رِک پیری ریاستِ ٹیکساس کا گورنر تھا۔ اس دن وہ بہت جلدی میں تھا۔ ایک سرکاری اجلاس میں شرکت کرنا تھی اور تاخیر ہو رہی تھی۔ اس نے دو بار راستہ بدلا اور شارٹ کٹ کا سہارا لیا۔ ہائی وے پر اس کا ڈرائیور حدِ رفتار عبور کر کے گاڑی بہت زیادہ تیز چلا رہا تھا کہ ٹریفک پولیس نے گاڑی روک لی۔ ڈرائیور باہر نکلا اور خاتون انسپکٹر کو قائل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ اتنے میں گورنر خود گاڑی سے باہر نکل آیا اور انسپکٹر کو اپنا منصب بتا کر صورت حال کی وضاحت کرنے لگا۔انسپکٹر قائل نہ ہوئی اس لیے کہ اوور سپیڈنگ، بہر حال جرم تھا۔ آخر کار گورنر نے انسپکٹر سے کہا کہ جو کچھ کرنا ہے جلد کرو کہ میں لیٹ ہو رہا ہوں۔ انسپکٹر کا جواب تھا کہ میں ہر حال میں اپنا کام مکمل کروں گی۔ مگر معاملہ یہاں ختم نہ ہوا۔ بات میڈیا تک پہنچ گئی۔ میڈیا نے گورنر پر الزام لگایا کہ اس نے انسپکٹر پر اپنے منصب کے حوالے سے اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ آخر کار گورنر کو میڈیا کے سامنے معذرت کرنا پڑی ۔ اس نے تسلیم کیا کہ اسے گاڑی سے باہر نہیں نکلنا چاہیے تھا۔
دوسرا واقعہ سنیے۔ ڈیوڈ کیمرون جب برطانیہ کا وزیر اعظم تھا، ایک مریض کو دیکھنے ہسپتال گیا۔ جب وہ وارڈ میں تھا تو اوپر سے متعلقہ سرجن آ گیا۔ وزیر اعظم اور اس کی میڈیا ٹیم کو دیکھ کر سرجن ناراض ہوا۔ اس نے کہا: یہاں میں انچارج ہوں۔ وزیر اعظم کو فوراً وہاں سے جانا پڑا۔ بعد میں وزیر اعظم نے خود کہا کہ سرجن کو وزیر اعظم کے آنے کا پہلے سے علم نہیں تھا۔ مزید یہ کہ اسے ہائی جِین کے حوالے سے بھی تشویش ہو گی۔
اب تیسرا واقعہ سنیے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے وفاقی دارالحکومت کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال کے سربراہ کے خلاف ایک تحریک استحقاق پیش کی گئی ہے۔ الزام یہ ہے کہ عزت مآب سپیکر قومی اسمبلی کے حکم پر کورونا کے ایک مریض کو ہسپتال میں داخل نہیں کیا گیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ جب ہسپتال کے سربراہ کو ایک میٹنگ، جس کی صدارت عزت مآب سپیکر نے کرنا تھی، میں حاضر ہونے کے لیے کہا گیا تو وہ حاضر نہ ہوئے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق، ہسپتال کے ایک سینئر ڈاکٹر نے بتایا کہ دو اپریل کو سپیکر کے دفتر سے فون آیا‘ جس میں ہسپتال کو ہدایت کی گئی کہ ایک مریض کے لیے وی آئی پی کمرہ خالی کرایا جائے۔ ٹیلی فون کرنے والے صاحب کو بتایا گیا کہ پرائیویٹ کمروں ہی کو وی آئی پی کمروں میں تبدیل کیا جاتا ہے اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ تمام کمروں کو کورونا وارڈوں میں بدلا جا چکا ہے جہاں سے کسی مریض کو نکالنا ممکن نہیں۔ ڈاکٹر نے مزید بتایا کہ اس جواب سے سپیکر کا دفتر نا خوش ہوا۔ اس کے بعد ایک اور فون آیا۔ اب کے ہسپتال کے سربراہ کو سپیکر کی قیام گاہ پر بلایا گیا تھا جہاں ایک میٹنگ کا انعقاد ہونا تھا۔ چونکہ سربراہ کی فیملی میں کورونا کے دو مریض تھے اس لیے مناسب یہ سمجھا گیا کہ وہ میٹنگ میں نہ جائیں اور ان کے نائب میٹنگ اٹنڈ کریں؛ تاہم سپیکر کے دفتر کا اصرار تھا کہ سربراہ ذاتی طور پر آئیں۔ تحریک استحقاق لانے والے ایم این اے نے‘ جن کا تعلق حکومتی پارٹی سے ہے، ہسپتال کے موقف کی تردید کی ہے۔ ان کے بقول اس دعوے میں، کہ وی آئی پی کمرے کا مطالبہ کیا گیا تھا، کوئی صداقت نہیں۔ بات صرف مریض کو داخل کرنے کی تھی‘ مگر ہسپتال انتظامیہ نے یہ کہہ کر کہ بیڈ دستیاب نہیں، داخل کرنے سے انکار کر دیا۔ فریقین کے موقف میں فرق ہے!بہت زیادہ فرق!بقول فراق گورکھپوری
کس کا یقین کیجیے، کس کا یقیں نہ کیجیے
لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ
مگر فرض کیجیے ہسپتال کا یہ دعویٰ کہ مطالبہ وی آئی پی کمرے کا تھا، مبنی بر صداقت ہے تو اس میں برائی ہی کیا تھی۔ کیا اتنی اہم شخصیت کو اتنا حق بھی نہیں پہنچتا کہ اپنے کسی جاننے والے کے لیے وی آئی پی کمرہ خالی کرا سکیں۔ اگر کورونا کا ایک یا کچھ مریض کمرے سے نکال کر اپنے اپنے گھر بھیج دیے جاتے تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑتا‘ اور اگر کوٹھی میں طلب کیا گیا تو بڑے ڈاکٹر صاحب کو وہاں بالکل حاضر ہونا چاہیے تھا۔ بڑے بڑے ہوتے ہیں اور ماتحت ماتحت!
اصل میں ہماری قوم کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ مغرب کی نقالی میں ہم اپنی روایات بھولتے جا رہے ہیں۔ طبقاتی فرق کا کچھ خیال ہی نہیں کیا جا رہا۔ کالم کے شروع میں جو دو واقعات بیان کیے ہیں، ایسے واقعات ہی سے ہمارے اخلاق پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ گورنر کی تیز رفتار سواری کو پاکستان میں، بفرض محال، روک بھی لیا جاتا تو روکنے والی انسپکٹر کو ایسا سبق سکھایا جاتا کہ اس کی آئندہ نسلیں بھی یاد رکھتیں۔ رہا وہ بد تمیز ڈاکٹر جس نے برطانوی وزیر اعظم کو وارڈ سے نکال باہر کیا، ہمارے ملک میں ہوتا تو ایسی گستاخی کا سوچ بھی نہ سکتا بلکہ وزیر اعظم کے سامنے دست بستہ کھڑا ہو جاتا۔ انگریزوں اور امریکیوں کو کیا پتا کہ ہماری روایات کس قدر درخشاں ہیں۔ ہمارے جاگیردار تو عید کے دن اونچے طرے باندھ کر، اچکنوں میں ملبوس، نماز عید ادا کرنے کے فوراً بعد انگریز ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی کے لان میں جمع ہو جاتے تھے اور صاحب بہادر کے نوکروں کو بتاتے تھے کہ عید مبارک کہنے حاضر ہوئے ہیں۔ کئی گھنٹے کھڑے رہتے۔ پھر ایک نوکر آ کر اعلان کرتا کہ صاحب نے مبارک قبول کر لی ہے۔ اس پر تمام جاگیر دار ایک دوسرے سے گلے ملتے اور اظہارِ مسرت کرتے کہ صاحب نے اندر سے توجہ اور عنایت دے بھیجی ہے۔ یہ ہیں ہماری روایات! انگریز آقائوں کے جانے کے بعد بھی ہم نے ان روایات کا چراغ روشن رکھا۔ جبھی تو مغربی پاکستان کے گورنر نے میڈیکل کالج کے ایک نافرمان پرنسپل کو تھپڑ رسید کیا تھا! اور یہ تو چودہ پندرہ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک مرحوم وزیر دفاع نے ایک سینئر پولیس افسر کو تھپڑ مارا تھا۔ بڑے لوگوں کی گاڑیوں کا چالان کرنے کی کوشش کرنے والے بد دماغ کانسٹیبلوں کو ہمیشہ معافی مانگنا پڑی! فرقِ مراتب ہی میں ہمارے لیے راہِ نجات ہے۔ ہسپتال کے سربراہ کو قرار واقعی سزا دے کر نشان عبرت بنانا چاہیے کہ دوسروں کو سبق حاصل ہو اور آئندہ کوئی سر پھرا روایات کے خلاف چلنے کا سوچ بھی نہ سکے۔ کچھ عرصہ پہلے جب ایک نوجوان کو معصوم سرکاری اہلکاروں نے گولیوں کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتاردیا تو مقتول کے باپ کو انہی روایات کے تسلسل ہی میں ہمارے سربراہ حکومت نے اپنے محل میں طلب کیا تھا تا کہ اس سے تعزیت فرمائیں۔ کسی مغربی ملک کا کافر حکمران ہوتا تو مقتول کے گھر جا پہنچتا۔ ان سفید چمڑی والوں کو کیا علم کہ مقتدر شخصیات کی شان و شوکت کیا ہوتی ہے اور طمطراق کسے کہتے ہیں۔
ہم تو یہاں تک عرض کریں گے کہ ہسپتالوں میں اہم سرکاری شخصیات کا کوٹہ مقرر کر دیا جائے۔ مثال کے طور پر ہر وزیر کے پانچ مریض۔ ہر ایم این اے کے دو مریض۔ عزت مآب سپیکر اور عزت مآب چیئرمین سینیٹ کے دس دس مریض! یہ بیڈ ہمیشہ خالی رکھے جائیں۔ جیسے ہی کسی اہم سرکاری شخصیت یا ایم این اے کا کوئی جاننے والا بیمار پڑے، اس کے کوٹے کا بیڈ فوراً پیش خدمت کیا جائے۔ یہ اہم شخصیات ہی تو ہمارا سرمایہ ہیں۔ اگر عام مریض ان پر قربان ہو جائیں تو گھاٹے کا سودا نہیں۔