کوئی علاج اس سرطان کا؟؟

ولیم ڈالرمپل( William Dalrymple)میرے پسندیدہ مصنفین میں سے ہے۔اس کی نئی کتاب کا انتظار رہتا ہے۔ پہلی کتاب جو میں نے اس کی پڑھی''White Mughals‘‘ تھی۔ وائٹ مغل کی اصطلاح ان انگریزو ں کے لیے وضع کی گئی جنہوں نے ہندوستانی طرزِ زندگی کو اپنا لیا تھا! ان برطانویوں کے لیے مقامی امرا اور نوابوں کا طرزِ معاشرت بہت پُر کشش تھا۔ انہوں نے انگرکھے اور چوڑی دار پاجامے پہنے۔قالینیں بچھائیں۔حقے اور حقہ بردار رکھے۔ پان کی گلوریاں کھائیں‘ پاندان خریدے۔ یہاں تک کہ مقامی خواتین سے شادیاں بھی رچائیں! ولیم ڈالرمپل کی پردادی یا لکڑ دادی بھی دکن کے ایک معزز خاندان سے تھی۔مگر وائٹ مغلوں کا زمانہ مختصر رہا۔1798ء میں جب لارڈ ولیم ویلزلے گورنر جنرل بن کر آیا تو سب کچھ بدل گیا۔ وہ اول آخر سامراجی تھا! خالص سامراجی! آمد کے ایک سال بعد اس نے ٹیپو سلطان کو ختم کیا۔اس کے بعد اس نے انگریزوں کو باور کرایا کہ تم حاکم ہو اور ہندوستانی محکوم! اس لیے اب چونچلے نہیں چلیں گے۔اسی کے عہد میں نسلی امتیاز کی پالیسی مستحکم ہوئی۔ سفید فاموں کی سماجی تقاریب میں مقامی افراد کی شرکت ممنوع ٹھہری۔ ہاں نوکر‘ ویٹر‘ بٹلر‘ خدام اور شراب پیش کرنے والے مقامی ہوتے تھے۔ انہی دنوں انگریزوں کے کلبوں میں بھی مقامیوں کا داخلہ بند کر دیا گیا۔
یہ سب تو تمہید تھی۔ عرضِ مدّعا اور ہے۔ ڈالرمپل کی یوں تو ہر کتاب کمال کی ہوتی ہے مگر ''The Last Mughal‘‘کا جواب نہیں۔ اس کا اہم سورس ذاتی ڈائریاں اور روزنامچے ہوتے ہیں۔بہادر شاہ ظفر کے عہد میں اصل حکومت سر تھامس میٹکاف کی تھی جو انگریزی حکومت کا ریزیڈنٹ ایجنٹ تھا۔ اس نے دہلی میں بہت بڑا محل بنوایا تھا جسے اس کے ہندوستانی ملازم'' مٹکا کوٹھی‘‘ کہتے تھے اس لیے کہ میٹکاف کا تلفظ ان کے لیے مشکل تھا! ڈالرمپل لکھتا ہے کہ انگریز ریزیڈنٹ اور اس کے انگریز ماتحت صبح سات بجے اپنے دفتروں میں پہنچ جاتے تھے۔ گیارہ بجے تک وہ بہت سا کام نمٹا چکے ہوتے تھے‘ دلی کی جانکاہ گرمی سے بچنے کے لیے وہ گیارہ بجے اپنے دفتروں سے اُٹھ کر گھروں میں آجاتے تھے تاکہ دوپہر گزار کر دوبارہ کام پر جائیں۔ گیارہ بجے جب وہ لَوٹ رہے ہوتے تھے تو ٹھیک اُس وقت شاہی قلعے میں شاہی خاندان کے افراد‘ بشمول بادشاہ‘ بیدار ہونے کے لیے انگڑائیاں لے رہے ہوتے تھے۔
شاہی قلعے کی یہ روایت ہم اہلِ پاکستان ابھی تک نبھا رہے ہیں! پورا ملک رات کو جاگتا ہے اور صبح دیر سے اٹھتا ہے۔آپ ترقی یافتہ ملکوں کا جائزہ لے لیجیے۔ سب میں یہ بات مشترک ہے کہ رات کا کھانا چھ بجے اور سات بجے کے درمیان کھاتے ہیں۔ جلد سوتے ہیں اور صبح جلد اُٹھ کر اپنے اپنے کام پر پہنچتے ہیں۔ کچھ عزیز ان ملکوں میں کنسلٹنٹ ڈاکٹر ہیں یعنی اپنے اپنے شعبے میں سپیشلسٹ ! کیا آپ یقین کریں گے کہ یہ لوگ صبح سات بجے گھر سے نکلتے ہیں! آپ سرکاری اور نجی‘ دونوں قسم کے ہسپتالوں کا سروے کر کے دیکھ لیجیے۔ اپنے ملک میں شاید ہی کوئی ڈاکٹر ہو جو صبح سویرے ڈیوٹی پر آئے۔ اس سے بھی زیادہ شرمناک حقیقت یہ ہے کہ بڑے ڈاکٹر ( یعنی کنسلٹنٹ ) سب سے زیادہ تاخیر سے آتے ہیں۔ اس لکھنے والے کو بارہا ذاتی تجربہ ہوا ہے۔
پبلک سیکٹر یعنی سرکاری شعبہ اس لحاظ سے مکمل طور پر تباہی کے راستے پر ہے۔ وزیر‘ سیکرٹری‘ افسر اہلکار سب دس‘ گیارہ بجے آتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دوسرے سے مل کر پی آر کرتے ہیں۔ کبھی چائے کا وقفہ ہو جاتا ہے‘ کبھی کسی اور چیز کا۔ وزیر حضرات تو کئی کئی دن آتے ہی نہیں۔ ان کا گھڑا گھڑایا‘ سدا بہار بہانہ ہے کہ اپنے حلقے میں گئے ہوئے ہیں! میاں صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران ایک وزیر صاحب‘ جن کا تعلق ایک مذہبی جماعت سے تھا‘ صرف بدھ کے دن‘ یعنی ہفتے میں ایک مرتبہ‘ دفتر تشریف لاتے تھے۔
سب سے زیادہ اندھیر تاجر برادری نے برپا کر رکھا ہے۔ ہر حکومت نے انہیں راہِ راست پر لانے کی کوشش کی مگر ان کی خود سری کسی نظم و ضبط کو نافذ نہیں ہونے دیتی۔ ساری ترقی یافتہ دنیا میں بازار صبح نو بجے کھل جاتے ہیں اور غروبِ آفتاب کے لگ بھگ بند ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں بازار دن کے بارہ بجے کے بعد کھلتے ہیں اور رات دس گیارہ بجے اور بعض بارہ بجے بند ہوتے ہیں۔ کچھ تاجر میرے عزیز ہیں۔ یہ لوگ شام کا کھانا رات بارہ بجے کھاتے ہیں۔ خریداروں کو بھی یہی عادت پڑ گئی ہے۔ یہ بھی شام کے بعد بیوی بچوں کو لیکر شاپنگ کے لیے نکلتے ہیں اور آدھی رات کو واپس آتے ہیں۔ بظاہر مستقبل میں بھی ان اوقات کے بدلنے کا کوئی امکان نہیں نظر آرہا!!
یہ رونا آج کا نہیں‘اور ایک بار کا نہیں! نہ جانے کتنے لکھاری اس صورتحال پر آنسو بہا چکے ہیں اور بہاتے رہیں گے! تقریبات کا حال دیکھ لیجیے۔ شادی بیاہ کے فنکشن ہماری بے حسی کا سب سے بڑا ثبوت ہیں۔ دعوت نامے پر جو وقت درج ہوتا ہے اس وقت اگر پہنچیں تو میزبان تک نہیں آیا ہوتا۔ شرفا لباس ہائے فاخرہ پہنے‘ایک روٹی‘ چند بوٹیوں یا چاول کی ایک پلیٹ کے انتظار میں گھنٹوں نہیں پہروں انتظار کرتے ہیں! سرکاری تقریبات میں صدر اور وزیر اعظم سے لے کر وزرا اور افسران تک حاضرین کو گھنٹوں انتظار کراتے ہیں! اس پر غیر ملکی مہمانوں کے تاثرات کئی بار سامنے آچکے ہیں! ہماری قومی ایئر لائن وقت کی پابندی کا منہ چڑانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔پروازوں میں تاخیر اس کی شناخت بن چکی ہے۔ لاتعداد ملکی اور غیر ملکی مسافر اس میں سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں! شمالی علاقہ جات کے مسافروں کو جس طرح خوار کیا جاتا ہے اس پر ماتم کیا جانا چاہیے!
ہو سکتا ہے کچھ بے وقوف والدین آج کے دور میں بھی بچوں کو سچ بولنے اور وعدہ ایفا کرنے کی تلقین کرتے ہوں‘ مگر یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ وقت کی پابندی کا کوئی بھی نہیں کہتا ہو گا اس لیے کہ وقت کی پابندی کا انحصار دوسروں پر بھی ہے! تقریب وقت پر نہ شروع ہو‘ دکاندار وقت پر دکان نہ کھولے‘ جہاز یا ٹرین وقت پر نہ چلے‘دفتر میں افسر یا اہلکار وقت پر نہ آئے تو اپنے طور پر وقت کی پابندی کرنے والا خائب و خاسر ہونے کے علاوہ کیا کر سکتا ہے! ڈاکٹر حضرات دہرا ظلم کرتے ہیں۔ سرکاری ہسپتال سے مریضوں کا رُخ نجی کلینک کی طرف موڑا جاتا ہے اور نجی کلینک میں ڈاکٹر صاحب گھنٹوں انتظار کراتے ہیں!اسلام آباد میں ایک معروف ماہرِ امراضِ جلد ہیں جن کے ہاں گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے۔ صاحبزادے نے اپنے بچے کو دکھانا تھا۔ چار گھنٹے انتظار کرنے کے بعد ناکام واپس لوٹے۔ راولپنڈی صدر ویسٹرج کے نزدیک ایک مشہور نیورو فزیشن ہیں۔ ان کے ہاں بلا مبالغہ چھ سے آٹھ دس گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہم اہلِ پاکستان کا بس چلے تو مسجدوں میں اذانیں اور نمازیں بھی اسی انداز سے ادا کریں! موت کا فرشتہ اگر ہم سے وقت لے کر آئے تو انتظار ہی کرتا رہے گا!
اس درد ناک‘ شرمناک اور عبرتناک موضوع پر یہ پہلی تحریر ہے نہ آخری! اس معاشرے کی یہی قسمت ہے! جو قوم وقت کی پابندی نہیں کر سکتی اس کا ترقی کر جانا معجزہ ہے اور معجزوں کا زمانہ ختم ہو چکا!فرد ہے یا خاندان‘ حکومت ہے یا نجی شعبہ‘ ادارے ہیں یا جماعتیں‘ سب اس سرطان میں مبتلا ہیں! معاف کیجیے گا‘ مجھے ایک تقریب میں پہنچنا ہے۔ پہلے ہی ایک گھنٹہ تاخیر ہو چکی ہے! اجازت چاہتا ہوں !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں