بس ایک کام غلط ہوا‘ اور اس ایک غلط کام نے ہر کام کو غلط کر دیا۔
یہ پاکستان ہے۔ یہ جنوبی ایشیا ہے۔ یہاں آپ نے وہی کچھ کرنا تھا جو آپ کے پیش رو کرتے آئے ہیں۔ یہاں ریاستِ مدینہ کا سہارا نہیں لینا چاہیے تھا۔ یہاں صادق اور امین ہونے کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اگر کوئی اور آپ کو صادق اور امین کہہ رہا تھا تو آپ منع کر دیتے۔ یہ دعویٰ تو خلفائے راشدین نے بھی نہیں کیا تھا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ صادق اور امین ہونے کا دعویٰ کرنے کے بعد آپ کچھ بھی کرتے رہیں گے اور آسمانوں سے کچھ نہیں برسے گا؟ آپ ریاستِ مدینہ کے نام پر ہر وہ کام کریں گے جو آپ کے پیش رو کرتے رہے اور پردۂ غیب سے کچھ نہیں برآمد ہو گا؟ بس یہیں آپ مار کھا گئے۔
یہ آپ کے ساتھی، جو دس دس سال آپ کے ساتھ رہے، آج سب کچھ اگل رہے ہیں، یہ پردۂ غیب ہے جو آہستہ آہستہ اُٹھ رہا ہے۔ ابھی بہت کچھ ظاہر ہو گا۔ قدرت سب کچھ معاف کر دیتی ہے مگر اپنے محبوب رسولﷺ کے نام پر کی ہوئی دنیا داری کبھی نہیں معاف کرتی۔ آپ بھول گئے کہ ریاستِ مدینہ کا والی کئی سال تک کون رہا؟
ادب گاہیست زیر آسمان از عرش نازُک تر
نفس گُم کردہ می آید جنید و با یزید اینجا
ریاست مدینہ کے والی کے تو مٹھی میں ستارے تھے اور جسم کھردری چٹائی پر۔ بڑے بڑے صحابہ اور عظیم الشان اولیا اس بارگاہ میں سانس لینا بھی بھول جاتے ہیں۔ ریاست مدینہ کے زمانے میں بہترین سواری ترکی گھوڑا تھا جیسے آج کل بہترین سواری ہیلی کاپٹر ہے۔ خود تو کیا، امیرالمومنین عمر فاروقؓ نے گورنروں کو بھی ترکی گھوڑے کے استعمال سے منع کر دیا تھا۔ آپ چار سال سے ہیلی کاپٹر پر آ جا رہے ہیں۔ ضرور آتے جاتے۔ مگر ریاست مدینہ؟ امیرالمومنین سیدنا علی مرتضیٰؓ عید کے دن جَو کی باسی روٹی تناول فرما رہے تھے۔ کن ہاتھوں سے؟ جن ہاتھوں سے خیبر کا دروازہ توڑا! اسی لیے اقبال نے قاعدہ کلّیہ پیش کر دیا:
تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر
کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوّتِ حیدری
ریاست مدینہ کے والی سیدنا علی مرتضیٰؓ کا کیا رویّہ تھا؟ مشہور روایت ہے جو ہم سب نے بارہا سنی ہے۔ دشمن کو پچھاڑ دیا۔ شاید جنابؓ اس کی گردن مار دیتے۔ اُس بدبخت نے روئے مبارک پر تھوک دیا۔ آپؓ نے چھوڑ دیا۔ فرمایا: پہلے اللہ کے لیے دشمنی تھی‘ اب ذاتی ہو گئی ہے اس لیے چھوڑ دیا (مفہوم)۔ یہاں تو اتنا انتقام لیا گیا کہ منتقم مزاجی ضرب المثل بن گئی۔ اپنے ساتھیوں سے بھی تعلقات بگڑے تو انتقام لیا گیا۔
ریاستِ مدینہ کا نام لینا آسان ہے۔ اس کے تقاضے نبھانا آسان نہیں۔ اس میں خواہشوں کو کچلنا پڑتا ہے۔ نفس کو مارنا پڑتا ہے۔ ریاستِ مدینہ کے کسی حکمران نے، آقائے دو جہانﷺ سے لے کر سیدنا علیؓ اور امام حسنؓ تک، کسی نے کسی مخالف کا نام نہیں بگاڑا۔ یہاں نام اس قدر بگاڑے گئے کہ اپنے اتحادی چودھری شجاعت حسین سے لے کر مفتی تقی عثمانی تک کوئی خاموش نہ رہ سکا۔ ایک سیاست دانوں میں قابل احترام! دوسرا علما میں قابل احترام! دونوں نے سورہ حجرات کی طرف توجہ دلائی۔ (مفہوم) آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو‘ اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں۔ ریاستِ مدینہ کا نام لے کر آپ نے اپنے سر ایک بہت بڑی ذمہ داری لے لی۔ آپ کے مخالف بد عنوان سہی، بُرے سہی، وہ ضرور اپنا حساب دیں گے‘ مگر آپ کو اپنا حساب دینے کے علاوہ یہ بھی بتانا ہو گا کہ ریاستِ مدینہ کا نام لے کر اس کے تقاضے کیوں نہ پورے کیے؟ بلکہ ہر وہ کام کیوں کیا جو، ریاستِ مدینہ کے اعتبار سے، نہیں کرنا چاہیے تھا؟ آپ نے ریاستِ مدینہ کو کیا سمجھ رکھا تھا؟ اقبال نے اسی لیے تو سمجھایا تھا:
چو می گویم مسلمانم، بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا الہ را
کہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے خوف سے کانپنے لگتا ہوں کیونکہ مجھے اس راستے کی مشکلات کا اندازہ ہے۔ تو کیا آپ ریاستِ مدینہ کے راستے کی مشکلات سے آگاہ نہیں تھے؟ آپ سب سے بڑے صوبے کا سربراہ جسے چاہتے لگاتے۔ آپ حکمران اعلیٰ تھے‘ با اختیار تھے‘ مگر آپ ریاستِ مدینہ کی زنجیر، جان بوجھ کر، اپنے پَیروں میں نہ ڈالتے۔ تحریکِ انصاف کا شاید ہی کوئی رکن یا کوئی ہمدرد ایسا ہو جس نے اس تعیناتی کو پسند کیا ہو یا اس کا دفاع کیا ہو۔ کاش کوئی بے غرض بندہ آپ کے ساتھ ہوتا اور بتاتا کہ ریاستِ مدینہ میں تعیناتی کا اصول کیا تھا؟ بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچاؤ۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: جائز نہیں کہ کوئی عہدہ کسی ایسے شخص کے سپرد کریں جو اپنی عملی یا علمی قابلیت کے اعتبار سے اس کا اہل نہیں ہے۔ آگے چل کر مفتی صاحب لکھتے ہیں: ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی ہو پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی اور تعلق کی مد میں بغیر اہلیت معلوم کیے ہوئے دے دیا‘ اس پر اللہ کی لعنت ہے‘ نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل‘ یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہو جائے۔ بعض روایات میں ہے کہ جس شخص نے کوئی عہدہ کسی شخص کے سپرد کیا حالانکہ اس کے علم میں تھا کہ دوسرا آدمی اس عہدہ کے لیے اس سے زیادہ قابل اور اہل ہے تو اس نے اللہ کی خیانت کی۔ اور رسول کی اور سب مسلمانوں کی۔ (معارف القرآن جلد دوم۔ تاریخ طباعت اکتوبر 1983)
ٹھنڈا مزاج رکھنے والے ندیم افضل چن نے الیکٹرانک میڈیا پر کہا کہ جناب وزیر اعظم کی عموماً خواہش ہوتی تھی کہ وزیر اعلیٰ کی تعریف کی جائے۔ نہیں معلوم یہ تعیناتی کس کی خواہش تھی یا کس کا مشورہ تھا! مگر جس کا بھی تھا، کل عدالتِ خداوندی میں جواب ایک ہی شخص کو دینا پڑے گا!
ریاستِ مدینہ میں تصور بھی نہیں تھا کہ پہلے کسی کو سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا جائے یا یہ کہا جائے کہ فلاں چپڑاسی ہونے کے لائق بھی نہیں اور پھر انہیں اعلیٰ ترین مناصب پر فائز کر دیا جائے۔ ایسا کرنا، پھر ہر روز، ہر تقریر میں، ہر بیان میں، ریاستِ مدینہ کا نام لینا، اس کا حوالہ دینا، بہت بڑی جسارت تھی۔ بازی بازی، با ریشِ بابا ہم بازی! گستاخ اکھیں کتھے جا اڑیاں! یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ دنیا کا نہیں، جناب عالی! جہاں پناہ! یہ آخرت کا معاملہ ہے!
مذہب دو دھاری تلوار ہے! کاش یہ دو دھاری تلوار آپ کے ہاتھ میں نہ ہوتی! آپ سکینڈے نیویا، کینیڈا، آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ کی فلاحی ریاستوں کو اپنا آئیڈیل قرار دے دیتے۔ آپ کچھ بھی کر لیتے، اقتدار کے لیے مذہب کو نہ استعمال کرتے! یا پھر ایسے افراد کا بورڈ بناتے جو ریاستِ مدینہ کے حوالے سے آپ کو Dos and don'ts سے آگاہ کرتے۔ شخصی فیصلے اور ریاستِ مدینہ!! خدا آپ پر رحم کرے اور اس جسارت کے انجام سے بچائے۔ ہم تو خیر خواہ ہیں۔ دعا ہی کر سکتے ہیں۔