نوجوان نے اشعار سنائے اور چونکا دیا۔
اب تو کم ہی ایسے نوجوان ہیں جن کے اشعار چونکا دیں۔ اکثر کے اشعار تو اُونگھ لانے میں مدد دیتے ہیں۔ شاعری کے دشمن ہمیشہ سے بہت تھے جیسے بدذوق لوگ اور ناشاعر جو خود کو شاعر کہتے تھے۔ مگر جو دشمنی سوشل میڈیا نے شاعری کے ساتھ کر کے دکھائی ہے اس کی مثال ادب کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پبلشر سر پیٹ رہے ہیں کہ جو تھوڑی بہت شاعری کی کتابیں فروخت ہوتی تھیں‘ وہ بھی سوشل میڈیا کے طفیل نہیں بِک رہیں! پہلے ایک طویل پروسیس ہوتا تھا۔ شاعر ایک مدت تک ادبی جرائد میں چھپتا تھا۔ کڑی تنقیدی آرا کا سامنا کرتا تھا۔ برسوں اپنی اصلاح اور تہذیب پر توجہ دیتا تھا۔۔ تب جا کر اپنا مجموعہ کلام شائع کرنے کی جرأت کرتا تھا۔ سوشل میڈیا شاعری کو شیور کی مرغی کی سطح پر لے آیا ہے۔ مصنوعی خوراک‘ مصنوعی وزن اور مصنوعی پکوان! پہلے مرغ مہینوں اور برسوں میں تیار ہوتا تھا اب دنوں میں!! شاعر فیس بک پر اپنے اشعار لکھتا ہے۔ یوٹیوب پر سناتا ہے۔ فارورڈ کیا جاتا ہے۔ شاعری ٹیگ ہوتی ہے۔ لائکس ملتے ہیں۔ کمنٹس وصول ہوتے ہیں۔ لیجیے! ثقاہت حاصل ہو گئی۔سند مل گئی! اور اگر معاملہ شاعر کا نہیں ‘ شاعرہ کا ہے تو پھر تو لائکس کی تعداد شمار کرنا ہی مشکل ہے! آپ کا کیا خیال ہے سوشل میڈیا غالبؔ اور ذوقؔ کے زمانے میں ہوتا تو کیا ہوتا؟ ذوقؔ استادِ شاہ تھے! شاہی حکم سے سینکڑوں آئی ڈی وجود میں آ جاتیں! ذوقؔ سوشل میڈیا کے ذریعے چھا جاتے اور غالبؔ منہ دیکھتے رہ جاتے! سوشل میڈیا کے بعد‘ دوسرے نمبر پر سوقیانہ مشاعرے شاعری کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں مشاعروں کے ذریعے نوجوان طلبہ و طالبات کو انتہائی مبتذَل ‘ پست اور عامیانہ اشعار سنائے جا رہے ہیں ۔ ان اشعار پر طلبہ و طالبات واہ واہ کر کے داد نہیں دیتے بلکہ سیٹیاں بجا کر ‘ شور مچا کر اور چیخ کر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ شعر میں کالج اور لڑکی کے الفاظ آجائیں تو خوب ہڑبونگ مچتی ہے اور شاعر دیر تک حاضرین کو سیلوٹ کرتا رہتا ہے۔ ''مقبولیت ‘‘ حاصل کرنے کیلئے ہر سوشل میڈیائی شاعر کی خواہش ہوتی ہے کہ ٹین ایجرز کو خوش کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرے!
