی جانتا ہے یا اس کا خدا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ڈاکٹر نے فیصلہ کیا کہ اینج تے فیر اینج ہی سہی۔ وہ مقابلے کے امتحان میں بیٹھا اور افسر بن گیا۔ آپ ڈاکٹر کو ساری زندگی گھسیٹ گھسیٹ کر ریٹائرمنٹ کے قریب لے جا کر مشکل سے انیس یا بیس گریڈ دیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں سی ایس ایس کے افسروں کو عین عالم ِشباب میں بیس گریڈ مل جاتا ہے اور اکیس یا بائیس میں شان و شوکت اور تزک و احتشام کے ساتھ ریٹائر ہوتے ہیں۔ مراعات کی کوئی حد نہیں‘ سرکاری مکان ‘ گاڑیوں کی ریل پیل ‘ گھر کا فون‘ ڈرائیور‘ نوکر چاکر‘ پلاٹ‘ بیرونی کورس‘ دورے‘ سماجی رتبہ! اس کے مقابلے میں ڈاکٹر کو جو کچھ دیتے ہیں ‘ بتانے کی ضرورت نہیں۔ اس ملک کو اگر ایسی حکومتیں ملتیں جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتیں تو کئی دہائیاں قبل ایک کمیشن تشکیل دیتیں جو اس بات پر غور کرتا کہ ڈاکٹر سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھ کر اپنے پیشے کو کیوں چھوڑ رہے ہیں ؟ پھر اُن اسباب و علل کا تدارک کیا جاتا۔ مگر ہماری حکومتوں میں اتنی سوچ بچار کہاں !بیچارے اوسط ذہانت سے کم درجے کے حکمران! اخلاص سے عاری وزرا‘ اُمرا اور عمائدین ! خود غرض بیورو کریسی ! چنانچہ ہر سال بہترین دماغ رکھنے والے ذہین و فطین ڈاکٹر سی ایس ایس کی افسری اپنا لیتے ہیں۔ تو جناب ! بیرون ملک جانے والے ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ ان کی بھی فکر کیجیے یہ کیوں نہیں نظر آتے آپ کو ؟
مت بھولیے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں ڈاکٹر سوسائٹی کے معزز ترین طبقے میں شمار ہوتے ہیں۔ کسی ڈی سی ‘ ایس پی‘ سیکرٹری یا وزیر کی مجال نہیں کہ انہیں اپنا غلام سمجھے۔ بینک ان کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں کہ گھر خریدنا ہے تو قرضہ حاضر ہے۔ ملازمتوں کا استحکام ہے۔ لوکم ڈاکٹر کو ( جو چھٹی پر جانے والے ڈاکٹر کی جگہ چند دنوں کے لیے کام کرتا ہے ) فی گھنٹہ کے حساب سے معاوضہ ملتا ہے۔ معاشرے میں ان کا ( اور اساتذہ کا بھی ) وہ مقام ہے جو اس احساسِ کمتری کے مارے ہوئے معاشرے میں ڈی سی ‘ اور کرنل کا ہے۔ ڈی سی اور کرنل تو پھر پڑھے لکھے ہیں ‘ یہاں تو ایک پٹواری‘ ایک ایس ایچ او ‘ بڑے سے بڑے ڈاکٹر یا پروفیسر کی عزت درخت پر لٹکا سکتا ہے۔ ایک سیکشن افسر ایک ڈاکٹر کے کیرئیر سے کھیل سکتا ہے۔ ایک مجسٹریٹ ایک پی ایچ ڈی پرنسپل کی ڈیوٹی الیکشن بوتھ پر لگا سکتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ڈاکٹر تو ڈاکٹر ہے‘ ایک نرس یا فارما سسٹ بھی اپنے دائرہ کار میں مکمل خود مختار ہے اور آزاد۔ کوئی اس پر رعب نہیں جھاڑ سکتا۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون ایک ہسپتال میں ایک مریض کی عیادت کو گئے۔ انہوں نے ٹائی اتاری‘ جوتے بدلے‘ سینی ٹائزر سے ہاتھ صاف کیے‘ مگر ان کے ساتھ جو ٹیلیویژن ٹیم تھی انہوں نے یہ احتیاط نہ برتی۔ متعلقہ سرجن نے اس پر سخت اعتراض اور احتجاج کیا ‘ وزیر اعظم کی بھی پروا نہ کی۔ اور یہ تو گزشتہ سال مئی کا واقعہ ہے‘ برسلز (بلجیم ) میں خاتون وزیر اعظم ایک ہسپتال کے دورے پر گئی۔ ڈاکٹر اور سٹاف ناخوش تھے کیونکہ ان کے خیال میں حکومت کورونا کے سلسلے میں تسلی بخش کردار نہیں ادا کر رہی تھی۔ انہوں نے احتجاج کیا۔ یوں کہ ڈاکٹر اور عملہ لائن بنا کر کھڑے ہو گئے۔ جیسے ہی وزیر اعظم کی کار پہنچی‘ سب نے منہ دوسری طرف کر لیے اور وزیر اعظم کی طرف پیٹھ کر لی۔ حکومت کی مجال نہ تھی کی کسی کے خلاف ایکشن لیتی۔
رہی یہ حقیقت کہ ہمارے ڈاکٹر فیس زیادہ لیتے ہیں‘ لوٹ مار مچاتے ہیں تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جو معاشرہ قائم ہی جھوٹ اور لوٹ مار پر ہے تو اس میں ڈاکٹر فرشتے کیسے بن سکتے ہیں ؟ جس ملک میں حکومتوں کے بننے بگڑنے میں نیم تعلیم یافتہ بزنس ٹائیکون بنیادی کردار ادا کریں ‘ جہاں ادویات کے سکینڈل میں وزیر کو ہٹا دیا جائے اور چند دن بعد اسے حکومتی پارٹی کا سیکرٹری جنرل لگا دیا جائے‘ جس ملک میں سیاست دانوں نے اپنے اپنے ‘‘ اے ٹی ایم ‘‘ رکھے ہوئے ہوں ‘ وہاں صرف ڈاکٹر ایمان داری سے کام کریں ! صرف ڈاکٹر ولی اللہ ہونے کا ثبوت دیں ! واہ ! حضور واہ !آپ کی منطقیں نرالی ہیں !