سیالکوٹ کے امیر صنعتکاروں کو معلوم ہی نہیں کہ سیالکوٹ شہر میں اس گلی کا بھی وجود ہے۔
حکومتوں کو اس گلی کے بارے میں معلوم ہے مگر یہ اُن کی ترجیحات میں شامل نہیں! اصلاً ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے لیکن اُسے فرصت ہی نہیں کہ صوبے کی توقیر بڑھانے والے کام کرے۔ رہی وفاقی حکومت تو اُس کے پاس ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ مسئلے کو صوبائی حکومت کی ذمہ داری قرار دے ڈالے۔ منڈی میں عقل ملتی ہے نہ احساس‘ ورنہ پاکستانی عوام چندہ جمع کرتے اور ان حکومتوں کو یہ دونوں آئٹم خرید دیتے!
سیالکوٹ کی یہ گلی اندرونِ شہر واقع ہے۔ اس گلی میں جانے سے پہلے بازار کھٹیکاں عبور کرنا ہوتا ہے۔ عبور کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ بازار کھٹیکاں میں ایک سمندر عبور کرنا پڑتا ہے۔ یہ سمندر پانی پر نہیں‘ موٹر سائیکلوں پر مشتمل ہے۔ اقبال منزل‘ جہاں علامہ اقبال پیدا ہوئے‘ پلے بڑھے‘ ایف اے تک تعلیم حاصل کی‘ شادی ہوئی‘ جاوید اقبال اور دوسرے بچے پیدا ہوئے‘ اس قبال منزل کے ارد گرد تین محلے ہیں۔ بازار کھٹیکاں‘ کشمیری محلہ اور محلہ چُوڑی گراں! یہ ساری جگہ تنگ گلیوں پر مشتمل ہے۔ یہاں رہنے والے لوگ گاڑیاں نہیں رکھتے کیونکہ گاڑیاں ان تنگ گلیوں سے گزر نہیں سکتیں۔ واحد سواری جو یہاں کام دے سکتی ہے اور دیتی ہے‘ موٹر سائیکل ہے۔ ہر گھر میں اوسطاً تین تین‘ چار چار موٹر سائیکل ہیں۔ بازار کھٹیکاں میں جب داخل ہوتے ہیں تو موٹر سائیکلوں کے ایک سیلِ بے پناہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ موٹر سائیکل مکھیوں اور مچھروں کی طرح‘ یوں لگتا ہے‘ ہزاروں نہیں‘ لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ دائیں بائیں‘ آگے پیچھے‘ اوپر نیچے‘ ہر طرف موٹر سائیکل ہی موٹر سائیکل ہیں۔ ان پر سوار لوگ شاید گتکا کھیلنے کے ماہر ہیں۔ موٹر سائیکل سوار پیدل چلنے والے لوگوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے بجلی کی تیزی کے ساتھ گزر تے ہیں اور کسی صورت بھی آہستہ نہیں ہوتے۔ آپ ڈرتے ہیں‘ ہڑبڑاتے ہیں۔ ایک وحشت ناک گھبراہٹ‘ ایک سراسیمگی آپ کو گھیر لیتی ہے۔ ادھر ادھر دیکھتے ہیں مگر سوائے‘ ایک طرف ہو کر‘ سمٹ سمٹ کر چلنے کے‘ کچھ نہیں کر سکتے۔ بازار کھٹیکاں عبور کرنے کے بعد اُس گلی میں داخل ہوتے ہیں جس میں علامہ کا گھر واقع ہے۔ موٹر سائیکلوں کا بے کنار سمندر یہاں بھی اُسی قوت کے ساتھ موجود ہے۔ یہاں سے ہو کر جانے والا‘ جب بھی کسی کو رُوداد سنائے گا تو سننے والے کی حوصلہ شکنی ہی ہوگی!
یہ گلی‘ یہ تاریخی گلی‘ اگر جرمنی میں یا فرانس میں یا اٹلی میں یا کسی اور حساس ملک میں ہوتی تو پوری گلی کو میوزیم میں بدل دیا جاتا۔ گلی کے مکینوں کو بہترین زرِ تلافی اور فیاضانہ دیا جاتا۔ وہ یہ گلی خالی کر دیتے۔ کسی قسم کی سواری ممنوع قرار دے دی جاتی! گلی کا ہر گھر عجائب گھر کی طرح ہوتا۔ کہیں ریستوران ہوتا تو کہیں اقبال کی کتابیں! کہیں ماہرین اقبال پر لیکچر دے رہے ہوتے تو کہیں اقبال کی کتابیں پڑھائی جا رہی ہوتیں۔ کہیں اقبال کے پیر رومی کا احوال سنایا جا رہا ہوتا تو کسی مکان میں طلبہ و طالبات اقبال کے شعروں پر مشتمل بیت بازی کے مقابلے برپا کر رہے ہوتے۔ اقبال کی تصویروں سے مزین شرٹس‘ مگ‘ پلیٹیں اور دیگر تحائف فروخت ہو رہے ہوتے۔ مگر آہ! یہ پاکستان ہے! یہاں ایسے کسی منظر کا ہونا ناممکنات میں سے ہے۔
اے رے چراغ پہ جھُکنے والے! یوں ماتھا نہ جلا اپنا
یہ وہ دیس ہے جس میں کسی کو دادِ ہنر معلوم نہیں
