یہ ایک نسبتاً خوشگوار شام تھی ! بادل تھے اور ہوا بھی !!میں نے نوٹ کیا کہ سارا دن گھر کی جھاڑ پونچھ کرنے کے بعد اہلیہ تھکاوٹ سے بے حال چارپائی پر جیسے گر ہی گئی تھی۔ ہماری خواتین‘ گھر خواہ پانچ مرلے کا ہو یا کئی کنال کا‘ صفائی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتی ہیں اور شام کو ہائے ہائے کرنے لگتی ہیں۔
کھڑکی سے بادل نظر آرہے تھے اور ہوا سے درختوں کی رقص کرتی‘ جھومتی ٹہنیاں بھی !! اہلیہ سے کہا کہ آؤ گاڑی میں ذرا باہر کا ایک چکر لگا کر آتے ہیں! وہ نیک بخت عفیفہ آکر گاڑی میں بیٹھ گئی۔ میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی چلانے لگا!
جنوبی ایشیا کے اس سلگتے‘ جلاتے اور بھونتے موسم میں کم ہی ایسی شامیں ہوتی ہیں جن میں ڈرائیونگ سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ ہم شاہراہ کے ایک ایسے ٹکڑے سے گزر رہے تھے جس کے دونوں طرف گھنے درخت تھے۔ دائیں طرف دیکھا تو درخت کے نیچے کرسی پر ایک صاحب بیٹھے تھے۔ میں رُک گیا۔ شکل جانی پہچانی لگ رہی تھی۔ جس کرسی پر یہ صاحب بیٹھے ہوئے تھے وہ کوئی عام کرسی نہیں لگ رہی تھی۔ پشت سے خاصی اونچی تھی جیسے تخت کی پشت پر دونوں طرف‘ اونچے‘ مینار نما ڈنڈے نصب ہوتے ہیں۔نشست والی جگہ سے کمخواب کی جھالر لٹک رہی تھی۔ گاڑی ایک طرف کھڑی کر کے میں باہر نکلا اور اس شخص کی طرف بڑھا۔ذہن اس اثنا میں یاد داشت کے سمندر میں کئی غوطے لگا چکا تھا! کرسی کے قریب پہنچ کر اچانک ایک روشنی سی ذہن میں در آئی اور میں نے اس شخصیت کو پہچان لیا۔ یہ تو مغل بادشاہ نور الدین جہانگیر تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر‘ جھک کر‘ مصافحہ کیا اور عرض کیا کہ جہاں پناہ کو پہچان لیا ہے ! آپ یہاں کیسے ؟ فرمایا: تمہیں میں جانتا ہوں۔ ہند کی تاریخ کے طالب علم ہو! دست بستہ کھڑے ہو کر پوچھا ''جناب یہاں کیسے ؟‘‘ کہنے لگے: فرشتوں کی کرمفرمائی ہے۔ چند دنوں کے لیے اس دنیائے دُوں میں واپس بھیجا ہے کہ اُن عجائبات کو دیکھ سکوں جو میرے زمانے کے بعد ظہور پذیر ہوئے ہیں! پہلے تو سیاہ رنگ کی اس پکی شاہراہ کو دیکھ کر میں حیران ہوا۔ پھر اس پر تیزی سے چلتی‘ بلکہ بھاگتی ہوئی سواریاں ! جو بگھیوں جیسی ہیں !
شہنشاہ معظم نے میری گاڑی کو دیکھا جس میں میری اہلیہ بیٹھی تھی۔ مجھ سے پوچھا کیا تم شاہی خاندان سے ہو؟ عرض کیا! نہیں عالی جاہ! میرا تو یہاں کے شاہی خاندانوں سے دور دور کا تعلق نہیں! عام آدمی ہوں! اور عام آدمی ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ بجلی اور گیس کے بِل ساری زندگی اپنی جیب سے ادا کیے۔شہنشاہ نے حیرت سے پوچھا کہ پھر تمہارے پاس یہ تیز بھاگتی ہوئی بگھی کیسے ہے؟ عرض کیا کہ سلطانِ معظم! اس بگھی کو گاڑی کہتے ہیں۔ یہ اب عام شہریوں کے پاس بھی ہوتی ہے۔ میں اور میری اہلیہ ذرا '' لانگ ڈرائیو‘‘ کے لیے نکلے ہیں۔ مجھ سے پوچھا :تم سر تھامس راؤ کو تو جانتے ہی ہو گے؟ عرض کیا: حضور!! جانتا ہوں! برطانوی سفارت کار تھا جو جہاں پناہ کے دربار سے وابستہ تھا! شہنشاہ فرمانے لگے: تو پھر تم نے اس کی وہ تحریر بھی پڑھی ہو گی جس میں اُس نے میری '' لانگ ڈرائیو‘‘ کے بارے میں لکھا ہے! عرض کیا بندہ پرور! بالکل پڑھی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ آپ ایک دن رومانٹک موڈ میں تھے۔ آپ نے کوچوان کو فارغ کر دیا۔ساتھ ملکہ نور جہاں کو بٹھایا اور بیل گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہوئے ہوا خواری کو نکل گئے۔ شام خوشگوار تھی اس لیے گاڑی کا چھت ہٹا دیا گیا تھا۔ یہ شام صرف اور صرف آپ کی تھی! پھر جب آپ واپس تشریف لائے تو چراغ گُل کر دیے گئے تاکہ ملکہ معظمہ کو بیل گاڑی سے اترتے ہوئے کوئی دیکھ نہ سکے۔
