اُس دن شوہر کا دل پسیجا ہوا تھا۔ اس نے ہر وقت گھر کے کاموں میں مصروف بیوی کو پیشکش کی کہ آج اُس کے لیے چائے وہ بنائے گا۔ تھکی ہوئی بیوی پہلے حیران ہوئی۔ پھر اس نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا اور ٹی وی لگا کر صوفے پر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد اسے رسوئی سے میاں کی آواز آئی۔ ذرا آنا مجھے چولہا جلا دینا۔ معلوم نہیں ہو رہا کون سے چولہے کی کون سی ناب ہے۔ بیوی اُٹھی۔ چولہا جلا کر دیا پھر آکر صوفے پر بیٹھ گئی۔ کچھ دیر کے بعد پھر آواز آئی۔ ذرا آکر پتی والا ڈبہ ڈھونڈ دو‘ مجھے مل نہیں رہا۔ بیوی نے آکر پتی والا ڈبہ دیا جو بالکل سامنے پڑا تھا۔ وہ پھر ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئی۔ ایک بار پھر میاں نے مدد کے لیے پکارا۔ چھلنی کہاں پڑی ہے۔ اب کے بیوی نے چھلنی ڈھونڈ کر دینے کے بجائے‘ بہت نرمی سے کہا کہ آپ جا کر ٹی وی دیکھیے‘ میں چائے بنا لیتی ہوں! یہ مثال صادق آتی ہے اس بات پر کہ حکومت سے کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ بجلی کی چوری پکڑنے والے محکمے حکومت کی تحویل میں ہیں مگر یہ کام آرمی چیف کروا رہے ہیں۔ ڈالر کے پر کاٹنے والی ساری قینچیاں حکومت کے پاس ہیں مگر یہ کام بھی فوجی سربراہ کے ذمے ہے۔ تاجروں اور صنعت کاروں کے ساتھ ملاقات بھی آرمی چیف نے کی۔ اصولی طور پر یہ کام بھی حکومت کا تھا۔
اگر بیوروکریسی میں دم خم ہوتا تو یہ سارے کام آرمی چیف کو نہ کرنا پڑتے۔ بیورو کریسی میں دم خم کیوں نہیں؟ اس کی وجہ سیاسی مداخلت‘ اقربا پروری اور سفارش ہے۔ افسر کو ایک سیٹ پر مدت پوری ہی نہیں کرنے دی جاتی۔ آپ کسی سیکرٹری‘ کسی پولیس افسر‘ کسی اے سی‘ کسی ڈی سی‘ کسی اکاؤنٹنٹ جنرل‘ کسی کسٹم افسر‘ کسی ٹیکس افسر کے دفتر کی دیوار پر لگا وہ بورڈ دیکھ لیجیے جس پر اُس دفتر میں تعینات افسروں کے قیام کی مدت درج ہے۔ بورڈ پڑھ کر آپ پر تین رد عمل ہوں گے۔ پہلے آپ حیران ہوں گے۔ پھر ہنسیں گے اور آخر میں روئیں گے۔ کوئی افسر چار ماہ رہا‘ کوئی ایک سال‘ کوئی چند ہفتے اور کوئی چند دن! اس لیے کہ بیورو کریسی میں کیریئر پلاننگ عنقا ہے۔ پہلے وفاق کی بات کرتے ہیں۔ وفاق میں تین ادارے ہیں جو بیورو کریسی کی ترقیوں‘ تبادلوں اور تعیناتیوں کے ذمہ دار ہیں۔ پہلا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن۔ یہ وفاقی وزارتوں میں اور صوبوں میں افسر بھیجتا ہے۔ جو کارپوریشنیں اور نیم سرکاری ادارے وفاق کے ماتحت ہیں ان میں بھی بیورو کریسی کو یہی تعینات کرتا ہے۔ دوسرا آڈیٹر جنرل آف پاکستان۔ یہ صوبوں کے اکاؤنٹنٹ جنرلز کے دفتروں کا ذمہ دار ہے۔ دفاع اور ریلوے میں بھی آڈٹ اور اکاؤنٹس کے افسران بھیجنے اور ہٹانے کا انچارج ہے۔ تیسرا ایف بی آر۔ جو کسٹم اور ٹیکس کے افسران کا مائی باپ ہے۔ ان تینوں اداروں میں کیریئر پلاننگ صفر ہے۔ تعیناتی کا اور تبادلوں کا کوئی اصول ہے نہ معیار۔ بس ایک ہی اصول ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ کچھ کالم نگار جی ایچ کیو کی ملٹری سیکرٹری ( ایم ایس) برانچ کی مثالیں بہت دیتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایم ایس برانچ کے کام میں اہلِ سیاست دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ افواج میں ہر افسر کا کیریئر پلاننگ چارٹ بنتا ہے۔ صرف ایک مثال لے لیجیے۔ اگر ایک افسر کو ملک کے جنوبی زون میں رکھا گیا ہے تو اس کے بعد اسے لازماً وسطی یا شمالی زون میں جانا ہو گا۔ کمانڈ پوسٹ پر رہنے کے بعد سٹاف پوسٹ پر لازماً کام کرنا ہو گا۔ اگر کسی پوسٹ پر تعیناتی کی مدت دو سال ہے تو اسے دو سال سے پہلے وہاں سے ہٹایا نہیں جائے گا سوائے اس کے کہ اس کی ترقی ہو گئی ہے یا ڈسپلن کا معاملہ ہے۔ سول بیورو کریسی میں کسی افسر کو یہ معلوم نہیں کہ اسے کب اٹھا کر کہیں اور پھینک دیا جائے گا۔ کتنا عرصہ فیلڈ میں رکھنا ہے؟ کتنا مرکز میں؟ کتنا صوبوں میں؟ افسر کو معلوم ہے نہ خود ادارے کو! لطیفہ یہ ہے کہ اگر او ایس ڈی بن گیا ہے تو خود حکومت کہتی ہے کہ کہیں سے Requisition یعنی بلاوا لاؤ اور پوسٹنگ کرا لو۔
سب سے زیادہ افسوسناک کردار اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا ہے۔ اس کی حیثیت صرف ایک ڈاکخانے کی ہے۔ ادھر کا سامان اُس طرف اور اُس طرف کا سامان ادھر! اگر وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکرٹری کو فون کر کے کہتا ہے کہ فلاں سیکرٹری یا فلاں ایڈیشنل سیکرٹری یا فلاں جوائنٹ سیکرٹری یا فلاں کمشنر یا فلاں آئی جی کا تبادلہ فلاں جگہ کر دو۔ تو کیا سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ معذرت کرے گا؟ اور کیا بتائے گا کہ اس طرح کرنے سے افسر کا کیریئر متاثر ہو گا اور ہم نے جو سسٹم بنایا ہوا ہے اس میں خلل پڑے گا؟ نہیں! ہر گز نہیں! سسٹم کا تو وجود ہی کوئی نہیں! کیریئر پلاننگ صفر ہے۔ وزیراعظم کے میر منشی کے حکم کی فوری تعمیل ہو گی۔ کسی افسر کی لاہور میں پوسٹنگ ہوئی ہے تو بس یوں سمجھیے لاہور سے نکاح ہی ہو گیا۔ جی او آر میں محل مل گیا۔ افسر گویا پا بہ زنجیر ہو گیا۔ اب اگر اسے لاہور سے باہر کہیں اور بھیجا گیا تو قیامت آجائے گی۔ افسر چوہدریوں کے گھر جا بیٹھے گا یا رائے ونڈ کی طرف جائے گا۔ اور تبادلہ رکوا کر رہے گا۔
یہ لکھنے والا ایک زمانے میں جی ایچ کیو میں‘ چیف کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس کے طور پر تعینات تھا۔ آرمی کا حساب کتاب کرنے کے لیے دس بارہ کنٹرولر ہیں جو مختلف شہروں میں تعینات ہیں۔ ان میں ایک کنٹرولر پنشن بھی ہے جو لاہور میں بیٹھتا ہے۔ ابھی کنٹرولر پنشن کو اس پوسٹ پر تعینات ہوئے سات آٹھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ اسے وہاں سے ہٹانے کے احکام موصول ہو گئے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے دفتر سے اس تبادلے کی وجہ پوچھی گئی تو وہ کوئی جواز نہ دے سکے۔ چیف کنٹرولر نے حکم ماننے سے معذرت کر دی مگر حکم نہ ماننے کے لیے بھی ہمت درکار ہے جو ہر کوئی نہیں کر سکتا۔
رہے صوبے تو وہاں احوال بدتر ہے۔ شہباز شریف صاحب کے عہد میں احکام ان کے صاحبزادے کے چلتے تھے اور عمران خان کے دور میں گجر خاندان کے۔ ایک ایک سال میں کئی چیف سیکرٹری‘ کئی آئی جی اور کئی سیکرٹری بدلے گئے۔ کہاں کا نظام اور کون سی کیرئیر پلاننگ؟ رہے ایس ایچ او تو انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ کل تو دور کی بات ہے آج شام تک بھی رہ پائیں گے یا نہیں!! آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کے جس افسر نے ریلوے اکاؤنٹس میں ایک دن بھی کام نہیں کیا اسے ریلوے اکاؤنٹس کا سربراہ یعنی ممبر فنانس ریلوے لگایا جا سکتا ہے۔ کیرئیر پلاننگ چارٹ ہو تو اسے ریلوے کاؤنٹس‘ ملٹری اکاؤنٹس‘ سول اکاؤنٹس‘ آڈٹ‘ سفارت خانوں کا آڈٹ‘ وفاق‘ صوبے‘ تمام شعبوں میں کام کرنے کا تجربہ دلوایا جائے گا۔
بیورو کریسی کی اس انارکی کو کون دور کرے گا؟ سیاسی مداخلت کس طرح ختم ہو گی؟ پولیس کب آزاد ہو گی؟ آئی جی پولیس کو کب یہ اعتماد حاصل ہو گا کہ پوسٹنگ ٹرانسفر صرف اسی کے اختیار میں رہے گی؟ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں‘ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے دفتر میں اور ایف بی آر میں کیرئیر پلاننگ کے چارٹ کب بنیں گے؟ ایک افسر کو کب یہ یقین ہو گا کہ اسے تین سال سے پہلے نہیں ہٹایا جائے گا اور یہ کہ وہ تین سال کے لیے اپنے کام کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔ لسانی اور برادری کی بنیادوں پر نوازشات کی بیخ کنی کب ہو گی؟ تو کیا یہ بھاری پتھر بھی آرمی چیف نے اُٹھانا ہے؟
قر عہ فال بنامِ منِ دیوانہ زدند؟؟
کیا یہ قرعہ بھی اُسی کے نام نکلنا ہے؟؟