قرطبہ میں مسجدِ قرطبہ کے ارد گرد گلیاں اور کوچے سیاحوں کے لیے ہمہ وقت منتظر ہیں۔ عربوں کے قدیم گھر سیاحوں کے لیے کھلے ہیں۔گلیاں صاف ستھری ہیں جیسے کسی نے دھوئی ہوں۔ حالانکہ حکومت اور شہری انتظامیہ کا مسجد سے کوئی جذباتی تعلق ہے نہ ان قدیم گھروں سے نہ مسلم فنِ تعمیر سے! مگر سیاحوں کی تکریم اور حسنِ انتظام اس لیے ہے کہ ملک زرِ مبادلہ کمائے۔
سیالکوٹ کے صنعتکاروں اور برآمد کنندگان کو ابھی اس گلی کی خبر نہیں! انہیں ابھی معلوم نہیں ہوا کہ اقبال کون تھے۔ بد قسمتی سے اقبال چمڑے کی تجارت کرتے تھے نہ کھیلوں کا سامان بناتے تھے۔ ایسا ہوتا تو سیالکوٹ کے اہلِ ثروت ان کے نام سے اور ان کے کام سے ضرور آگاہ ہوتے! سیالکوٹ کے امرا کیا نہیں کر سکتے۔ ایئر پورٹ بنوا سکتے ہیں۔ نرم ریشمی شاہراہوں کا جال بچھا سکتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کی افرادی قوت کو اپنے ہاں کھپا سکتے ہیں۔ اگر سیالکوٹ کے صنعتکار اور برآمد کنندگان علامہ اقبال منزل والا کوچہ‘ مکینوں سے خالی کرا لیں اور پوری گلی کو میوزیم میں تبدیل کر دیں تو یہ بات یقینی ہے کہ اس سے ان کے کاروبار پر مثبت اثر پڑے گا۔ جو آسودہ حالی قدرت نے انہیں عطا کی ہے‘ اس کے سامنے یہ منصوبہ بہت بڑا نہیں! ناممکن نہیں! اگر وہ چاہیں تو اقبال منزل کو پاکستان کا ایک بڑا لینڈ مارک بنا سکتے ہیں۔ اس سے ان کے شہر کو چار چاند لگ جائیں گے۔
اور اقبال منزل؟ کیاکسی کو خبر ہے کہ کس حالت میں ہے؟ بجلی‘ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں‘ اکثر و بیشتر غائب ہوتی ہے۔ اقبال منزل میں یو پی ایس ہے نہ جنریٹر! زائرین اندھیرے میں‘ بے پناہ گرمی میں‘ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں آتے اور جاتے ہیں۔ کمروں کا سامان نظر آتا ہے نہ دیواروں پر لگی ہوئی نادر تصاویر! افسوس! صد افسوس! حکومت ایک یو پی ایس‘ ایک جنریٹر نہیں مہیا کر سکتی! انا للہ و انا الیہ راجعون! سرکاری محلات کا ایک ایک دن کا خرچ دیکھیں تو ہوش اُڑ جاتے ہیں! کروڑوں اربوں کے بجٹ ہیں! اللوں تللوں میں ہر جگہ پیسہ لگایا جا رہا ہے۔ نہیں ہے تو اقبال منزل جیسے مقامات کے لیے کچھ نہیں ہے!
اقبال کی شاعری سے‘ اقبال کی تعلیمات سے پہلے ہی اجنبیت اختیار کی جارہی ہے۔ او لیول اور اے لیول کے کسی طالب علم سے پوچھ کر دیکھ لیجیے‘ اقبال کی تصانیف کے نام بھی بتا دے تو کرشمہ ہوگا۔ پہلے بزرگ گھروں میں بچوں کو سعدی‘ اقبال اور حالی سے روشناس کراتے تھے۔ اب بزرگوں کی جو کوالٹی آرہی ہے‘ انہیں خود کچھ نہیں معلوم! اندھا اندھے کو کیا راستہ دکھائے گا۔ لاہور ہی کی بات کر لیجیے۔ کتنے بچوں کو‘ کتنے لڑکوں اور لڑکیوں کو ان کے والدین نے جاوید منزل والا اقبال میوزیم دکھایا ہوگا؟ کتنوں نے اقبال کا مزار دیکھا ہوگا؟ مسجدِ قرطبہ اور ساقی نامہ اردو شاعری کے معجزے کہلاتے ہیں! کتنوں نے پڑھا ہے اسے؟ کتنوں کو پڑھایا گیا ہے؟ کیا یہ سب ناکامیاں کافی نہیں تھیں کہ اقبال منزل جیسے بیش بہا سرمائے سے بھی ہم غفلت برت رہے ہیں؟ زندہ قوموں کے طور اطوار ایسے نہیں ہوتے! وہ اپنے ثقافتی‘ علمی اور ادبی ورثوں کو حرزِ جاں بنا کر رکھتی ہیں! اقبال کی عظمت کو ہمارے رویے سے کچھ فرق نہیں پڑنے والا! اس کے چاہنے والے پوری دنیا میں موجود ہیں۔ ایران‘ تاجکستان اور افغانستان میں اسے پڑھا بھی جا رہا ہے اور سمجھا بھی جا رہا ہے! نقصان ہمارا اپنا ہے! کیا زبردست میراث ہے ہماری! اور کس بے دردی سے ہم اس سے دور ہو رہے ہیں! اسے کھو رہے ہیں! اقبال ہی کے بقول
میر سپاہ ناسزا، لشکریاں شکستہ صف
آہ وہ تیرنیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف