''اگر بیٹھے ہوئے ہو تو اُٹھ پڑو اور اگر کھڑے ہو تو چل پڑو‘‘
یہ وہ پیغام تھا جو دادی جان نے قاصدوں کے ذریعے بھیجا! بی اے کا طالب علم تھا جب گاؤں میں دادا جان کی وفات ہوئی۔ چار سمتوں میں پیام رساں دوڑائے گئے۔ بسی بستی‘ قریہ قریہ! قصبہ قصبہ! ان کو ہدایت تھی کہ راستے میں رکنا نہیں اور حرف بہ حرف یہی پیغام پہنچانا ہے۔
مگر یہ ستاون سال پہلے کی بات ہے۔ اب جب میرا انتقال ہوا ہے تو یہ قاصدوں‘ ایلچیوں اور پیام رسانوں کا زمانہ نہیں تھا۔ یہ ٹیلیفون‘ ای میل اور ایس ایم ایس سے بھی آگے کی دنیا تھی۔ یہ وٹس ایپ کا زمانہ تھا۔ ایک پیغام تیار کیا گیا۔ اسے وٹس ایپ پر چڑھا دیا گیا۔ آناً فاناً خبر ہر طرف پھیل گئی۔ اس پیغام کا اہم ترین حصہ نمازِ جنازہ کا وقت تھا جو عصر کی نماز کے فوراً بعد پونے چھ بجے فکس کیا گیا۔
یہ اطلاع میرے پرانے دوست رشید خان کو ملی تو فرطِ غم سے اس کی حالت غیر ہو گئی۔ دیر تک اپنے اہلِ خانہ کو میرے محاسن بتاتا رہا۔ سرکاری نوکری میں وہ ایک طویل عرصہ میرا رفیقِ کار رہا تھا۔ اس دور میں اس پر میں نے کچھ احسانات کیے تھے۔ ان احسانات کی تفصیل گھر والوں کو بتاتا رہا۔ دو بار اس کی آواز بھرا بھی گئی۔ پھر اس نے ہمارے مشترکہ دوستوں کو جنازے کے وقت سے مطلع کیا۔ چار بجے تک اس کا پختہ ارادہ تھا کہ وہ جنازے میں شریک ہو گا۔ ساڑھے چار بجے اس کی بیگم نے اطلاع دی کہ بیگم کی چھوٹی بہن آرہی ہے اور اس کا جہاز بھی عین پونے چھ بجے لینڈ کر رہا ہے‘ اس کا ایئر پورٹ جانا ضروری تھا‘ خاص طور پر جب بیگم نے یہ دلیل بھی دے دی کہ جنازے میں شریک ہو بھی گئے تو مرنے والا کون سا واپس آجائے گا اور یہ کہ دعائے مغفرت تو کہیں بھی‘ کسی بھی وقت‘ کی جا سکتی ہے۔ بس یہ مجبوری تھی جس کی بنا پر رشید جنازے میں شریک نہ ہو سکا۔ ورنہ تو وہ تدفین تک موجود رہتا اور اپنے حصے کی مٹی ڈال کر آخری دعا میں بھی شریک ہوتا۔
ایک معروف اینکر بھی میرے قریبی دوستوں میں شمار ہوتا تھا۔ موت کی خبر سن کر اس کی ہچکی بندھ گئی۔ اس نے میرے بچوں کو اسی وقت فون کیا۔ روتے روتے اس نے انہیں بتایا کہ مرحوم کا نعم البدل تو کوئی نئیں ہو سکتا تاہم وہ اسے اپنا چچا سمجھیں اور کوئی بھی مسئلہ ہو تو صرف اسے ہی بتائیں۔ پھر اس نے اپنی بیگم سے کہا کہ اس کی شلوار قمیض نکالے تاکہ جنازے پر روانہ ہونے سے پہلے وہ لباس تبدیل کر سکے۔ اس نے اپنے ڈرائیور کو بھی طلب کر لیا۔ مگر اتفاق سے عین اسی وقت اس کے ٹی وی چینل والوں نے رابطہ کرکے اطلاع دی کہ اس نے ملک کی ایک اہم شخصیت کی پریس کانفرنس میں جانا ہے۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ معذرت کر دے کیونکہ چینل کے پاس ایک سے ایک بڑھ کر صحافی موجود تھا مگر پھر پیشہ ورانہ احساسِ ذمہ داری اس پر غالب آگیا۔ پریس کانفرنس میں جو جاندار اور اوریجنل سولات وہ کر سکتا تھا‘ کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی۔ تعزیت کے لیے وہ مرحوم کے گھر بعد میں کسی بھی وقت جا سکتا تھا؛ چنانچہ اس نے چینل والوں کو بتا دیا کہ وہ پریس کانفرنس میں شرکت کرے گا۔
جنازے کا وقت‘ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے‘ پونے چھ بجے کا تھا۔ پانچ بجے لوگوں نے آنا شروع کر دیا۔ رینٹ پر منگوائی گئی کرسیاں پورچ میں اور کچھ سامنے گلی میں رکھوائی گئی تھیں۔ یہ تو مجھے اب معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد کتنے مزے ہیں۔ میں یہیں گھوم پھر رہا تھا‘ مگر سب کی نگاہوں سے ماورا! میں توقع کر رہا تھا کہ یہ حضرات میرے ہی بارے میں باتیں کریں گے‘ میری نیکیاں‘ اگر ہیں تو‘ ایک دوسرے سے شیئر کریں گے‘ میری نجات کے لیے کچھ دعائیں اور‘ اوراد کریں گے‘ مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے اپنے کانوں سے حاضرین کی گفتگو سنی! شیخ صاحب‘ ملک آفاق کی بغل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ مسلسل منڈی کی صورتحال پر تبصرہ کر رہے تھے۔ ڈالر کا اُتار چڑھاؤ‘ ایل سی پر پابندیاں‘ مارکیٹ کی غیریقینی صورتحال! حرام ہے جو ان دونوں نے‘ جو میرے انتہائی قریبی دوست تھے‘ ایک بار بھی میرا ذکر کیا ہو! ان کے سامنے والی لائن میں ڈاکٹر انعام اور بیرسٹر اشرف بیٹھے تھے‘ ڈاکٹر انعام مسلسل اپنے بیٹے کے اوصاف پر گفتگو کر رہے تھے کہ کس طرح صاحبزادے نے امریکی یونیورسٹی کا امتحان آن لائن امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ یونیورسٹی میں کون کون سے کلبوں اور سوسائٹیوں کا رکن رہا۔ جلسۂ تقسیمِ اسناد میں کس طرح امریکی صدر کے ہاتھوں ایوارڈ وصول کیا‘ بیرسٹر اشرف بھی جب موقع ملتا‘ مقابلے میں اپنے صاحبزادے کی کامیابیوں کا ذکر کرتے‘ مگر غلبہ ڈاکٹر انعام ہی کا رہا۔ ذرا ہٹ کر دوسری طرف میرے کچھ سابق ماتحت بیٹھے تھے۔ وہ اپنی ترقی اور سالانہ انکریمنٹ پر بحث کر رہے تھے۔ کبھی وزارتِ خزانہ کی برائی کرتے‘ کبھی اپنے اپنے باس کی اور اپنے اپنے محکمے کی! میں نے سروس کے درمیان ہر موقع پر ان کی مدد کی تھی مگر انہیں شاید یہ بھی یاد نہ تھا کہ وہ میرے جنازے پر آئے ہوئے ہیں۔
پھر جنازہ اٹھایا گیا۔ عورتوں نے رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ میری نواسی زینب کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ ہم دونوں ہمیشہ بیسٹ فرینڈ رہے تھے۔ میں ایک کونے میں کھڑا‘ اپنے جسم کو چارپائی پر رکھا‘ لوگوں کے کندھوں پر اٹھتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ فانی بدایونی کا شعر یاد آگیا:
وہ اُٹھا شورِ ماتم آخری دیدارِ میت پر
اب اٹھا چاہتی ہے نعشِ فانی دیکھتے جاؤ
جنازے کے بعد میت کو قبرستان لے کر جانا تھا جو زیادہ دور نہیں تھا۔ میں نے نوٹ کیا کہ ڈاکٹر انعام‘ بیرسٹر اشرف‘ ملک آفاق‘ شیخ صاحب اور بہت سے احباب جنازہ گاہ ہی سے رخصت ہو گئے۔ بیرسٹر صاحب کی نئی بی ایم ڈبلیو آج پہلی بار دیکھی! وہ بھی مرنے کے بعد! ڈرائیور سے انہیں کہتے سنا ''بھئی جلدی کرو‘ پہلے ہی دیر ہو چکی!‘‘ میت قبر کے پاس رکھی گئی۔ اب بہت کم لوگ رہ گئے تھے‘ زیادہ تعداد قریبی اعزہ کی تھی۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں‘ میت کو قبر میں اتارنے سے لے کر‘ دعا مانگنے تک کافی وقت لگتا ہے۔ قبر کے گرد جمگھٹا تھا۔ چند احباب جو تدفین تک رکے تھے‘ ادھر اُدھر کھڑے تھے! قبر کو سامنے دیکھ کر بھی‘ جس میں ان کے قریبی دوست کو اتارا جانا تھا‘ انہیں اپنے اپنے کاموں کی پڑی تھی۔ رانا صاحب کو ایک دعوت میں پہنچنا تھا۔ ساتھ کھڑے ترمذی صاحب کو کہہ رہے تھے کہ جنازے کے بعد چلے جاتے مگر اس خیال سے کہ مرحوم کے بچے کیا کہیں گے‘ رک گئے اور یہ کہ تدفین میں غیرمعمولی دیر لگائی جا رہی ہے۔ اُدھر میت کو قبر میں اتارا جارہا تھا۔ میرے جسم کے درمیان میں‘ یعنی کمر کے گرد‘ چادر کو پٹکا بنا کر ڈالا گیا تا کہ قبر میں اتارا جا سکے۔ بیٹے اور بھانجے نے جو قبر میں اترے ہوئے تھے‘ میت وصول کی اور لحد میں رکھی۔ پھر پتھر کی سلیں‘ سلوں کے درمیانی گیپ میں گارا‘ پھر منوں مٹی‘ پھر دعا!
اب قبر کو تنہا چھوڑ کر جانے کا مرحلہ تھا! بیٹے‘ بھائی بھانجے اور دیگر اعزہ‘ آہستہ آہستہ‘ بوجھل قدموں سے واپس آرہے تھے۔ تاہم میں نے نوٹ کیا کہ اکثر حضرات بہت تیزی سے اپنی اپنی گاڑیوں کی طرف گئے۔ کئی گاڑیوں کے سٹارٹ ہونے کی آواز بیک وقت آئی۔ یہ سب اتنی تیزی سے گئے جیسے میری قبر ان کا تعاقب کر رہی تھی!