مگر اس نوجوان کی شاعری مختلف نسل کی تھی! مثلاً
بڑے زمانے کے بعد آیا ہے شعر کہنا
کشیدہ کاری بڑے زمانے کے بعد آئی
٭......٭......٭
حدِّ نظر سراب ہے پانی تو ہے نہیں
صحرا کی گرد ہم نے اڑانی تو ہے نہیں
چلتا نہیں ہے اس پہ ہمارا کچھ اختیار
یہ زندگی ہے کوئی کہانی تو ہے نہیں
کیوں دیکھ بھال اس کی کریں ہم تمام عمر
یہ زخم کوئی اس کی نشانی تو ہے نہیں
رکھنا ہے خود کو شورِ جہاں سے الگ تھلگ
آواز اس میں اپنی ملانی تو ہے نہیں
یہ شاعر تاج الدین تاج تھا۔یہ لاہور کا ہے نہ کراچی کا! اسلام آباد سے تعلق ہے نہ پشاور سے! اس کا مولد کوئٹہ ہے نہ ملتان! اس کا تعلق کسی بڑے شہر سے نہیں! اسی لیے آپ نے اس کا نام سنا ہو گا نہ کلام!تاج الدین تاج ‘ بڑے شہروں کے ہنگاموں سے دور‘ شنکیاری کے چھوٹے سے‘ پہاڑوں سے گھِرے قصبے میں رہتا ہے۔ ایک اور نوجوان نے اشعار سنائے
کیا تجھے علم ہے اس دل کے پری خانے میں
میں نے اِک عمر ترے درد کو مہمان کیا
آپ کا دشت آپ کے آہو
خاک جم جم اڑائیے صاحب
یہاں آسیب تک نہیں رہتا
میرے اندر سے جائیے صاحب
آپ جاتے ہیں‘ پر نہیں جاتے
جائیے‘ پھر نہ آئیے صاحب
کوئی منظر بھی نہیں دھند کی چادر کے سوا
آنکھ ویراں ہے کہ تصویر میں ویرانی ہے
یہ چاند ستارے کبھی زیور تھے زمیں کے
افلاک نے دھرتی سے چرایا ہے بہت کچھ
باہر سے تو رونق ہے وہی آج بھی لیکن
اس عشق نے اندر سے جلایا ہے بہت کچھ
ایک دن روح پلٹ جائے گی منزل کی طرف
اور یہ جسم بھی اک روز ٹھکانے لگے گا
یہ نوجوان اخلاق احمد اعوان تھا! دماغ کے اعتبار سے فارمیسی کا ماہر اور دل کے اعتبار سے شاعر! یہ بھی کراچی لاہور اسلام آباد پشاور سے دور ‘ ایبٹ آباد کے کوہستانی سلسلے میں فروکش ہے! یہ اور ایسے بہت سے قابلِ ذکر شعرا آپ کو ٹی وی کے کسی مشاعرے میں نظر نہیں آئیں گے۔ اس لیے کہ پاکستان ایک نہیں‘ دو ہیں اور ان کا تعلق پہلے پاکستان سے نہیں دوسرے پاکستان سے ہے! پہلا پاکستان کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد‘ پشاور اور کوئٹہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس پاکستان میں چھلکتے بازار ہیں اور ہر رنگ اور ہر جسامت کے مال اور پلازے! ان شہروں میں رہنے والے شعرا خوش بخت ہیں کیونکہ ان کی تشہیر ہوتی ہے۔ لوگ ان کے نام سے روشناس ہیں اور کلام سے متمتع ہوتے رہتے ہیں! ہر ٹی وی مشاعرے پر دکھائی دیتے ہیں حالانکہ ان میں سے کچھ چہروں سے لوگ اُکتا چکے ہیں اور کچھ کا کلام جو وہ مشاعروں میں سناتے ہیں ‘ سامعین اور ناظرین کو ماشا اللہ حفظ ہو چکا ہے! دوسرا پاکستان ان چمکتے دمکتے شہروں سے دور قصبوں اور قریوں میں ہے جہاں ٹیلنٹ ہے مگر اُس ٹیلنٹ کو پالش اور صیقل کرنے والا کوئی نہیں! جہاں ذہانت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے لیکن مواقع کا قحط ہے! جہاں موتی اور ہیرے موجود ہیں مگر مٹی میں رُل رہے ہیں۔ اس دوسرے پاکستان میں اچھے طلبہ و طالبات ہیں یا اچھے شعرا‘ ان کے آگے بڑھنے کے امکانات کم ہیں ! بہت ہی کم ! بقول فراق ؔ:
وہ پھریں اپنے در و بام پہ اہلے گہلے
عشق آوارہ پھرے دشت میں تنہا تنہا
جن دنوں آغا ناصر مرحوم پاکستان ٹیلی ویژن کے سربراہ تھے ‘ اس لکھنے والے نے اُن کی خدمت میں عرض کیا کہ ہر مشاعرے میں لوگ بابے دیکھ دیکھ کر اُکتا چکے ہیں۔ ایسا مشاعرہ کرائیے جس میں یہ متقدّمین حضرات نہ دکھائی دیں! آغا صاحب بہت بڑے انسان تھے۔ یہ ان کی بڑائی ہی تھی کہ مجھ جیسے بے بضاعت سے بھی محبت کرتے تھے۔ چنانچہ ایسا مشاعرہ کرایا جس میں صرف قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والے شعرا کو مدعو کیا گیا! آج اگر آغا صاحب ہوتے یا ان جیسا کوئی صاحبِ دل الیکٹرانک میڈیا کے تخت پر رونق افروز ہوتا تو میں ‘ کہ اب خود بھی چھوٹا موٹا بابا ہوں‘ تجویز کرتا کہ ایسا مشاعرہ کرائیے جس میں بڑے شہروں سے کسی کو بھی نہ بلایا جائے‘ صرف قصبوں‘ قریوں اور چھوٹے شہروں کے شعرا کی پذیرائی کی جائے!!