کوئی ہے جو عدالت میں جائے؟ نالش کرے! دہائی دے!اور انصاف مانگے مؤقر انگریزی معاصر نے اپنی چار فروری کی اشاعت میں وفاقی وزیر کا یہ بیان نقل کیاہے کہ...'' کوئی بھی شخص‘ بیک وقت‘ دو ملکوں کا وفادارنہیں ہو سکتا...‘‘
کیا ہی سنہری اصول ہے جو وفاقی وزیر نے قوم کے ساتھ شیئر کیا ہے! اور یہ بات انہوں نے روا روی میں نہیں کہی۔ نہ کسی تقریر میں جوشِ خطابت کی وجہ سے یہ بات ان کے منہ سے نکل گئی۔ نہ کسی نجی محفل میں احباب کے ساتھ گپ شپ کے دوران کہی۔یہ بات انہوں نے ملک کے سنجیدہ ترین‘ ادارے‘ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے رو برو ارشاد کی۔ سینیٹ کی یہ قائمہ کمیٹی کابینہ سیکرٹریٹ کے امور کی انچارج ہے! اہم ترین پہلو یہ ہے کہ یہ بات کسی اپوزیشن رہنما نے نہیں کی۔ کسی کالم نگار یا صحافی نے کی ہوتی تو اسے آسانی سے نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔ یوں بھی اس عہد میں کسی صحافی یا کالم نگار کی کیا اوقات ہے! کچھ عرصہ پہلے یہی میڈیا والے آنکھوں کے تارے تھے۔ آج کل معتوب ہیں اور ہدف ! آئینوں پر گرد جمی ہے اور کیا شتابی سے جمی ہے۔ حکیم مومن خان مومن یاد آگئے ؎
جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے باوفا
میں وہی ہوں مومنِ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
یہ بات تو ایک محترم اور ثقہ وزیر نے کی ہے۔ سرکاری ملازموں کے حوالے سے قوانین میں ترمیم کرنے کا بِل زیر غور ہے تا کہ انہیں دہری شہریت رکھنے سے روکا جائے۔ ہزاروں سرکاری ملازم دہری شہریت رکھتے ہیں۔ اس وقت اس بحث میں نہیں پڑتے کہ ملک کے اسّی نوے فیصد تعلیم یافتہ افراد ملک سے کیوں باہر جانا چاہتے ہیں یا دہری شہریت رکھنے کے کیوں متمنّی ہیں! نہ ہی اس کالم نگار کو نوکر شاہی سے کوئی ہمدردی ہے۔ ( نہ کالم نگار خود دہری شہریت رکھتا ہے ) اس میں کیا شک ہے کہ ملک کو تباہی کے دہانے پر لانے میں بیوروکریسی بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے جتنے ذمہ دار سیاستدان اور آمر ہیں۔ مگر ایک ہی ملک میں ایک چیز بیک وقت اچھی اور بُری کیسے ہو سکتی ہے ؟ جب دہری شہریت والے تارکین وطن کو ووٹ دینے کا حق دیا جا رہا تھا تو سب سے زیادہ تشویشناک بات یہی تھی جو آج وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور جناب علی محمد خان نے کہی ہے۔ انہوں نے درست کہا ہے۔ جو تارک وطن اپنی مذہبی کتاب پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھاتا ہے کہ:"I hereby declare, on oath, that I absolutely and entirely renounce and abjure all allegiance and fidelity to any foreign prince, potentate, state, or sovereignty, of whom or which I have heretofore been a subject or citizen.
( یعنی میں حلفاً اعلان کرتا ہوں کہ میں قطعیت کے ساتھ اور پوری طرح‘ ایسے کسی بھی غیر ملکی شہزادے‘ حکمران‘ ریاست یا خود مختار ملک کو‘ جس کی میں اب سے پہلے رعایا یا شہری تھا‘ چھوڑتا ہوں‘ ترک کرتا ہوں اور اس سے لا تعلق ہوتا ہوں)
وہ اُس ملک کا وفادار کیسے ہو سکتا ہے جسے وہ چھوڑ چکا ہے‘ جسے ترک کر چکا ہے اور جس سے لا تعلق ہو چکا ہے اور جس لا تعلقی کا اعلان وہ حلف اٹھا کر کر چکا ہے ؟ کیا محترم وفاقی وزیر یہ بات اپنی حکومت کو‘ خاص طور پر وزیر اعظم صاحب کو سمجھائیں گے؟ اقتدار میں آنے سے پہلے وزیر اعظم برملا کہتے تھے کہ دہری شہریت والوں کو سیاست کا حق ہے نہ وزیر بننے کا نہ پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا! بعد میں حکومت میں آکر انہوں نے اپنا موقف بدل لیا۔ مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ جس کی وفاداری مشکوک ہے کیا اسے یہ حق دیاجانا چاہیے کہ وہ کسی امیدوار کے پارلیمنٹ میں جانے یا نہ جانے کا فیصلہ کرے؟
وفاقی وزیر صاحب کی بات سے قطع نظر‘ تارکین وطن کی اپنے سابق وطن سے محبت قدرتی ہے اور اس میں شاید ہی کسی کو شک ہو۔ مسئلہ منطق کا ہے اور زمینی حقائق کا۔ وہ کسی امیدوار کو ووٹ ڈالنے یا ووٹ نہ ڈالنے کا فیصلہ کریں گے تو کس بنیاد پر؟ کئی تارکین تو کئی کئی سال آتے ہی نہیں۔ خاص طور پر جن کے والدین حیات نہیں‘ ان کی آمد بہت ہی کم ہوتی ہے۔وہ امیدواروں کو جانتے ہی نہیں۔ حلقے کے مسائل سے بھی وہ نا آشنا ہیں۔ یہاں کے بازار اور قیمتوں سے بھی انہیں واسطہ نہیں پڑتا۔ یہاں کے سرکاری دفتروں کی کارکردگی کا بھی انہیں اندازہ نہیں۔ کیاان کے لیے یہ بہتر نہیں کہ جس وطن میں وہ گئے ہیں‘ جس سے غیر مشروط وفاداری کا حلف اٹھایا ہے‘ جس سے ان کے بچوں کا مستقبل بندھا ہے‘ جہاں ان کی زندگیاں گزر رہی ہیں اور جہاں وہ ٹیکس دے رہے ہیں‘ وہیں کی سیاست میں دلچسپی لیں! دو کشتیوں کی سواری نہ کریں۔ ہم جو وطن میں رہ رہے ہیں‘ ہم انتظار کر رہے ہیں کہ ہمارے بھائی اپنے اپنے نئے ملکوں میں وزیر کب بنیں گے؟ مئیر کب منتخب ہوں گے اور وہاں پارلیمان میں کب پہنچیں گے؟ ہمیں آپ پر فخر ہے۔ آپ حضرات پاکستان کے اصل سفیر ہیں۔ اپنے نئے ملکوں کی سیاست میں آپ جتنا زیادہ حصہ لیں گے‘ پاکستان کو اتنا ہی زیادہ فائدہ پہنچے گا! ظاہر ہے وہاں کی حکومت کا حصہ بننے کے بعد آپ پاکستان کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں !
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس معاملے کا اُن تارکین وطن سے کوئی تعلق نہیں جو یو اے ای‘ قطر‘ کویت‘ سعودی عرب اور بحرین میں کام کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے پاس دہری شہریت نہیں ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ممالک شہریت نہیں دیتے۔ یوں انہیں تارکین وطن کہا ہی نہیں جا سکتا۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی بھاری اکثریت کے کنبے پاکستان ہی میں ر ہتے ہیں۔ وہ تعطیلات میں برابر وطن آتے ہیں۔ یوں وطن کی سیاست سے پوری طرح باخبر رہتے ہیں۔
بیورو کریسی پر ہاتھ ڈالنا اور اسے ہدف بنانا آسان ہے۔ انگریز ایسے ہدف کے لیے belly Softکے الفاظ استعمال کرتے ہیں‘مگر زیادہ طاقتور طبقات کو کوئی نہیں پوچھتا۔ جن وزرا‘ ارکانِ پارلیمنٹ‘ عمائدین حکومت اور سیاست دانوں کے کنبے بیرونِ ملک رہتے ہیں‘ ان پر کیوں نہیں توجہ دی جاتی؟ کچھ عرصہ پہلے اپنے دوست خالد مسعود خان کے کالم کے ذریعے معلوم ہوا کہ ایک مشہور سیاست دان کی فیملی لاس اینجلس کے مہنگے علاقے میں قیام پذیر ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔سیاست یہاں کرتے ہیں‘ کاروبار باہر ہے اور بچے بھی باہر رہتے ہیں! معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے افراد تو باہر سے آکر حکمرانی بھی کر گزرے۔ معین قریشی واشنگٹن ڈی سی کی مٹی اوڑھ کے سو رہے ہیں۔ ان کا محل‘ جو وہاں تھا‘2016ء میں اسّی لاکھ ڈالر میں فروخت ہوا۔ شوکت عزیز‘ باہر سے آئے۔ وزارتِ خزانہ اور وزارتِ عظمیٰ کے مزے لُوٹے۔ جیسے ہی اقتدار سے نکلے‘ بریف کیس اٹھایا اور چلے گئے۔ اس کے بعد وطن کا رخ ہی نہیں کیا۔ شاید پاکستان کو ان کا وطن کہنا ہی نامناسب ہے اور واقعاتی طور پر غلط ! جاتے ہوئے تحائف‘ جو وزیر اعظم کی حیثیت سے بیرونِ ملک ملتے رہے‘ پوٹلی میں باندھ کر ساتھ لے گئے۔ یہ کھرب پتی لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں۔ دولت جتنی زیادہ ہوتی ہے‘ دولت کی ہوس اتنی ہی بڑھ جاتی ہے یہاں تک کہ قلاشوں اور بھکاریوں جیسی چھوٹی حرکتیں کر نے سے بھی باز نہیں آتے۔