شہنشاہ فرمانے لگے :دیکھو تم ایک عام آدمی ہو کر اہلیہ کے ساتھ اس‘ برق رفتار‘ طلسمی بگھی میں سیر کر رہے ہو اور میں شہنشاہ ٔہند ہو کر بیل گاڑی میں جاتا تھا۔ میں نے جھک کر عرض کیا کہ حضور انور ! یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔آپ کے عہدِ جہانگیری کا مقابلہ آج کے پاکستان سے کیا جائے تو آپ حیران اور پریشان ہو جائیں گے! طبقاتی تقسیم آپ کی سلطنت میں بھی تھی! اَپر کلاس نے آپ کے دورِ زرّیں میں بھی بہت مزے اُڑائے۔مگر جو کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے‘ اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے! آپ کے عہد میں بھی عدالتوں میں قاضی تعینات تھے۔ مگر خزانوں کے منہ جس طرح آج کے قاضی حضرات کے لیے پنجاب حکومت نے کھول دیے ہیں اس کا آپ کی حکومت میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ گیارہ قاضیوں کو چھتیس کروڑ روپے کا قرض‘ بلا سود‘ دیا گیا ہے! یک مشت بانٹے جانے والے یہ بھاری قرضے واپس قسطوں میں لیے جائیں گے جبکہ ان قاضی حضرات میں سے کچھ ریٹائر بھی ہو جائیں گے۔ بھاری بھرکم مشاہرے اور ڈھیروں مراعات حاصل کرنے والے حضرات کو قرضے بلا سود پیش کیے جا رہے ہیں اور پلیٹ میں رکھ کر پیش کیے جارہے ہیں مگر کسی غریب پاکستانی کو اول تو قرض ملتا ہی نہیں اور اگر مل جائے تو سود اتنا دینا پڑتا ہے کہ نسلیں یاد رکھتی ہیں۔
حضور جب بادشاہ تھے اور بیمار پڑتے تھے تو آپ کا علاج وہی طبیب اور وید کرتے تھے جو ملک میں موجود ہوتے تھے۔آپ کے والد بزرگوار‘ اکبر اعظم‘ جب علیل ہوئے تو ان کا علاج حکیم علی گیلانی نے کیا جو ایک مقامی طبیب تھے۔ پھر جب آپ کے فرزند شاہ جہاں کی پسندیدہ بیٹی جہاں آرا کے ریشمی لباس نے ایک چراغ سے آگ پکڑی اور وہ بری طرح جھلس گئی تو طبیب ایران سے منگوائے گئے نہ کسی اور پڑوسی ملک سے! بادشاہ کے ملازموں میں سے ایک ملازم عارف چیلا نے شہزادی کے لیے ایک خاص مرہم تیار کی۔ پھر ایک مقامی فقیر نے جس کا نام ہامون تھا‘ شہزادی کا علاج کیا۔ مگر شہنشاۂ معظم! آج کے حکمران تو چھینک آنے پر بھی بیرون ملک جاتے ہیں اور چھینک کا علاج لندن سے ہوتا ہے یا دبئی سے یا امریکہ سے! بڑے بھائی تو پہلے ہی علاج کے لیے لندن میں مقیم ہیں اور کئی برسوں سے وہاں علاج کرا رہے ہیں! اب ماشااللہ چھوٹے بھائی بھی‘ وزارتِ عظمیٰ سے فراغت پاتے ہی‘ لندن تشریف لے گئے ہیں اور ابھی تک وہیں مقیم ہیں! عوام جب سنتے ہیں کہ چھوٹے میاں صاحب نے لندن سے ٹیلیفون پر میڈیا کو بتایا ہے کہ اللہ تعالی کا کرم ہے تمام ٹیسٹ کلیئر آگئے ہیں تو عوام سوچتے ہیں کہ دہائیوں تک مطلق العنان حکمرانی کرنے والے یہ محترم برادران اپنے ملک میں کوئی ایک شفاخانہ بھی ایسا نہ بنا سکے جہاں علاج تو چھوڑیے‘ ٹیسٹ ہی کرا لیتے!! عوام جب سنتے اور پڑھتے ہیں کہ علاج اور بعد میں ٹیسٹ بھی لندن ہی سے کرائے جاتے ہیں تو جو کلمات ان کے منہ سے نکلتے ہیں‘ وہ صفحۂ قرطاس پر منتقل نہیں کیے جا سکتے ! زرداری صاحب جب اپنے عہدِ صدارت میں بیمار پڑے تو علاج کے لیے دبئی منتقل ہو گئے اور قصر ِصدارت کا عملہ بھی‘ اس عرصہ کے لیے‘ وہیں جا بسا!! اس سال کے آغاز میں بھی زرداری صاحب‘ خدا انہیں تندرست رکھے‘ علاج کے لیے دبئی ہی گئے۔ ان دونوں حکمران خاندانوں کو لندن اور دبئی ہی سے شفا ملتی ہے جبکہ پاکستانی عوام سرکاری ہسپتالوں میں دھکے کھاتے ہیں یا نجی ہسپتالوں میں کھال اترواتے ہیں!
شہنشاہ معظم میری بات سنتے رہے! پھر ایک ہی فقرہ کہا کہ ہم مغل بادشاہ تو آج کے پاکستانی حکمرانوں اور اشرافیہ کے مقابلے میں نچلے طبقے سے بھی بدتر تھے! پھر میں نے انہیں کسی کو یہ کہتے سنا کہ مجھے واپس لے جاؤ ! میں اس ظلمت کدے میں نہیں رہ سکتا!!