بنٹا اور سنٹا دو بھائی ہیں۔ دونوں کی شکل میں حیرت انگیز مماثلت ہے۔ ظاہر ہے دونوں کی پرورش، اٹھان، تربیت ایک ہی گھر میں ہوئی ہے۔ دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ بنٹا کو ایک بار اس کے باس نے صرف اتنا کہا کہ آپ کام پر توجہ نہیں دے رہے۔ بنٹا کے لیے یہ بہت بڑی بات تھی۔ اس نے دو راتیں کرب میں جاگ کر گزاریں۔ پھر اپنی ساری حکمت عملی تبدیل کی۔ ماتحت عملے کی میٹنگ بلائی‘ جہاں کام میں بہتری کی صورتیں سوچی گئیں۔ یہ ساری کوشش نتیجہ خیز ثابت ہوئی‘ یہاں تک کہ باس نے سب کے سامنے بنٹا کی تعریف کی۔ اس پر بنٹا نے شکریہ ادا کیا مگر ساتھ ہی کہا کہ اس بہتری کا کریڈٹ اس کی ساری ٹیم کو جاتا ہے۔ میٹنگ کے بعد اس کے ماتحتوں نے اسے مبارک دی تو اس نے کہا کہ آپ سب لوگ مبارک باد کے مستحق ہیں کیونکہ آپ کے تعاون کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔ سنٹا کی شخصیت بالکل مختلف ہے۔ اسے اس کا باس کام میں بہتری کا کہتا ہے تو وہ سنی ان سنی کر دیتا ہے۔ بھری میٹنگ میں اس کی بے عزتی کی جاتی ہے تو وہ آگے سے ہنستا رہتا ہے۔ دفتر میں بیٹھ کر خوش گپیاں لگاتا ہے۔ اسے بر طرف کر دیا جاتا ہے تو کوئی اور نوکری ڈھونڈ نکالتا ہے۔
غور کیجیے۔ شکلیں ایک جیسی! والدین وہی! ایک ہی گھر میں پلے بڑھے‘ مگر ذہنی سطح میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دونوں کے مختلف ردّ عمل آپ دیکھ چکے۔ ہمارے نزدیک اس کا سبب ذہنی ساخت ہے۔ یہ ذہنی ساخت ہی ہے جو سنٹا کو بتاتی ہے کہ جو کچھ تم کر رہے ہو اس میں غلط کچھ بھی نہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کچھ لوگ خوشامد اور جی حضوری میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ اس کالم نگار نے ایک شخص کو دیکھا جو ایک عورت کی تدفین کے وقت زار و قطار رو رہا تھا یا، رونے کی اداکاری کر رہا تھا۔ اس کا بس چلتا تو میّت کی جگہ لحد میں وہ خود لیٹ جاتا۔ یہ میت اس کے باس کے داماد کی خالہ کی تھی۔ پھر جب باس ریٹائر ہوا تو وہ سب کے سامنے اس کی خوب خوب برائیاں کر رہا تھا۔ اگر کوئی اسے سمجھاتا کہ یہ طرز عمل درست نہیں تو وہ ہرگز نہ سمجھ پاتا۔ اس کی ذہنی ساخت ہی ایسی ہے کہ وہ چاپلوسی اور طوطا چشمی‘ دونوں کو برا سمجھنے سے قاصر ہے۔ کیا آپ نے کسی خوشامد پسند کو خوشامد ترک کرتے دیکھا ہے؟ شایدکبھی نہیں! قدرت نے کچھ لوگوں کے اندر خوشامد کرنے کی صلاحیت شاید اس لیے رکھی ہے کہ خوشامد کیے جانے والے کا امتحان لیا جائے۔ روایت ہے کہ ایک صاحب نے حاکمِ وقت کی خوشامد کی۔ حاکم نے زمین سے مٹی اٹھائی اور اس کے منہ میں ڈال دی؛ تاہم ہر شخص میں خوشامد رد کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ انسانوں کی بھاری اکثریت خوشامد کے جال میں پھنس جاتی ہے۔ یہی امتحان ہے۔ اگر صاحبِ اقتدار خوشامد پرستوں کو نزدیک نہ آنے دے تو کامیابی اس کا استقبال کرتی ہے ورنہ تاریخ اپنا فیصلہ سنا کر رہتی ہے۔ شیخ مبارک نے، جو بہت بڑا عالم تھا، اور اس کے لائق بیٹوں فیضی اور ابوالفضل نے اکبر کی اس قدر تعریف کی، اس قدر خوشامد کی کہ وہ اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھنے لگا اور دین الٰہی ایجاد کر بیٹھا۔ قصیدہ گوئی خوشامد ہی کی ایک شکل ہے۔ اگر آپ نے خوشامد کی انتہا دیکھنی ہو تو فارسی اور اردو ادب میں محفوظ کیے گئے قصائد پڑھیے۔ غالب بادشاہ کی تعریف میں کہتے ہیں:
تو آب سے گر سلب کرے طاقتِ سیلاں
تو آگ سے گر دفع کرے تاب شرارت
ڈھونڈے نہ ملے موجۂ دریا میں روانی
باقی نہ رہے آتشِ سوزاں میں حرارت
یعنی بادشاہ سلامت پانی سے بہنے کی اور آگ سے جلانے کی خاصیت چھین سکتے ہیں۔ مشہور فارسی شاعر قاآنی بادشاہ کی تعریف میں کہتا ہے کہ تمہارے غیظ و غضب کی آگ سے اگر ایک چنگاری بھی جل اٹھے تو اُس چنگاری سے سات دوزخ وجود میں آ جاتے ہیں۔ اقبال کی نظم مکڑا اور مکھی ہم سب نے پڑھی ہے۔ مکھی نے بہت مدافعت کی‘ مگر مکڑے نے خوشامد کی تو ڈھیر ہو گئی؎
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندہ
آج کل قصائد کا دور نہیں۔ نہ ہی گھوڑا، ہاتھی، یا خلعت دینے کا رواج ہے‘ مگر خوشامد کرنے والے اور خوشامد کے جال میں پھنسنے والے ہر زمانے میں موجود تھے‘ اور آج بھی موجود ہیں۔ آج دربار اور قصیدے کی جگہ ٹی وی سکرین نے لے لی ہے جس کے ذریعے خوشامد کرنے والے اپنے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔ ٹاک شو میں کارکردگی اچھی ہو تو وزارت مل جاتی ہے۔ حکومت کے حق میں مہم چلائیں تو منصب مل جاتا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ خوشامد کرنے والے اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ٹی وی سکرینوں پر حقِ نمک ادا کرنے والوں سے لوگ کس قدر نفرت کرتے ہیں اور انہیں کتنا برا سمجھتے ہیں۔ مگر یاد رکھیے خوشامد کرنے والا صرف اور صرف اپنے مقصد پر فوکس کرتا ہے اور مقصد ہے فائدہ اٹھانا۔ لوگ کیا کہتے ہیں؟ اس سے وہ بے نیاز ہے اور یکسر بے نیاز۔ چاپلوسی اور عزتِ نفس، یہ دونوں ایک انسان میں یک جا نہیں ہو سکتیں۔ یہ آگ اور پانی کا کھیل ہے۔
دو تین دن پہلے ایک معروف خاتون کو پنجاب اسمبلی کے اندر جانے سے روک دیا گیا۔ اس پر خوب خوب تبصرے ہوئے۔ وی لاگرز کی تو جیسے چاندی ہو گئی! اللہ دے اور بندہ لے! انہوں نے لمبے لمبے پروگرام کیے۔ سننے والوں نے بھی خوب چسکے لیے‘ مگر وہ یہ بھول گئے کہ محترمہ ایسے معاملات کو دل پر نہیں لیتی ہیں۔ کچھ لوگ ہر حال میں مقتدَر رہنا چاہتے ہیں۔ کسی بھی پارٹی کے طفیل! کسی بھی قیمت پر! کہیں بھی! صوبے میں یا مرکز میں! ایسے لوگوں کو قدرت نے ایسے مضبوط اعصاب عطا کیے ہیں کہ اجازت نہ دیے جانے پر، وہ وہیں کھڑے ہو کر، میڈیا سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یوں بھی دیر ہو گئی تھی‘ اور کورم پورا ہے‘ اسمبلی کے اندر بیٹھنا نہیں تھا۔ اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد میں ایسے کئی مقامات آتے ہیں۔ انہیں اگر مسئلہ بنا لیا جائے تو پھر مل چکا اقتدار! ایک سیاست دان کا یہ قول مشہور ہے کہ جو بھی فلاں پارٹی سے نکلتا ہے تو وہ دنیا اور آخرت میں رسوا ہوتا ہے اور تاریخ اس کی گواہ ہے۔ یہ موقع وہ تھا جب یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے اور ان کے وزیر خارجہ مستعفی ہوئے تھے۔ خاتون سیاست دان اُس وقت برسر اقتدار پارٹی کا حصہ تھیں۔ مستعفی ہونے والے وزیر خارجہ کو انہوں نے سیاسی خانہ بدوش کا خطاب دیا تھا اور دعا کی تھی کہ وہ کسی ایک جگہ مستقل پڑاؤ کر لیں!
سیاست ہو یا بیوروکریسی، یا کوئی اور شعبہ، ایسے کردار ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ کابینہ کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے۔ کتنے خانہ بدوش ہیں اور کتنے مستقل پڑاؤ کرنے والے! ہماری تاریخ ایسے کرداروں سے اٹی پڑی ہے۔ دن کے وقت جو ہمایوں کے کیمپ میں ہوتے تھے، رات کی تاریکی میں شیر شاہ سوری کو مل کر معاملات طے کر لیتے تھے۔ ایسے کرداروں کو مرفوع القلم سمجھنا چاہیے۔ ان کا مذاق مت اڑائیے۔ انہی سے تو رونقِ بازار قائم ہے۔